Tuesday, October 20, 2009

شاہ ابوالمعالی شاہ ولی اللہ محدث دہلویByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


شاہ ابوالمعالی
سید خیر الدین شاہنام
960ہجر&تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
ر آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔

شیخ عبدالحق دہلوی ایسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔

شاہ ابوالمعالی:۔جناب میاں میرکے علاوہ قادری سلسلے کو فروغ دینے والی ایک شخصیت آپ ہی کے زمانے میں ایک اور بھی تھی۔ یہ جناب شیخ شاہ ابو المعالی قادری تھے۔ آپ کا اصل نام سید خیر الدین شاہ تھا۔960ہجری میں پیدا ہوئے ۔ سید موسیٰ گیلانی کے ایک مشہر پیر بھائی داو?د شیر گڑھی کے جانشین تھے۔ آپ نے لاہور میں شاہ ابوالمعالی کے نام سے شہرت پائی ۔آپ بیرہ ضلع سرگودہا کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں۔ دارالشکوہ نے لکھا ہے کہ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ قادری سلسلے میں آپ کو شیخ داو?د کرمانی سے نسبت تھی۔ حد یقتہ الاولیاءمیںلکھا ہے کہ شیخ داو?د کرمانی شیر گڑھی کے حقیقی بھائی سید رحمت اللہ کے بیٹے ہیں۔ سید رحمت اللہ بن میر سید فتح اللہ کرمانی تین بھائی تھے۔ ایک شیخ داو?د کرمانی دوسرے سید جلال الدین کرمانی تیسرے یہی سید رحمت اللہ کرمانی جو شاہ ابوالمعالی قادری کے والد گرامی قدر ہیں۔

شاہ ابوالمعالی اپنے پیرو مرشد روشن ضمیر محترم جناب شیخ داو?د شیر گڑھی کی خدمت میں تیس برس رہ کر لاہور تشریف لائے۔ اور سلسلہ رشدوہدایت کا آغاز کیا۔ نیز کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق جب شیر گڑھ سے لاہور کا سفر اختیار کیا تو راستے میں جہاں جہا ں آپ ٹھہرے وہاں مسافروں کی سہولت کے لیے جا بجا کنوئیں، باغیچے، اور پختہ تالاب بنواتے چلے گئے۔ اسی پر قیاس کر لیجئے کہ جو لوگ منزل سلوک شاہ صاحب کی رہنمائی میں طے کرتے تھے۔ شاہ صاحب انہیں منزل مقصود پر پہنچانے پر کتنا اچھا اور پیار ا اہتمام نہ کرتے ہونگے۔ شاہ صاحب ایک شاعر بھی تھے۔ غربتی اور معالی آپ کا تخلص تھا۔ عربی اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ جن میں اکثر صوفیانہ خیالات ہی کا اظہار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے جناب سید عبدالقادر جیلانی کی منقبت میں رسالہ غوثیہ اور آپ کی کرامات کے موضوع پر تحفہ قادریہ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا نیز حلیہ سروردوعالم،گلدستہ باغ ارم، مونس جاں ، اور زعفران زار یہ کتابیں بھی آپ کی یادگار ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا ایک قلمی نسخہ?ہشت محفل? کے نام سے پنجاب یو نیورسٹی لاہور کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے ۔ جسے آپ کے صاحبزادے جناب محمد باقر نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے میں شاہ صاحب کے ملفوظات جمع کئے گئے ہیں۔

شاہ جی کس پائے کے بزرگ تھے ۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ایسے بزرگ آپ سے دلی ارادت رکھتے تھے۔ اور باطنی تسکین کے لیے اکثر آپ کی توجہ دستگیری و رہنمائی کے طالب رہتے تھے۔ اور صرف یہی نہیں کہ جناب شیخ آپ کی سطوت روحانی ہی کے قائل تھے۔ بلکہ اپنے تصنیف و تالیف کے مشغلے میں بھی اکثر آپ کی ہدایت اور مفید مشوروں کے محتاج رہتے تھے۔ مثلاً جناب شیخ نے فتوح الغیب کی شرح آپ ہی کے اصرار پر تحریر کی ۔ شرح مشکوٰة کی تالیف میں بھی آپ نے کافی ترغیب دی۔ اور طرزنگارش کے بارے میں بھی اکثر مفید مشورے اور ہدایات دیں فرمایا کہ مشکوٰة کی شرح میں جا بجا اشعار ہونے چاہیں۔ جس سے انداز بیاں دلچسپ اور عبارت نہایت مو?ثر ثابت ہو۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کے بارے میں تمام سیرت نگار اور مو?رخین اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان میں حدیث کے علم کو ایک باقاعدہ اور منظم صورت میں سب سے پہلے آپ ہی نے عام کیا اور آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔

لمعات جو مشکوٰة کی شرح ہے جناب شیخ محدّث دہلوی نے چھ سال کی محنت شاقہ کے بعد مکمل کی۔ اس کے علاوہ فارسی زبان میں جناب محمد رسول اللہ کی سیرت پر مدارج النبوت کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی? جذب القلوب فی دیار المحبوب ?کے عنوان سے ?مدینة النبی ?کی تاریخ لکھی۔ جناب شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی غنیتہ الطالبین کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اور آپ کے کلام بلاغت نظام بعنوان فتوح الغیب کی شرح لکھی ۔ علاوہ ازیں اخبار الاخیار کے نام سے بزرگان دین و اولیائے کرام کے سوانح خاص کر جناب عبدالقادر جیلانی کی زندگی کے حالات بالتفصیل تحریر کئے۔ نیز دارالشکوہ کی فرمائش پر جناب سید عبدالقادر جیلانی کی قدیمی اور مستند سوانح حیات کا زیدة الآثار کے نام سے خلاصہ پیش کیا۔ قیاس کیجئے کہ شیخ عبدالحق دہلوی ایسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔ وہ شیخ کس پائے کا مرشد روحانی ہو گا۔ شیخ محدث نے وہ ایک خط جو اپنے فرزند شیخ نور الحق کے نام لکھا تھا۔ اس کے مندرجات سے جناب شیخ کے مرشد کامل شاہ ابوالمعالی قادری کے مر تبت کا ایک اندازہ ہوتا ہے۔ اس خط میں آپ نے اپنے سفر لاہور کی تفصیل تحریر کی ہے۔ اور جناب شاہ ابوالمعالی کی توجہ و التفات کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ کہ وہ ان کی تالیفات و تصنیفات کی تعریف کر کے ان کا دل بڑھاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنے جلال کے شان بھی دکھا تے ہیں۔ ان کے آنے جانے پر سخت پابندیاں لگا دیتے ہیں۔ شیخ محدّث ان کی زیارت کے لیے دہلی سے لاہور آنا چاہتے ہیں تو یہ سختی سے ان کو روک دیتے ہیں۔

سفینةالاولیاءکے مترجم نے جناب شاہ ابوالمعالی کا سن ولادت920ہجری لکھا ہے۔ جو سہو کتابت ہے اور سال وفات1024ہجری تحریر فرمایا ہے۔ جو صحیح ہے ۔ ہم نے دارالشکوہ کی ?سفینة اولیاء? کا فارسی نسخہ دیکھا ہے۔ جس میں تاریخ ولادت 960ہجری لکھا ہے۔ اور تاریخ وفات1024ہجری درج ہے۔ مفتی غلام سرور نے اپنی کتاب حدیقة الاولیائ۔ میں بھی سنین لکھتے ہیں۔ مفتی صاحب نے جناب شاہ ابوالمعالی کی ولادت اور وفات کی منظوم تاریخیں پیش کی ہیں ۔جناب شیخ محدث اور شاہ ابوالمعالی کے مختصراً سوانح ہم نے جملہ معترضہ کے طور پر پیش کیے ہیں ۔ جن دنوں شہنشاہ جہانگیر کشمیر میں تھا ۔ حاسدوں اور شر پسندوں نے شیخ محدث اور مرزا حسام الدین کے خلاف اس کے کان بھرے ۔ جہانگیر نے فوراً ان دونوں کو حاضر ہونے کا حکم بھیجا۔ چنانچہ جب شیخ محدث جہانگیر کے حکم کی تعمیل کے لیے دہلی سے چلے تو سب سے پہلے جناب میاں میر کی خدمت میں لاہور پہنچے اور پریشانی کا اظہار کیا۔ حضرت میاں میر نے فرمایا تمہیں یوں ہی پریشانی ہو گئی۔ اطمینان رکھو کچھ نہیں ہو گا۔ نہ تمہیں کشمیر جانا پڑے گا نہ تمہارے بیٹے کو کابل ۔شیخ حسام الدین بھی دہلی ہی میں رہیں گے اور تم لوگ بھی وہیں خوش و خرم رہو گے ۔ قدرت خدا اس واقعہ کو ابھی دو چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جہانگیر کا انتقال ہو گیا۔

شاہ ابوالمعالی نے پینسٹھ برس کی عمر پائی۔ شیخ عبدالحق محدث چورانوے سال دو مہینے حیات رہے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے قریب دہلی میں مدفون ہوئے۔ میاں میر صاحب نے اٹھاسی برس کی عمر میں اس دنیا سے آخرت کا سفر اختیار کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہ
2
شاہ ولی اللہ محدث دہلوینام
عیستاریخ پیداءش
وجھ شھرت
قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا

شاہ ولی اللہ ستر ویں صدی کے پہلے مسلمان مفکرلیے جنہوں نے مغربی تہذیب کو اسلام کے خطرہ سمجھا

شاہ ولی اللہ کا دور وہ تھا جب حکمت کے طور پر جانی جانیوالی اسلامی روایت پھل پھول رہی تھی اور فلسفہ ،دینیات اور تصوف کے روایتی مذہبی علوم مےں مصالحت ہو رہی تھی ۔تاہم ،ماقبل جدید دور یا کلاسیکی انداز کا نکتہ نظر مختلف فرقہ وارانہ ،سیاسی اور سماجی دباو? کے تحت اپنے ٹوٹنے کی علامتیںدکھارہا تھا ۔چنانچہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تصنیفاتی سر گرمیوں کا اصل مقصد اہم اسلامی عقلی قواعد کے نکتہ ہائے نظر کے ذریعہ اسلامی مذہبی علوم کے مطالعہ کو دوبارہ مجتمع کرنا اور اہم بنانا تھا ان عقلی قواعد مےں فقہ، تصوف اور خاص طور پر قرآن وحدیث پر غور وخوض شامل تھا۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے تقر یبا چالیس کتابیں اور رسائل مرتب کئے اور ایک مذہبی محقق اور روحانی رہنماءکا فریضہ سر انجام دیا ۔شاہ ولی اللہ کا جنم اےک کٹر مذہبی اور مشہور گھرانے میں ہوا ۔ان کے والد شاہ عبدالرحیم مشہور فقیہہ اور محقق تھے جنہوں نے دہلی میں اسلامی تعلیمات کے ادارے مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآنی تعلیمات ،عربی زبان اور نقشبندی صوفیانہ روایت سیکھنے میں رہنمائی دے کر سترہ برس کی کچی عمر میں اپنا وارث بنا دیا ۔چنانچہ 1719ءمیں باپ کی وفات پر شاہ ولی اللہ نے اپنی حیثیت سنبھالی ۔ حج کے سفر نے شاہ ولی اللہ کی سوچ پر طاقتور اثرات مرتب کئے ۔ انہوں نے مکہ اور مدینہ المنورہ کے مقدس شہروں مےں انتہائی سر کردہ اور معزز اساتذہ اور اس دور کے محققین حدیث کے ساتھ سال گزارا جنہوں نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا اور اپنے حلقہ مےں شامل کرلیا ۔ انہیںعربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ان کی اہم تصنیفات اسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ مزید برآں بہت سی تصانیف فارسی میں بھی ہےں دنیائے اسلام کے فکری مذہبی اور تہذیبی مرکز مےں گزارے ہوئے وقت نے اسلامی قانون کے معاملات میں شاہ ولی اللہ کو ایک ہمہ گیر نکتہ نظر عطاءکیا۔ اس لئے ان کی کتابوں میں زیادہ عوامی حلقے کی بجائے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی مخاطب کےاگیا۔چونکہ مکہ اساتذہ مطالعہ حدیث کی روایت میں ڈوب گئے تھے اس لئے شاہ ولی اللہ نے یہ نقطہ نظر اپنا لیا کہ رسول اللہ کے اقوال کا مطالعہ اور شرح اسلام پر چلنے کے لیے مختلف طریقوں کو متحد کرنا اور نیا بنانا لازمی ہے سعودی عرب سے واپسی کے بعد شاہ ولی اللہ نے دہلی میں اپنی عملی اور صوفیانہ سر گرمیاں جاری رکھیںاپنے والد کے قائم کردہ مدر سہ میں پڑھایا اور راہ تصوف کی پیچیدگیوں میں شاگردوں کی رہنمائی کی ۔


انہوں نے اپنی اہم کتاب حجتہ البالغہ حج سے واپسی پر لکھی تھی ۔ دو جلدوں پر مشتمل کتاب میں انہوں نے کل علم کائنات کا جائزہ پیش کیا ۔پہلی جلد میں وہ تخلیق کا بنیادی مقصد انسانی نفسیات کی قوت ((Potentiality انسانی سوچ اور اعمال کی بلند تر اہمیت ،لسانی سماجی وسیاسی نظاموں کی ترقی اور سب سے آخر میں مذہبی مکاشفہ اور اس کی شرح پیش کرتے ہیں ۔جلد دوم میں وہ اسلامی قانونی ہدایات کے زیادہ گہرے روحانی پہلو و?ں کی تفہیم پیدا کرنے کے لئے اپنا طریقہ کار مخصوص احادیث پر لاگو کرتے ہیں۔ اسلام کی اندرونی اوربیرونی جہتوں کو واضح اورہم آہنگ کرنے کے اس کارنامے کی وجہ سے عماما عظیم مفکر اور صوفی الغزالی (وفات1111ئ)کے ساتھ ان کاموازنہ کیا جاتاہے ۔ان کا ما بعدالطبیعاتی نظام بھی الغزالی اور ابن عربی (وفات 1940ئ)دونوں کی فلسفیانہ صوفی روایت سے زبردست متاثر ہے ? جنہوں نے معنی کے مثالی درجے کے افلاطونی تصور کو اس دنیا کے وقوعات کے ساتھ جوڑا حقیقت کی خالصتامادی جہتوں کے درمیان رابطہ نظر آنے والی ایک مائع سی تہہ ?اعیان کی دنیا ?کہلاتا ہے ۔شاہ ولی اﷲنے اسے وہ تعلیم خیال کیاجس میں مذہبی استعارے مخصوص مذہبی ہدایات میں اپنی جوڑ بندی سے قبل تشکےل دیے گئے تھے۔ ان مخصوص مذہبی ہدایات کی پیروی کرنے کا اصل مطلب ان کی بےرونی وقوعات کی مخصوص مثالوں کی بجائے اس بلند تر سطح پر تلاش کرتا چاہیے۔ اس نکتہ نظر پر عمل کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ نے ایک نظریہ استعاریت اور معنی و اطلاقیت کی ٹھوس تاریخی صورت حال میں اس کے ظہور کی توضیح کی جس کے مطابق استعارے ایک طرف سے اپنی افادیت رکھتے ہیں ۔اخذ کر دہ نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون (شرع) پر عوامی سطح پر عملدر آمد کرنا چاہیے تاکہ اس کے اندرونی روحانی مفادات کا حصول ہو سکے ۔


اپنے نظریہ مذہبی مکاشفہ مےں وہ اسلام کو ایک ہمہ گیرمذہب خیال کرتے ہےں جس نے ساتویں صدی کے عرب مےں حضرت محمد کے دوران ٹھوس صورت اختیار کی تھی ۔چنانچہ اس صورت مےں دین (جو تمام افراد کے مزاج مےں رچا بسا ہے ) کے مثالی تصور اور اسلام کی خصوصی تاریخی صورت کی تمام وقتوں مےں اطلاقیت کے دعوی کے درمیان کچھ تفاوت موجود ہے ۔ان کے نظام بنی نوع انسان مذہبی قوانین کے محض مجہول تاثرپذیر ہی نہےں ۔ اخلاقی اور روحانی ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کی جدوجہدمیں حصہ لینے کے قابل ہیں کیونکہ بعد از موت بھی ان میں بیشتر مزید انسانی سماجی و روحانی نشوونما کی رہنمائی کرنے کے کام میں حصہ لینے کے لئے ?مجلس اولٰی ?کے فرشتوں میں شامل ہوں گے ۔ اگرچہ عربی سے فارسی میں قرآن پاک کا ترجمہ شاہ ولی اﷲ نے پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا (جیسا کے کچھ کہتے ہیں )لےکن یہ اس اعتبار سے تاریخ ساز ہے کہ اس میں شاہ ولی اﷲ نے ایک تو حد سے ادبی اور دوسرے محض کتاب کا لب لباب پیش کرنے والے سابق تراجم کے مابین حیران کن توازن قائم کیا۔ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں میں قیام کے دوران قانون اور حدیث میں شاہ ولی کی باقاعدہ تربیت نے انہیں مالک ابن انس (وفات 796ئ) مکتبہ کے حدیث سے متعلق طریقہ کار اور الشافعی (وفات819ئ)قانونی مکتبہ کے نظری آلات کا حمایتی بنا دیا ۔جنوبی ایشیاءکے زیادہ تر مسلمانوں کی طرح انہوں نے خود حنفی قانون کی پیروی کی ۔اس قسم کی انتخابیت تطبیق کہلاتی تھی :یعنی مطا بقت میں سے متفاوت عناصر کو عیاں کرنا ۔ قانون اور حدیث پر ان کی کچھ تصنیفات نظریہ اور شرح کا تکنیکی معائنہ ہیں جبکہ دیگر میں وہ چار بڑے سنی مکاتب قانون کے درمیان عدم اتفاقات کے تاریخی ماخذوں پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اختلافات تک لیجانے والے عناصر کو ان کی ترقی کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے اسلامی قانون سازی کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن و حدیث کی تفسیر کرنے پر اہل افراد کی قابلیت کے بارے مےں ان کا نکتہ نظر مکمل طور پر انقلابی نہیں بلکہ وہ اہل فقیہہ کی جانب سے اجہتاد کی ایک مخصوص حدتک اجازت دیتے ہیں ۔


تصوف پر عمل کرنے سے متعلق شاہ ولی اﷲکا نکتہ نظر انتخابی اور اصلاحی دونوں طرح کا تھا دیگر اسلامی اصولوں کی طرح صوفی طریقہ کار اور نظریہ سے متعلق ان کا رویہ یہ تھا کہ ہر صوفیانہ سلسلہ اپنی اپنی بے مثال تاریخ اور توانائیاں رکھتا ہے ۔روحانیت کے متمنی کو ایسے صوفیانہ عناصر پر عمل کرنے کی تربیت دینی چاہیے جو اسی کی اپنی خلقی فظرت سے انتہائی ہم آہنگی رکھتے ہوں ،چاہے وہ عناصر استغراقی ،دین دار انہ یا پھر فکری ہوں ۔ شاہ ولی اﷲ نے اپنے دور کے اہم صوفی سلسلوں کی رہنمائی کا دعویٰ کیا اور ان مےںسے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونے کی بجائے خود اپنے قسم کا انتخابی طریقہ کار قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی ،جو پھل پھول نہ سکا ۔ تصوف پر اصول کی ایک مختلف شکل کے طور پر اصرار نسل بعد نسل کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کی کچھ اولادوں نے صوفی عناصر کو تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ اسلامی اعتقاد اور چلن کے بنیادی عناصر کو زیادہ روحانی بنا جا سکے ۔مثلا اعلی تربیت کے اےک اعلی اسلامی ادارے دیوبند مدرسہ کی بنیاد ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز (وفات 1823ئ) کے پیروکاروں نے رکھی ۔ ہندوستان مےں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت میں تبدیلی کے دورمیں رہتے اور مغلیہ سلطنت مےں انتشار اور اس کے بعد استعاری دور کے نکتہ آغاز پر مدو جزر کا تجربہ کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ پرانی اسلامی اصلاحی تحریکوں کے مخصوص رجحانات کی بطورمثال پیروی کرتے نظر آتے ہےں ۔تاہم سعودی عرب کے وہابیوں کے برخلاف انہوں نے محترم مسلمان اولیاءکے طریقہ کار کو رد نہ کیا ور اس بات پر اعتقاد رکھا کہ محمد رسول اﷲ کے ساتھ ساتھ وہ بھی اےک متواتر روحانی رابطہ رکھتے تھے جو کسی بھی عقیدت مند کے لئے قابل رسائی ہے ۔


ےہ امر باعث دلچسپی ہے کہ آج مسلمان جنوبی ایشیاءمیں اہم مذہبی تحریکیں شاہ ولی اﷲ کو اپنا فکری جدا مجد مانتی ہیں ۔زیادہ تر صوفی مخالف نکتہ نظر رکھنے والے دیگر جنوبی ایشیائی مسلمان ۔۔۔۔مثلااہلحدیث ۔۔۔اور حتی کہ مولانا مودودی کے پیروکار بھی اسلامی قانون کی بنیاد کی طرف شاہ ولی اﷲ کی رجعت اور خارجی اثرات کی سیاسی تردید کرنے پر انہیں اصلاحی عقائد کا نقیب سمجھتے ہیں ۔اسلامی جدت پسندوںنے شاہ ولی اﷲمیں ایک ایسا مفکر دیکھا جس نے مخالف قانونی اور نظریاتی فرقوں کو قرےب لاتے، اجہتاد کی بات کرتے ہوئے اور مذہبی روایت کی کتابی ہدایات مےں مخفی جذبہ کی تلاش کرتے ہوئے اپنے دور کے بحران کا جواب دیا ۔انہوں نے 1763میں وفات پائی

ابوالقاسم جنید بغدادی مخدوم داتا گنج بخش علی ہجویریفرید الدین مسعود گنج شکر


ابوالقاسم جنید بغدادینام
وجھ شھرت
آپ کے حکیمانہ و صوفیانہ اقوال اہلِ ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ شیخ ابو جعفرعدّاد کہتے ہیںکہ اگر عقل بہ شکل انسان ہوتی تو جنید کی صورت میں آتی

کسی نے سری سقطی سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے

ولادت: بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا اسی رعایت سے بغدادی کہلائے جناب مخدوم علی ہجویری نے آپ کا نام واسم گرامی کشف المحجوب میں اس طرح تحریر کیا ہے۔ شیخ المشایخ، اہلِ طریقت، امام الائمہ شریعت، ابوالقاسم جنید بغدادی ۔جناب جنید کی کنیت ابوالقاسم۔ لقب سیّدالطائفہ۔ طائوس العلماء قواریری و زجاج ہے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کے والد محترم آبگینہ فروش تھے۔ اسی رعایت سے آپ کو قواریری وزجاج کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ جناب سفیان ثوری کے تلامذہ کے شاگرد تھے۔ اور اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے مرید تھے۔ آپ کی عظمت کا اندازہ کچھ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کے ماموں سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے۔ شیخ ابو جعفرعدّاد کہتے کہ اگر عقل بہ شکل انسان ہوتی تو جنید کی صورت میں آتی آپ کے حکیمانہ و صوفیانہ اقوال اہلِ ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے سن ولادت کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطہ عروج پر تھے اور ماموںرشید کی مشاغل دینی و علمی سے والہیت کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے با کمال علماءو فضلاءجمع تھے۔

آ پ ابھی سات ہی برس کے تھے کہ اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے ساتھ حج کو گئے۔ جناب سری سقطی کے ساتھ ان کے بہت سے درویش بھی تھے۔ راستے میں ان سے دین کے مسائل پر بات چیت ہوتی آپ کے درویش باری باری اپنی معلومات اور عقل کے مطابق اظہار خیال کرتے ایک روز ان سے شکر کی تعریف پوچھی گئی سب نے اپنی اپنی سمجھ کے موافق جواب پیش کیا۔ مگر نکتہ کی بات کوئی نہ کہہ سکا سری سقطی نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا بیٹا تم بتائو؟ آپ نے کہا اللہ پاک کی نعمتوں کو پا کر اس کی نافرمانی نہ کرنا بس یہی شکر ہے۔ جناب جنید بغدادی کی تعلیم و تربیت آپ کے ماموں سری سقطی ہی کے التفات خصوصی کا نتیجہ ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ فقرو سلوک کے منازل طے کرنے کے ساتھ آپ ایک زبردست عالم دین اور فقیہہ بھی بنیں چنانچہ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ آپ بیس برس ہی کی عمر میں جناب ابو ثوری کے حلقے میں بیٹھ کر فتوے لکھنے لگے۔ ایک مرتبہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آ پ کچھ پریشان ہیں۔ پوچھا ماموں جان خیریت تو ہے۔ فرمایا ہاں خیریت ہے۔ آج ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا۔ پوچھتا تھا کہ توبہ کی کیا تعریف ہے؟ آپ نے جواباً عرض کیا توبہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں کو بالکل محو کر دے۔

بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اوّل اوّل آپ وعظ کہتے ہوئے جھجکتے تھے۔ مگر جب آپ کو خواب میں محمد رسول اللہ ? کی زیارت ہوئی تو ان کے ارشاد پر آپ نے وعظ کہنا شروع کیا۔ اس عرصے میں آپ کے ماموں جناب شیخ سری انتقال کر چکے تھے۔ مگر جناب مخدوم علی ہجویری نے اس واقعہ کو جناب سری سقطی کی حیات ہی کے زمانے کا واقعہ لکھا ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ لوگوں نے جناب جنید بغدادی سے عرض کیا کہ اللہ تعالی نے آ پ کو شیریں و نکتہ آفریں زبان عطا فرمائی ہے ۔آپ کا بیان درد و سوز سے پرہوتاہے۔ آپ وعظ فرمایا کیجیے آپ نے کہا جب تک میرے شیخ و بزرگ ماموں زندہ ہیں ان کی زندگی میں وعظ کہنا میرے نزدیک خلافِ ادب ہے۔ اسی دوران میں ایک روز جنابِ محمدّرسول اللہکی آپ کو زیارت نصیب ہوئی آپ نے فرمایا اے جنید ، خدا کی مخلوق کو ضرور
وعظ سنایا کرو۔ کیونکہ اللہ میاں نے تمہارے وعظ کو مسلمانوںکی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا ہے۔ جب آ پ بیدار ہوئے تو دل میں خیال آیا کہ اب میرا مرتبہ شیخ سری سے بڑھ گیا ہے جبھی تو جناب محمدّرسول اللہنے مجھے وعظ کہنے کا حکم دیا ہے۔ جب صبح ہوئی تو آپ کے ماموں نے آپ کے پاس ایک درویش کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اب تو جناب محمدّرسول اللہنے بھی تمہیں حکم دیا ہے اس لیے اب اس کی تعمیل کرنا تم پر فرض ہے جناب جنید نے فرمایا کہ میرے دل میں جناب ماموں پر برتری پانے کا جو خیال آیا تھا وہ یک لخت نکل گیا۔

جناب جنید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے دل میں شیطان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی چنانچہ ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی آتے ہوئے دکھائی دیا جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اس کو دیکھ کر سخت نفرت ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟اس نے کہا میں وہی ہوں جسے تم دیکھنا چاہتے تھے تب میں نے اس سے پوچھا ، اے گستاخ تجھے کس بات نے روکا کہ تو آدم کو سجدہ نہ کرے۔ وہ کہنے لگا اے جنید تم جیسے موحد کے دل میں یہ خیال کیونکر پیدا ہوا؟ کہ میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کروں مجھے اس کا جواب سن کر کوئی جواب نہ بن پڑا بہت حیران ہوا قریب تھا کہ میرا ایمان متزلزل ہو جائے مجھے غیب سے ندا آئی اے جنید اس سے کہ دے کہ تو بالکل جھوٹا ہے اگر تو اللہ میاں کی ذات پر بھروسہ اور اس کے اختیارات پر ایمان رکھتا تو کبھی حکم عدولی نہ کرتا پس شیطان نے میرے دل کی آواز سن لی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ جناب جنید بغدادی کے مزاج میں حلم اور بردباری قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھری تھی طبیعت میں سنجیدگی ، متانت و شفقت آپ کا خاص جوہر تھا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ علماءاور صوفیاءدونوں گروہوں میں نہایت معزز و محترم تھے ہر چند بعض شرپسند طبا ئع نے آپ سے حسد کیا اور آپ کو تکالیف پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ میاں کی نصرت و تائید ایزدی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کے زہدوتقوے کو توڑنے کے لیے ایک مرتبہ شرپسندوںنے آپ کے پاس ایک نازنین، حو روش پری تمثال عورت کو بھیجا ۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نہایت انکسار و عجز کے ساتھ گڑ گڑا کر استدعا کی کہ آپ مجھے اپنی صحبت میں رکھ لیجئے اور اللہ اللہ کرنا سکھا دیجئے آپ اس کی باتوں کو سر جھکائے بغور سنتے رہے اور اس کے بعد اللہ کہہ کر ایک آہ جو کھینچی تو وہ تڑپ کر گری اور گرتے ہی دم نکل گیا۔

معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کی آو از اثر سے خالی نہیں جاتی اللہ اپنے بندوں کی ہر طریقے سے مدد کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں اللہ جلد یا بدیر ضرور انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک عورت روتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ میرا بیٹا کہیں کھو گیا ہے دعا فرمایئے کہ وہ مل جائے تو آپ نے فرمایا جا بی بی جا صبر کر وہ عورت چلی گئی مگر تھوڑی دیر کے بعدپھر حاضر ہوئی اور دعا کے لئے عرض کیا آپ نے اسے پھر یہی جواب دیا چنانچہ وہ چلی گئی لیکن مامتا کی ماری ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھ سکی وہ تیسری مرتبہ پھر حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ اب میرا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا۔ اب مجھ میں صبر کی طاقت نہیں رہی آپ دعا فرمائیں آپ نے فرمایا اب بی بی اگر یہی بات ہے تو جا گھر چلی جا سمجھ لے کہ اللہ میاں کے فضل و کرم سے تیرا بیٹا گھر آ گیا چنانچہ وہ عورت گھر چلی گئی اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا سچ مچ آ گیا وہ فوراًاس کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لوگوں نے اس واقعہ پر بڑا تعجب کیا آپ نے جواب میں قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی َ ?ومن یجیب المضطر اذ ادعاہ و یکشف السوئ? فرمایا کہ جب اس عورت میں ضبط کی طاقت نہ رہی تو کیا وجہ تھی کہ اللہ میاں اس کی نہ سنتا اور دعا قبول نہ کرتا۔
تصوف کا علمی دور
آپ کا زمانہ تیسری ھجری کا وہ علمی دور ہے جس میں تصوف نے ایک جداگانہ مسلک کی حیثیت پائی۔ آپ ہی کے زمانے میں علم تصوف پر تالیفات و تصنیفا ت کا آغاز ہوا۔تذکرةالاولیاءمیں خواجہ فریدالدین عطار لکھتے ہیں کہ ?کسے کہ علم اشارت منتشر کرد جنید بغدادی بود? یعنی جس شخص نے سب سے پہلے علم اشارہ کی اشاعت کی وہ جنید بغدادی تھے۔ علم کے بارے میں بھی آپ ہی کے زمانے میں کہا گیا کہ علم کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری دوسرے باطنی۔ ظاہری سے مراد شریعت اور باطنی سے مراد طریقت ۔ اسی زمانے میں یہ رائے بھی قائم کی گئی کہ باطنی علوم سب سے پہلے جنابِ محمدّ رسول اللہ سے جنابِ علی کرم اللہ وجہ، نے حاصل کئے پھر ان سے جناب خواجہ حسن بصری نے پھر ان سے دیگر تمام بزرگان دین سے یکے بعد دیگرے سینہ بہ سینہ حاصل کرتے چلے آئے اسی مناسبت سے علم تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علم سفینہ نہیں بلکہ علم سینہ ہے۔ کہا گیا کہ شریعت سے انسان حقیقت کو پاتا ہے اور طریقت سے اسے معرفت حق حاصل ہوتی ہے۔ گویا شر یعت،طریقت، حقیقت و معرفت ہی وہ عناصر چہارگانہ ہیں جو قدیم صوفیائے کرام کے تصوف کو صوفیائے متاخرین سے علیحدہ کرتے ہیں یہی وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے عالموں اور صوفیوں کے درمیان ایک مستقل نزاع شروع ہوا علمائے کرام اور صوفیا کرام دو علیحدہ گروہ بن گئے ۔

سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی اس سلسلے کے پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر کہ شریعت اور طریقت اسلام کی دو مختلف راہیں نہیں بلکہ ایک ہی تعلیم کے دو پہلو ہیں اس تنازع کو ختم کرنے کی کو شش فرمائی ہے۔ تصوف کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔ ہر برے اخلاق سے علیحدہ رہنا اور اچھے اخلاق اختیار کرنا تصوف ہے۔ تصوف کا علم کتاب و سنت سے باہر نہیں جس نے قرآن مجید نہیں پڑھا اور حدیث نہیں لکھی وہ تصوف میں بات کرنے کا اہل نہیں۔اہلِ تصوف کا سب سے بڑا سرمایہ فقر ہے۔ فقر تمام شکلوں سے دل کو خالی کر دینے کا نام ہے۔ وہ اہلِ فقر سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں ۔ اے فقراءتم اللہ میاںکی معیت ہی سے پہچانے جاتے ہو۔ اور اسی سبب سے تمہاری عزت کی جاتی ہے۔ پس تم جب اللہ تعالیٰ کےساتھ خلوت میں ہوتے ہو تو غور کرو تمہارا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کتنا مضبوط اور کس قدر استوار ہے۔ صاحبِ کشف المحجوب اس عبارت کی تشریح فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادینے فرمایا اے درویشو خلق خدا تمہیں درویش کہتی اور تمہارا حق ادا کرتی ہے تمہیں بھی غور کرنا چاہیے کہ تم درویشی کی راہ کے تقاضے کیونکر پورے کرتے ہو۔ اور اگر پورے نہیں کرتے اور خلق خدا تمہیں کسی دوسرے نام سے پکارے تو اس حل میں تمہیں بھی ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تم بھی اپنے دعوے میں انصاف و راستبازی سے کام نہیں لے رہے۔ وہ شخص جو اپنے دعوے کے خلاف چلے اس کی مثال اس طبیب جیسی ہے جو فن طبابت کے بلند و بانگ دعوے کر کے بیماروں کو اپنے پاس بلاتا ہے لیکن فن طبابت سے بالکل نا واقف ہے۔ اس طرح بیماروں کی بیماریاں گھٹنے کی بجائے بڑھتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ خود بیمار پڑ جائے تو اپنا بھی علاج نہ کر سکے اور وہ دوسروں کے پاس جانے پر مجبور ہو۔ قدیم صوفیاءکا دور جن بزرگانِ دین کے نام سے عبارت ہے ان میں سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی کا اسم گرامی سر فہرست ہے آپ کے علاوہ اس دور کے جن دوسرے بزرگوں نے بھی شہرت پائی ان میں جناب جنید بغدادی کے خلیفہ و مرید شیخ ابو بکر شبلی، ابو علی ثفقی، شیخ سہیل بن عبداللہ تستری، شیخ علی رودباری، شیخ ابو بکر طمستانی، با یزید بسطامی ، ابو بکر شفاف، حسین نوری ، سری سقطی ، اسماعیل بن نجید،ابو عثمان جری ، وغیرہ شیوخِ عظام کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

اللہ اور اللہ کے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرنا ہاتھ پیر ہلا کر حق حلال کی روزی کمانا۔ بلا امتیاز و تخصیص تمام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا ۔ ظاہرو باطن ایک ہونا۔ اور اعمال میں اخلاص کا پیدا کرنا صوفیائے قدیم کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ مختصراً یہ کہ تابعین و تبع تابعین کے دور کو قدیم صوفیاءکا دور کہا جاتا ہے مگر جن صوفیوں نے تصوف کے نام پر اپنے آپ کو علم وعمل سے بیگانہ کر لیا در حقیقت انہوں نے اولیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ۔ تصوف کے بارے میںابو بکر طمستانی کہتے ہیں : راستہ کھلا ہوا ہے اور کتاب و سنت ہمارے سامنے موجود ہے۔
بایزید بسطامی کہتے ہیں: اگر کسی شخص کو دیکھو کہ اسے اتنی کرامتیں دی گئی ہیں کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس سے دھوکہ نہ کھائو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ وہ امرونہی اور حدود شریعت میں کیسا ہے؟
ابو بکر شفاف کہتے ہیں: جس نے ظاہرو امرو نہی کے حدود کا خیال نہیں رکھا وہ دل کے مشاہدہ باطنی سے محروم رہا۔
حسین نوری کہتے ہیں: اگر ایک شخص کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اسے علم شریعت کی حد سے نکال دیتی ہے تو اس کے قریب نہ جائو۔ اور اگر ایک شخص کو دیکھو کہ وہ ایک ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور ظاہری احکام کی پابندی اس کی شہادت نہیں دیتی تو اس کے دین پر تہمت لگائو۔
سری سقطی کہتے ہیں: جس شخص نے ایسی باطنی حقیقت کا دعویٰ کیا جس کی تردید شریعت کے ظاہری حکم سے ہوتی ہے اس نے غلطی کی ۔
اسمعٰیل نجید کہتے ہیں: امرونہی پر صبر کرنا تصوف ہے۔
جناب جنیدمر ض الموت میں بھی تکیہ پر منہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ ان کے منہ پر ورم تھا کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا ایسی حالت میں بھی نماز نہیں چھوڑی جا سکتی آپ نے فرمایا نماز ہی کے ذریعے سے خدا تک پہنچا ہوں اس لیے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا اور اس کے چند گھنٹے بعد آپ مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔ آپ نے دارالفنا سے دارالبقا کی طرف298ھ میں کوچ کیا۔ وجدو سماع کی محفلوں کا رواج بھی آپ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ لیکن آپ اور دوسرے تمام صوفیائے قدیم ان محفلوں سے کلّی اجتناب کرتے رہے۔ محدث ابن جنیدی نے لکھا ہے کہ شروع شروع قوالی میں صرف زاہدانہ اشعار و قصائد تھے۔ متاخرین صوفیاءکے دور میں عاشقانہ اشعار اور گانے کا رواج ہوا جناب جنید بغدادی فرماتے ہیں ?کہ جب تم کسی مرید کو سماع میں مشغول دیکھو تو یقین کر لو کہ اس میں لہو و لعب کا کچھ حصہ باقی رو گیا ہے ?۔ حسین نوری کہتے ہیں جب ? تم مرید کو دیکھو کہ وہ قصائد سن رہا ہے اور راحت طلبی کی طرف مائل ہے تب اس سے بھلای کی توقع نہ رکھو? فریدالدین عطارنے تذکرةالاولیاءمیں لکھا ہے کہ اگرچہ تصوف کی عام اشاعت جناب جنید بغدادی ہی سے ہوئی ہے لیکن آپ کالباس(پشیمنہ) صوفیاءکی بجائے عا لموں کا تھا۔ جناب مخدوم علی ہجویری کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادی کے نزدیک تصوف کی بنیاد8خصلتوں پر ہے اوّل سخاوت، (جناب ابراہیم کی) دوم رضا (اسماعیل کی) سوم صبر(جناب ایوب صابرکا)چہارم اشارہ( جناب زکریا کا) پنجم غربت(جناب یحیٰ کی)ششم سیاحت(جناب عیسٰی کی)ہفتم اون کا لباس(جناب موسٰی کا) ہشتم فقر(جناب حضرت محمدّر سول اللہ کا)یعنی آٹھ خصلتیں جن سے ان پیغمبران اولوالعزم کی سنّت پوری ہوتی ہے تصوف کی بنیاد ہیں۔


شطحیات: ایسے الفاظ و کلمات جو بعض اوقات حدود شریعت سے متجاوزہو جاتے ہیں تصوف کی اصطلاح میں ?شطحیات?کہلاتے ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے زمانے میں شطحیات عام تھے مگر آپ نے ان کلمات کے ادا کرنے والوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی لکھا ہے ایک مرتبہ آپ کی خانقاہ میں ایک فقیر کالی گدڑی پہنے ہوئے آیا۔ آپ نے اس کی ماتم داری و سیاہ پوشی کا سبب پوچھا۔ اس نے کہا میرے خدا کی وفات ہو گئی۔ اس پر آپ نے اسے تین مرتبہ خانقاہ سے باہر نکل جانے کا حکم دیا لیکن فقیر نے اس طرح توضیح و تشریح کر کے جناب جنید کے غیض و غضب سے رہائی پائی کہا کہ میرا نفس مظہر خدا ہے میں نے اسے قتل کر دیا ہے اس لیے اب اس کا ماتم دار ہوں۔
منصور حلاج کے نعرہ اناا لحق کا قصّہ آ پکے زمانے کا سب سے زیادہ مشہور واقعہ ہے۔ مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ عین ممکن ہے کہ علامہ جوزی کی یہ رائے غلط نہیں کہ منصور نے سیدھے راستے چھوڑ کر گمراہی کی راہ اختیار کی اور بالآخر جناب جنید بغدادی ہی کو منصور کے قتل کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرنی پڑی۔

مخدوم علی ہجویری
: 2
مخدوم داتا گنج بخش علی ہجویرینام
400ہجر&تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ نے سب سے پہلے تصوف کے موضوع پر شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب لکھی کشف المحجوب جس پائے کی کتاب ہے جناب نظام الدین دھلوی محبوب ا لٰہی کے اس قول سے اس کا ایک اندازہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں ? جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ کشف المحجوب کو اپنا مرشد بنا لے۔ ?

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

ولادت400ہجری میں غزنی میں پیدا ہوئے آ پ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان اور آپ کا نام نامی علی ہے۔ آ پ کے گھر کے لوگ پہلے غزنی کے ایک قصبے ہجویر میں رہتے تھے ۔ پھر ہجویر کے قریب ہی ایک اور قصبے جلّاب میں آ گئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی چنانچہ آپ اسی مناسبت سے ہجویری و جلاّبی کہلائے۔ آ پ نجیب الطرفین حسنی سیّد ہیں۔ نسب نامہ یوں ہے۔ علی بن عثمان بن علی بن عبدالرحمان بن عبد اللہ بن ابی الحسن بن حسن بن زید بن جناب امام شہید حسن بن حضرت علی

گویا نو واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ فقہی مسلک کے اعتبار سے آپ کو جناب امام اعظم ابو حنیفہ سے بہت محبت تھی مسلک طریقت کے لحاظ سے آ پ سیّد الطائفہ جنید بغدادی کے پیرو تھے۔ آ پ کے مرشد جناب خواجہ ابو الفضلی ختلی غزنوی سلسلہ جنیدیہ کے بزرگ تھے ۔ جناب ختلی حضرت علی خضر مکی کے مرید تھے مکی جناب شیخ شبلی کے مرید تھے ۔ شبلی جناب جنید بغدادی کے مرید تھے۔ جنید بغدادی ، جناب شیخ سری سقطی کے مرید تھے ۔ سقطی جناب شیخ معروف کرخی کے مرید تھے کرخی جناب خواجہ حسن بصری کے اور خواجہ حسن حضرت علی کرم اللہ وجہ، کے مرید و شاگرد تھے گویا اس لحاظ سے آ پ کو جناب علی سے دوہری مناسبت ہے۔ آ پکی تعلیم کے متعلق کچھ تفصیل سے معلوم نہیں کہ آپ نے کن کن بزرگوں کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا البتہ آپ کی تصنیفات کے مطالعہ سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ علوم دین، فقہ، تفسیر و حدیث میں تبحر کامل رکھتے تھے۔ کہتے ہیں شیخ بزرگ نام کے ایک ولی سے آپ کی ملاقات ہوئی اس وقت مشکل سے آ پکی عمر بارہ سال کی ہو گی شیخ بزرگ نے آپ سے علم تصوف پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جب ان کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اپنی لکھی ہوئی کتاب لا کر ان کی خدمت میں پیش کی اور طالب دعا ہوئے۔ شیخ بزرگ نے فرمایا اے علی مستقبل میں تمہارا نام مطلع تصوف پر سورج کی طرح چمکے گا چنانچہ ان کی یہ پیشنگوئی حرف بحرف صحیح نکلی۔ جناب ہجویری نے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے لیے شام ، عراق، بغداد، پارس، کرمان، خراسان، مادرالنہر،اور ترکستان کا سفر کیا۔ وہاں کے علماءو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لکھا ہے کہ جن بزرگوں سے آپ نے اکتساب کیا ان کی تعداد تین سو سے اوپر ہے۔ مگر جن دو ایک بزرگوں کی روح پرور صحبتوں سے با لخصوص فائدہ اٹھایا ان کا ذکر آپ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں کیا ہے ان میں سے ایک جناب ابوالقاسم تشیری دوسرے جناب ابوالقاسم گرگانی اور تیسرے جناب شیخ ابو سعید ابو الخیر کی ذات گرامی ہے آپ تکمیل علوم ظاہری و باطنی کے بعد431ہجری میں لاہور تشریف لائے اور یہاںآ پ نے علوم دین اور اشاعت اسلامی کا ایک ایسا چشمئہ فیض جاری کیا جس سے چھوٹے بڑے ادنیٰ و اعلیٰ سبھی سیراب و فیضیاب ہوئے۔

ورود لاہور: لاہور میں آپ کی آمد سے پہلے پنجاب کی سیاسی حالت کیا تھی؟اس سے متعلق جاننے کے لیے ہمیں امیر سبکتگین شاہ غزنی کی فتوحات کے سلسلے پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔ جس کا مقصد بظاہر ہندوستان کو فتح کر کے سلطنت غزنہ کی توسیع دکھائی دیتا ہے لیکن بباطن وہ شوق جہاد تھا جسے لیکر امیر سبکتگین بار بار یہاں آتا تھا۔ 367ہجری میں سبکتگین جب اہل ہند سے جہاد کرنے کے لیے جان نثاران اسلام کو لے کر نکلا اس نے ہندوستان کے متعد د قلعے فتح کر لیے اور ظلمت کدہ ہند میں اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے اکثر جگہوں پر مسجدیں تعمیر کروا کر واپس آگےا۔اس زمانے میں راجہ جے پال کی حدود سلطنت لاہور سے ملتان اور کشمیر سے پشاور تک تھے جب اس نے دیکھا کہ امیر سبکتگین نے اس کے بہت سے قلعے اور ملحقہ علاقے فتح کر لیے ہیں تو اس کو سخت فکر ہوئی چنانچہ اب اس نے اپنی پوری قوت کے ساتھ امیر سبکتگین سے لڑنے کی ٹھان لی اور جب امیر کو اس برہمن زادے کے ارادے کا علم ہوا تو وہ بھی ایک لشکر جرار لے کر پشاور کو چل پڑا۔ لمغان جو کابل اور پشاور کے درمیان واقع تھا اس کے میدان میں دونوں لشکر صف آرا ہوئے گھمسان کا رن پڑا فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی بھی اس لڑائی میں اپنے باپ کے ساتھ شریک تھا اس نے باوجود نہایت کم سن ہونے کے تلوار کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔

اب راجہ جے پال نے امیر سبکتگین کے حضور میں صلح کی درخواست پیش کی ہر چند سلطان محمود غزنوی نے اس کی مخا لفت کی اور کہا کہ یہ برہمن زادہ دھو کہ دے رہا ہے تا ہم امیر سبکتگین ایک بادشاہ کی حیثیت سے رضا مند ہو گیا چنانچہ یہ طے ہو اجے پال ایک لاکھ درہم اور پچاس ہاتھی نذرانے کے پیش کرے۔ اگرچہ جے پال نے صلح کی اس شرط کو بظاہر منظور کر لیا لیکن ببا طن اس کی نیت خراب تھی چنانچہ اس نے مذکورہ شرط کے پورا کرنے کے بہانے سے حکومت کے ایک معتبر رکن دولت کو امیر سبکتگین کے پاس رہن رکھ کر دارالسلطنت کی راہ لی۔ مگر مسلمانوں کی ایک جما عت جسے وہ نذرانے کی مذکورہ رقم ادا کرنے کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا بٹھنڈہ پہنچ کر اسے قید کرلیا اور سبکتگین کو جب اس واقع کی اطلاع ملی تو وہ نہایت غضبناک ہو کر اسے بد عہدی کی سزا دنے کے لیے ہندوستان کی طرف پھر چل پڑا۔ اور جے پال نے ہندوستان کے تمام راجوں مہاراجوں کو لکھ کر بھیجاکہ تمہاری آزادی سخت خطرے میں ہے مسلمانوں کی ہلاکت خیزیو ں کا ایک شدید طوفان ہندوستان کی جانب چلا آ رہا ہے۔ اگر اس وقت تم نے میری مدد کے لیے فوجیں نہ بھیجیں تو ہم سب مٹ جائیں گے چنانچہ ہندوستان کے تمام راجاوئں نے باوجود جے پال سے ذاتی اختلا فا ت اور دشمنی رکھنے کے امیر سبکتگین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے لشکر بھیج دیے کہتے ہیں جے پال کے جھنڈے تلے امیر سبکتگین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لاکھ ہندوستانی سورمائوں کا لشکر جمع ہو گیا۔

اب ایک طرف تو عالم یہ تھا کہ جدھر نگاہ اٹھتی انسانی سروں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا اور دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ امیر کے پاس چند ہزار افغانی سپاہیوں کے سواا ور کچھ نہ تھا مگر امیر کی ہمت کی داد دیجئے اس نے حوصلہ نہیں ہارا اس نے کمال حکمت عملی سے کام لے کر اپنے لشکر کے پانچ پانچ سو کے دستے بنائے اور انہیں باری باری یکے بعد دیگرے دشمن کے مقابلے پر بھیجنے شر وع کیے۔ قدرت خدا مسلمانوں کے استقلال نے چند ہی دنوں میں جے پال کی فوجوں کے حوصلے پست کر دیے یہاں تک کہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے لگیں یہ دیکھ کر مسلمانوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور مولی گاجر کی طرح کاٹنا شروع کر دیا مختصر یہ کہ مسلمان پنجاب کے بہت سے حصوں پر قابض ہو گئے۔ 387ہجری میں امیر سبکتگین کے انتقال کے بعد اس کا فرزند ارجمند سلطان محمود امیر بنا تمام دنیا جانتی ہے کہ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اگرچہ اسکی بت شکنی نے ہندوئو ں کے معتقدات با طلہ پر زبردست ضربیں لگائیں اس نے سومنات کے شہرہ آفاق مندر کی اینٹ سے انیٹ بجا دی ہندوستان کی تمام بڑی بڑی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے غرض کہ جس نے اس کے سامنے سر اٹھایا اس نے اسے کچل کے رکھ دیا یہ سب کچھ درست بجا یقیناً وہ ایک قابل تقلید اور ستائش کے لائق مسلمان بادشاہ تھا مگر ظمت کدہ ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے سے قاصر رہا۔ سلطان نے لاہور کو فتح کیا جس کے سبب پنجاب محمود کی سلطنت میں باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا لیکن محمود نے اقامت اختیار نہیں کی بلکہ اپنا ایک گورنر چھوڑ کر غزنی واپس چلا گیا لاہور کے پہلے گورنر کے بارے میں اختلاف ہے بعض نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا گورنرسلطان کا بیٹا امیر مجدود تھا بعض کہتے ہیں نہیں سلطان کا مقرب خاص غلام ایاز تھا جو لوگ امیر مجدود کو لاہور کا گورنر بناتے ہیں وہ ایاز کو اس کا اتالیق ٹھہراتے ہیں۔

14ربیع الا ول 421ہجری میں سلطان نے رحلت پائی اس کے بعد سلطان کا بیٹا مسند نشین ہوا۔430 ہجری میں امیر مسعود باغیوں کی گوشمالی کے لیے ہنوستان آیا اس نے آ کر ہانسی اور سونی پت کے قلعے فتح کیے اور پھر فتح و کامرانی کے ڈنکے بجاتا ہوا غزنی واپس چلا گیا۔ گویا تسخیر قلوب اہل ہند کا کام ابھی تک باقی تھا جو امیر سبکتگین کی تیغ آبدار سے ہو سکا نہ سلطان کی شمشیر جوھروار کر سکی اور نہ اس کے فرزند امیر مسعود ہی کی تلوار برّاں سے ہو سکا سچ تو یہ ہے کہ دل کی سلطنت پر قبضہ پانا کسی بادشاہ کے بس کا روگ نہیں کوئی بادشاہ کیسا ہی جری اور کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو دلوں پر فتح نہیں پا سکتا۔دل و دماغ کی تسخیر کے لیے روحانی قوت کی ضرورت ہے اور یہ قوت صرف انہی کے حصہ میں آتی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کے ذکر اور اسکی یاد سے دماغ کو پاکیزہ اور دل کو آباد کرتے ہیں روح ایک لطیف شے ہے جن بزرگوں کو روحانی لطافتیں حاصل ہو جاتی ہیں وہ اپنے آپ کو دنیاوی کثافتوں اور جسمانی لذتوںسے آلودہ نہیں کرتے۔بعض نا عاقبت اندیش بزرگان دین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ظلمت کدہ ہند میں ان کی آمد شاہان اسلام کے ایما پر سیاسی اغراض و مصالح پر مبنی تھی۔ لیکن بزرگان دین کے سوانح حیات میں جب تر ک لذا ئذ دینوی پر ہم پہنچتے ہیں تو شرط انصاف یہ ہے کہ پھر ان کے اخلاص اور نیت پر شبہ کرنے کی مطلق کوئی گنجائش نہیں رہتی یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ دین اسلام کی محبت اور جناب محمد ر سول اللہ کی الفت ہی وہ سرمایہ حیات ہے جسے لے کر بزرگان دین ظلمت کدہ ہند میں روشنی پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً آتے رہے ۔جناب شیخ ہجویری سے پہلے جناب شیخ اسمٰعیل اور شاہ حسین زنجانی لاہور میں تشریف لا چکے تھے۔ اب جناب شیخ ہجویری کی آمد ہو رہی ہے۔ سلطان محمود نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ان کی نوعیت فتوحات کی ہے اور ایک سلطان ہی پر کیا موقوف جتنے شاہان اسلام نے ہندوستان کو اپنی تلوار و شجا عت کے جوہر دکھائے ان میں سے کسی ایک نے بھی ظلمت کدئہ ہند میں عیسا ئیوںکی طر ح مشنری سکول اور کالج قائم کرنے یاسلام کی تعلیمات پھیلانے کی باقاعدہ کوشش نہیںکی ۔

ظاہر ہے ایسے حالات میں ہندوستان کی مذہبی معاشی اور سیاسی حالت کا کیا نقشہ ہو گا۔ جب آپ علوم ظاہری و باطنی میں تکمیل پا چکے۔ تو آپ کے پیرو مرشد جناب ابو الفضل ختلی نے آپ کو لاہور جانے کا حکم دیا۔ آپ کے لاہور آنے سے پہلے یہاں ایک عارف کامل ولی با کرامت شیخ حسین زنجانی ایک اور بزرگ پہلے سے موجود تھے آپ نے اپنے مرشد کو لاہور میں ان کی موجودگی کی طرف توجہ دلائی۔ جناب ختلی نے فرمایا۔ نہیں تم جائو۔ تمہیں اس سے کیا۔ چنانچہ حکم کی تعمیل پا کر آپ لاہور کو روانہ ہوئے۔ قدرت خدا دیکھئے کہ آپ جس وقت لاہور میں داخل ہو رہے تھے تو جس کی طرف آپ نے مرشد کی خدمت میں اشارہ کیا تھا یعنی دارلفنا سے حسین زنجانی دارالبقا کی طرف جا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ شیخ حسین زنجانی کا جنازہ تھا مگر بعضوںنے ان کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بہر کیف یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو بلانے والے کسی بزرگ کا جنازہ تھا جو پہلے سے یہاں موجود تھے جب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ان کا وقت ختم ہو گیا تو آپ لاہور میں تشریف لائے اور یہیں عمر بھر قیام کیا۔ شہر لاہور کے باہر مغربی حصہ میں ہندئووں کا ایک مندر تھا اور اس کے قریب ہی دریائے راوی گزرتا تھا آپ نے اس مقام کو دیکھ کر فرمایا کہ یہی جگہ ہم فقیروں کے رہنے کے لیے موزوں رہے گی۔ چنانچہ جہاں آج ظلمت کدہ ہند کو نورایمان سے منور کر کے آپ ابدی نیند سو رہے ہیں یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ نے لاہور پہنچ کر قیام فرمایا اور اسے تبلیغ اسلام و اشاعت دین کا مرکز بنایا۔تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ نے لاہورمیں چھتیس برس قیام فرمایا ہے اس عرصہ میں آپ نے جو تالیف قلوب کی طرف توجہ دی ہے اس کا ایک اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کو داتا اور گنج بخش کے نام سے پکارنے لگے۔


آپ اپنی کتاب کشف الا سرار میں لکھتے ہیں کہ اے علی خلق خدا تجھے گنج بخش کہتی ہے حالانکہ تیرے پاس ایک دانہ تک نہیں تو اس لقب کا خیال اپنے دل میں پیدا نہ کر اور یہ نہ سوچ کہ تجھے لوگوں میں کس قدر مقبولیت حاصل ہے اگر تو نے ایسا خیال کر لیا تو گنہگار ہو گا۔ ?گنج بخش? تو فقط وہی ایک پاک ذات ہے جس نے سب کو پیدا کیا اس کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ اس کی ذات شرک سے پاک ہے۔ خدا وحدہَ لا شریک ہے اگر تو نے ایسا کیا تو سمجھ لے کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔ آپ کی اس تحریر سے ایک طرف تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے لاہور آنے سے پہلے یہاں کے رہنے والے کس حال میں تھے ان کے اعتقادات یا معتقدات پر کیسی کیسی غیر اسلامی باتوں کا غلبہ تھا دوسری طرف آپ کی سیرت کے وہ پہلو دکھائی دیتے ہیں جن سے متاثر ہو کر یہاں کے رہنے والوں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا اور انہیں آپ سے اس قدر محبت بڑھی کہ آپ کے لیے فرط جوش میں ?داتا? اور گنج بخش ? ایسے غیر اسلامی لفظ منہ سے نکالنے لگے۔بعضوں نے لکھا ہے کہ جب حضرت معین الد ین چشتی لاہور تشریف لائے۔ اور آپ کے آستانہ مبارک پر حا ضر ہوئے اور چلہ کشی کی تو لاہور سے جاتے ہوئے فرط جوش میں آپ نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

کہتے ہیں اس وقت سے آپ گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں شعر کی ترکیب پرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترکیب غلط ہے اس لیے وہ خواجہ معین الدین چشتی کا شعر نہیں ہو سکتا اس اعتبار سے پھر یہ بات بھی نہیں کہی جا سکتی کہ آپ خواجہ کے شعر سے گنج بخش مشہورہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی غیر معروف شاعر کا شعر ہو مگر شعر کی روشنی میں بھی یہ بات قطعی اور حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آپ لوگوں میں پہلے ہی سے گنج بخش مشہور تھے وگرنہ شاعر کا ذہن کیونکر اس ترکیب کی طرف جاتا اور اسے اپنے شعر میں باندھتا۔آپ کی سوانح حیات میں رائو راجو کی مزاحمت کا ذکر خا ص طور پر کیا جاتا ہے لاہور کے ہندو اکثر اس کے بندہ بے دام تھے اور کسی طرح اس کے حلقہ غلامی سے نہیں نکل سکتے تھے۔ آپ نے اس کے تمام طلسمات کو ایک ایک کر کے توڑ دیا اور آپ کی ایک ہی نگہہ التفات نے اسے رائو راجو سے شیخ ہندی بنا دیا۔ رائو راجو نے جو کہ سلطان مودود ابن مسعود غزنوی کی طرف سے لاہور کا گورنر تھا ۔ آپ کے علم و عمل اور زہدو تقوے کی جو شان دیکھی۔ تو آپ کے قدموں میں گر کے مسلمان ہوا اور شیخ ہندی کا لقب پا کر آپ کے حلقئہ ارادت مندی میںشامل ہو گیا۔ مارشل لاءسے پہلے تک شیخ ہندی کی اولاد ہی شروع سے آپ کے مزار مبارک پر مجاوری کرتی چلی آئی ہے۔ اب1960ءسے حکومت پاکستان نے آپ کی خا نقاہ لنگر اور مزار مبارک کے تمام انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔

جو فیض بندگان خدا کو آپ کی زندگی میں پہنچ رہا تھا وہی فیض اب حکومت کے توسل سے دوبارہ جاری ہو گیا جو لوگ نذر نیاز کی رقمیں یہاں لا کر پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ رائگاں نہیں جاتیں بلکہ ان سے آپ کی حیات مبارکہ کا وہی مشن پورا کرنے کی
کوشش کی جا رہی ہے کہ جسے لے کر آپ غزنی سے ظلمت کدہ ہند میں وارد ہوئے تھے۔ جس مقام پر آپ نے قیام کیا وہاں آپ نے اپنی جیب سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور اس کے ساتھ ہی ایک مدرسہ قائم کیا جہاں اللہ اور اللہ کے رسول کا نام بلند ہوا اور اس کے دین کے فروغ و اشاعت کی ابتداءہوئی۔ آپ کی آمد سے پہلے ظلمت کدئہ ہند کی جو حا لت تھی اس کا مختصراً حال پیش کیا جا چکا ہے۔ اب ایک اجمال علم تصوف کا بھی ملاحظہ کر لیجئے وہ لوگ جو صوفیوں کا لبادہ اوڑھ کر ارباب حدیث (اہل تصوف) کے گروہ میں طرح طرح کے غیر اسلامی خیالات لے کر داخل ہو گئے تھے جن سے علم تصوف کی لوگوں کی نگاہ سے وقعت جاتی رہی آپ نے ان کی اصلاح اور ارباب حدیث کے مسلک (تصوف) کی مدافعت میں اپنی مشہور کتاب کشف المحجوب تصنیف کی جس میں ان تمام غیر اسلامی خیالات و معتقدات کا ابطال کیا جس نے تصوف کو قطعی عجمی ذہن کی پیدا وار یا ایرانیوں کی افتاد طبع کا نتیجہ ٹھہرایا۔ کشف المحجوب جس پائے کی کتاب ہے جناب نظام الدین دھلوی محبوب ا لٰہی کے اس قول سے اس کا ایک اندازہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں ? جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ کشف المحجوب کو اپنا مرشد بنا لے۔ ?
یوں تو آپ نے کشف المحجوب کے علاوہ اور بھی کئی ایک کتابیں علم تصوف پر تصنیف کی ہیں مثلاً کشف الاسرار ، دیوان علی، اور منہاج الدین مگر ان سب میں فوقیت صرف کشف المحجوب کو ہے اور اسکے سوا اب آپ کی اور کوئی تصنیف نہیں ملتی۔ کشف المحجوب میںسب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تصوف کے علم پر سب سے پہلی کتاب ہے اور خاص بات یہ ہے کہ کشف المحجوب تصوف کے موضوع پر اس وقت کی ایک مستند کتا ب ہے جب کہ شہا ب الدین سہروردی کی عوارف المعا رف اور ابن عربی کی فصوص الحکم کا کوئی وجود نہیں تھا یہی سبب ہے کہ اس کتاب میں متاخرین صوفیاءکے غلو اور نیم پخت خیالات و معتقد ات نہیں ملتے کشف المحجوب میں اولیائے کرام کے خیالات پیش کئے گئے ہیں جن سے تصوف کے بارے میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ جو بے علم و بے عمل صوفیوں کی بدولت اس میں پیدا ہوئیں۔ مثلاً کشف المحجوب میں لکھا ہے ابو یزید بسطامی کہتے ہیں۔ ?اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ہوا میں معلق ہو کر دو زانو بیٹھ جاتا ہے تو اس کی اس کرامت سے دھوکا نہ کھائو جب تک اس امر کو نہ دیکھ لو کہ حدود شریعت کی حفاظت میں اس کی کیا حالت ہے۔

جوشخص قرآن کی تلاوت ، شریعت کی حمایت، جماعت کا التزام، جنازے کے ساتھ چلنا اور مریضوں کی عیادت کرنا چھوڑ دے اور شان باطنی کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے بدعتی ہے شیخ سری سقطی کہتے ہیں۔ ?جو شخص ظاہر میں احکام خداوندی کی پیروی چھوڑ کر علم باطنی کا دعویٰ کرے وہ غلطی پر ہے ?سّیدالطائفہ جنید بغدادی کہتے ہیں۔ ?جس شخص کو کتاب یاد نہیں ، حدیث نہیں لکھتا، فقہ نہیں سیکھتا اس کی پیروی نہ کرو تصوف کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف رکھنا تصوف کی اصل یہ ہے کہ دنیا کی محبت سے علیحدہ ہو جائے ? ابو بکرشفاف کہتے ہیں۔جو شخص ظاہر میں امرونہی کی حدود ضائع کر دے وہ باطن میں مشاہدہ قلبی سے محروم رہتا ہے۔ ابو الحسن نوری کہتے ہیں۔ جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اسے علم شریعت سے خارج کرے تم اس کے پاس نہ جائو۔ ابو حفص کہتے ہیں۔ ?جس شخص نے اپنے حال احوال اور افعال و اعمال کو کتاب و سنت کے مطابق نہ تولا اور اپنے خطرات کو تہمت نہ لگائی اسے مردوں کے دفتر میں شمار نہ کرو۔

فرید الدین گنج شکر
فرید الدین مسعود گنج شکر، فاروقی چشتینام
548ھتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اولیاءاللہ کے اندر سب سے زیادہ ?جہد?بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ہی کیا ہے جو غالباً36برس پر محیط ہے۔
آپ کے والد کمال الدین سلیمان ساتویں واسطے سے فرخ شاہ بادشاہ کابل کے فرزند اور بیسویں واسطے سے جناب عمر فاروق کی اولاد سے تھے ۔

وجہءتسمیہ:۔ ماں انسان کے لیے درس گاہ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا میں جتنے مشاہیر و بر گزیدہ انسان گذرے ہیں اگر ان کی زندگی کے ابتدائی حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان سب کی شخصیت کو بنانے اور ان کا مستقبل سنوارنے اور سورج کی طرح روشن کرنے میں سب سے پہلے ان کی مائووں نے ہی جدو جہد کاآغاز کیا۔ جناب فرید الدین کی والدہ محترمہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ جن کی تربیت سے ان کے بچے شہرت کے آسمان کے چاند، ستارے اور سورج بن کے چمکے۔ جناب فرید الدین کی والدہ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ مصلےٰ کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیتیں اور فرماتیں جو بچے نماز پڑھتے ہیں ان کو مصّلے کے نیچے سے شکر کی پڑیا ملتی ہے۔ اس ترکیب کا اثر یہ ہوا کہ جناب فرید الدین بچپن ہی سے نماز کے سخت پابند ہو گئے اور کبھی نماز قضا نہ کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے آگے چل کر آپ نے گنج شکر کے نام سے شہرت پائی۔

ولادت: 548ھ موضع کوتوال ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ اور سن بلوغ کو پہنچنے تک یہیں رہے آپ کے والد محترم جناب مولانا کمال الدین سلیمان ساتویں واسطے سے فرخ شاہ بادشاہ کابل کے فرزند اور بیسویں واسطے سے جناب عمر فاروق کی اولاد سے تھے ۔ جناب کمال الدین کی والدہ محترمہ سلطان محمود غزنوی کے خاندان سے تھیں۔ فرید الدین گنج شکر کی والدہ محترمہ جناب مولانا وحید الدین خجندی کی صاحب زادی تھیں۔ مولانا کمال الدین شہاب الدین غوری کے زمانے میں کابل سے لاہور آئے ۔ اور پھر کچھ دنوں بعد قصور و ملتان میں تھوڑا سا قیام کر کے موضع کو توال آرہے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جناب فرید الدین نے ابتدائی تعلیم کوتوال ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد ملتان آ گئے یہا ں آپ نے قرآن حکیم حفظ کیا اور عربی کے مروجہ درسی نصاب مکمل کیے۔ انہی دنوں میں جناب خواجہ بختیار کاکی ملتان تشریف لائے۔ آپ کو ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ آپ جناب خواجہ کی خدمت میں پہنچے اور مرید ہو گئے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا ۔ میاں فرید جب تک علم حاصل نہیں کرو گے، بات نہیں بنے گی۔ جائو پہلے علم حاصل کرو۔ پھر میرے پاس آنا جناب فرید اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں اب حصول علم کے لیے باد یہ پیمانی پر مستعد ہوئے۔ چنانچہ آپ ملتان سے قندھار کو چل دیے پھر وہاں سے بغداد سیستان اوبد خشاں کی خاک چھانتے ہوئے تمام علوم ظاہری کی تکمیل کی۔ اس دوران میں آپ کو جناب شیخ شہاب الدین بانیءسلسلہ سہر وردیہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شیخ سیف الدین حضری، شیخ سعید الدین حموی، شیخ اوحد الدین، شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی اورشیخ فرید الدین عطار وغیرہ اہم بزرگوں سے بھی ملاقاتیں نصیب ہوئیں اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ غرض تکمیل علوم دین کے بعد آپ جناب خواجہ بختیار کاکی کے حضور میں دہلی پہنچے خواجہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اور آپ کے لیے غزنیں دروازے کے باہر ایک جگہ منتخب کی جہاں آپ ریاضت و مجاہدے میں ہر وقت مشغول رہتے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے متواتر روزے رکھے ایک دن افطاری میں آپ کو کوئی شے میسر نہ آئی۔ ناچار بھوک و پیاس کی حالت میں آپ نے منہ میں چند سنگریزے اٹھا کر رکھ لیے۔ قدرت خدا کہ وہ شکر کے چند دانے نکلے۔ جناب خواجہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو فرمایا فرید الدین واقعی گنج شکر ہے۔ خلق خدا آپ کے زہدوعبادت سے بے حد متاثر تھی ۔ اکثر آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مرادیں لے کر واپس جاتے۔ جناب فرید الدین کو شہرت و نام و نمود سے سخت نفرت تھی۔ جب لوگوں کا ہجوم دن پر دن زیادہ ہونے لگا تو آپ دہلی چھوڑ کر جھانسی چلے گئے۔ حتیٰ کہ جناب خواجہ کا انتقال ہوا تو آپ دہلی تشریف لائے۔ پھر چند روز قیام کر کے یہاں سے پاک پتن روانہ ہو گئے۔ اجو دھن جسے ان دنوں پاک پتن کہتے ہیں ۔ آپ کے زمانے میں ایسے لوگوں کا مرکز تھا کہ جنہیں فقیروں اور درویشوں کے ساتھ خدا واسطے کا بیر تھا۔ جب آپ یہاں پہنچے اور لوگوں کے طور طریقے کا مطالعہ کیا اور دیکھا کہ ان لوگوں کے نزدیک درویشوں اور فقیروں کی کوئی وقعت نہیں۔ بہت خوش ہو کرفرمایا کہ ہم فقیروں کے رہنے کے لیے یہی جگہ سب سے موزوں ہے چنانچہ آپ نے آبادی سے تھوڑی دور جنگل میں ایک درخت کے نیچے اپنا کمبل بچھا لیا اور اللہ کی یاد میں محو ہو کر بیٹھ گئے۔ رفتہ رفتہ آپ کے باطن کی برکتیں لوگوں پر ظاہر ہونے لگیں لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگے۔ جب آپ کے مریدین و معتقدین میں کافی حد تک اضا فہ ہو گیا تو آپ نے اپنے بیوی بچوں کے لیے شہر کی جامع مسجد کے قریب ہی ایک مکان بنا لیا۔ جہاں آپ کے اہل و عیال نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مگر آپ اسی درخت کے نیچے رہتے اور وہیں رات بسر کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپ کے پاس فقط ایک ہی کمبل تھا۔ جسے دن میں بچھا کر بیٹھ جاتے۔ اور رات کو وہی اوپر اوڑھ کر سو جاتے۔ کمبل اتنا چھوٹا تھا کہ آپ کے پیر پورے طور پر پھیل نہ سکتے تھے۔ ایک لکڑی کا تکیہ تھا جس کا سرہانہ بناتے۔ اور ایک عصاءتھا جو حضرت خواجہ بختیار کاکی کے تبرکات سے آپ کو پہنچا تھا۔ سیر ت نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ہندوستان کا بادشاہ ناصر الدین محمود آپ کی زیارت کے لیے دہلی سے پاکپتن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اللہ والوں کی ملاقات میں یقیناً ایک روحانی کیف و سرور حاصل ہوتا ہے۔ اور انسان ان کے قرب سے طمانیت قلب محسوس کرتا ہے۔ سلطان آپ سے مل کر بے حد متاثر ہوا۔ چنانچہ واپس دہلی پہنچ کر اپنے وزیر الغ خان کے ہاتھ پانچ گائون اور ایک بہت بڑی رقم آپ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر ارسال کی۔

آپ نے الغ خان سے جو بعد میں سلطان بلبن کے نام سے مشہور ہوا ،فرمایا ہم فقیروں کو ان چیزوں سے کیا واسطہ ؟یہ انہیں کو لے جا کر دے دو جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ سلطان غیاث الدین بلبن شہنشاہِ ہند کی دختر نیک اختر آپ کے عقد میں تھیں اور ان کے بطن سے آپ کے چھ بیٹے ہوئے۔ رشتہ کے لحاظ سے ظاہر ہے کہ آپ کا سلطان سے کتنا مضبوط تعلق تھا۔ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے سلطان کے دربار میں آپ سے ایک سفارش کرائی۔ آپ نے سلطان کے نام ان الفاظ میں سفارشی رقعہ لکھا۔ :میں نے اس شخص کا فیصلہ پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا ہے۔ اب اگر آپ اس کا کام کر دیں کام تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا مگر شکریہ آپ کے حصہ میں آئے گا۔ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو خدا کو بھی منظور نہیں ۔ اس لیے آپ کا کیا قصور ہے۔ جناب نظام الدین محبوب الٰہی لکھتے ہیں۔ کہ حضرت فرید الدین گنج شکر کا عہد ولایت خیر الا عصار ہے۔ کیونکہ آپ کے زمانے میں کافی مشا ئخ عظام جمع ہو گئے تھے۔ محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ جناب شیخ زکریا بہائو الدین ملتانی، شیخ سیف الدین خضری اور جناب شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر ایک ہی زمانہ میں ہوئے۔تینوں یکے بعد دیگرے تین تین سال بعد فوت ہوئے ہیں۔ جناب فرید الدین مسعود نے664ھمیں انتقال فرمایا ۔ پاکپتن ہی میں مدفون ہوئے۔ جہاں ہر سال محرم کے مہینے میں آپ کا عرس ہوتا ہے۔ آپ کی تصنیفات وہ ملفوظات ہیں جن کو آپ کے داماد و مرید جناب نظام الدین محبوبِ الٰہی نے مرتب کیا ہے۔ ایک کا نام ہے ?راحت القلوب? دوسری کتاب کا نام ہے۔ ?سیراة الاولیائ? اس کتاب کو ایک خلیفہ و مرید جناب بدر اسحاق نے مرتب کیا ہے۔ کہتے ہیں آپ روزانہ روزہ رکھتے۔ سخت ریاضت و محنت کرتے، فراغت پا کر غسل کرتے اور نماز پڑھتے ،بعض کہتے ہیں کہ ہر نماز غسل کر کے ادا کرتے تھے۔ مگر دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ سخت محنت و مشقت کے باوجود آپ کی صحت ہمیشہ عمدہ رہی۔ ایک مرتبہ ایک درویش ملاں یوسف نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب مولانا نظا م الدین دہلوی تو چند روز آپ کی خدمت میں رہے اور فیوض باطنی سے مالا مال ہو کر چلے گئے۔ ایک میں ہوں کہ برسوںسے آپ کی خدمت میں پڑا ہوں ۔ مگر آپ کے فیوض باطنی سے محروم ہوں۔ یہ شکایت سن کر آپ نے ایک چھوٹے سے بچے کو بلایا اور اس سے کہا بیٹا وہ سامنے جو اینٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہمارے لیے ایک اینٹ لے آو?۔ وہ بچہ گیا اور آپ کے لیے ایک عمدہ سی اینٹ لے آیا۔ پھر آپ نے اس سے کہا اچھا اب ایک اینٹ مولانا نظام الدین کے لیے بھی لے آو?۔ وہ بچہ پھر گیا اور ایک عمدہ سی اینٹ اور لے آیا۔ اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا۔ اچھا اب ایک اینٹ ملا ںیوسف کے لیے بھی لے آو?۔ بچہ پھر گیا اور ایک اینٹ اٹھا لایا۔ مگر اب کے جو اینٹ لایا وہ اینٹ کا ایک بے ڈھنگا سا ٹکڑا تھا۔ آپ نے ملاں یوسف سے کہا اس میںمیری کچھ کوتاہی نہیں۔ یہ تمہاری نا قابلیت کا نتیجہ ہے۔ اور قسمت کی بات ہے ورنہ میرے لیے تو سب برابر ہیں۔ آپ بات بات میں ایسے لاجواب نکتے بیان فرماتے تھے کہ اگر یورپ زدہ لوگ ان کو دیکھ لیں تو یورپ کے فلاسفروں کو بھول جائیں۔ آپ کے اقوال میں ان لوگوں کو جو زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں زندگی مل جاتی ہے۔

اقوال:١۔نامرادی کا دن مردوں کی شب معراج ہے۔
٢۔سبک ساری کی خواہش کمزوری کی علامت ہے۔
٣۔جیسا تو ہے ویسا ہی لوگوں کو دکھا ،ورنہ اصلیت خود بخود کھل جائے گی۔
٤۔احمق کو زندہ خیال نہ کرو۔
٥۔وہ شے جو خریدی نہ جاتی ہو اسے فروخت نہ کرو۔
٦۔ہر کسی کی روٹی نہ کھاو? مگر ہر شخص کو اپنی روٹی کھلاو?۔
٧۔گناہ پر فخر نہ کرو۔ آرائش کے پیچھے نہ پڑو۔
٨۔جس چیز کی کوشش کرو اس سے ہاتھ نہ اٹھاو?۔
٩۔جو تم سے ڈرے ۔ اس سے ہر وقت اندیشہ کرو۔
٠١۔دروغ نما راستی کو ترک کر دو۔
١١۔ قاتل نما بے وقوف سے پرہیز کرو۔
٢١۔وقت کا کوئی بدلہ نہیں۔
٣١۔ہنر ذلت سے سیکھ یعنی تحصیل علم و ہنر میں کسی ذلت کا خیال نہ کرو۔
٤١۔ دشمن کی دشمنی اس سے مشورہ کرنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔
٥١۔کوئی مصیبت خدا کی طرف سے آئے اس سے ہراساں نہ ہو۔
٦١۔ اگر?ہے کچھ? غم نہیں اگر ?نہیں ہے? تو بھی غم نہیں۔
٧١۔درویشوں کے لیے فاقہ سے مرنا لذ ت نفس کے لیے قرض لینے سے بہتر ہے۔
٨١۔ دو آدمیوں کا مباحثہ ایک آدمی کے اکیلے سوچنے کی دو سالہ محنت سے زیادہ مفید ہے۔
آپ کی جسمانی و روحانی اولاد تو بے شمار ہے مگر یہاں ہم صرف اتنا بتانے پر اکتفا کریں گے کہ آپ کے خلیفہ اول جناب قطب جمال الدین ہانسوی ہیں۔ دوم جناب مولانا نظام الدین محبوب الٰہی جن سے سلسلہ نظامیہ چشتیہ چلا۔ سوم جناب مخدوم علاو?الدین کلیر صابر ہیں۔ جن سے چشتیہ صابریہ کا سلسلہ منسوب ہے۔
آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اولیاءاللہ کے اندر سب سے زیادہ ?جہد?بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ہی کیا ہے جو غالباً36برس پر محیط ہے۔

عبد القادر جیلانی حضرت ابو بکر صدیق حضرت خدیجتہ الکبری حضرت امام جعفر صادق


حضرت ابو بکر صدیق
1
عبداللہ ابن ابی قحافہنام
573تاریخ پیداءش
637تاریخ وفات

ایام جاہلیت میں حضرت ابو بکر کا نام عبداللہ ابن ابی قحافہ تھا ?اسلام لانے کے بعد حضرت محمد نے عبداللہ تجویز فرمایا ۔ صدیق و عتیق دونوں لقب ہیں ۔

جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ نسبتاًقریشی تیمی ہیں چھٹی پشت میں مرہ بن کعب پر پہنچ کر آپ کا نسب رسول اکرم کے نسب سے مل جاتا ہے ۔ حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد پیدا ہوئے یعنی آغاز سن ہجری سے پچاس برس تھی ۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے مسلمان ہوئے ۔10ھ میں اپنی وفات سے قبل پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد علالت کے زمانہ میں اےک روز مسجد میں تشریف لائے اور کچھ گفتگو کے بعد کہا کہ جس قدر مکانو ں کے دروازے صحن مسجد میں ہیں وہ بند کر دئیے جائیں ? مگر ابو بکر کے گھر کا دروازہ بد دستور رہے اور پھر فرمایا :?میں کسی کو نہیں جانتا جو میرے دروازے رفاقت میں با اعتبار احسانات کے ابو بکر سے افضل ہو ? پس اگر میں کسی کو قلبی دوست بنانے والا ہوتا تو ابو بکر کو بناتا ?رسول اللہ نے اپنی علالت کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر کے ساتھ نماز ادا کی ۔ آپ نے 12 ربیع الاول کو 11 ھ میں وفات پائی

اس وقت حضرت ابو بکر سخ میں تھے اور آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی روانہ ہوگئے ان کی عدم موجودگی میں کسی کو آپ کا چہرہ مبارک کھولنے کین جرات نہ ہوئی ۔ابو بکر نے آکر آپ کا چہرہ کھولا ۔ پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ پاک جیئے اور پاک فوت ہوئے ۔ اس کے بعد خلیفہ منتخبکرنے کا سوال پیدا ہوا تو حضرت ابو بکر نے لوگوں سے کہا کے تم عمر اور ابو عبیدہ میں سے جسے چاہو امیر بنا لو میں اس ہر خوش ہو ں ۔اس پر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر کہا کے تم میں سے کون شخص اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اس شخص کو موخر کرے جسے رسولاللہ نے مقدم کیا ۔ یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لیبعض انصار نے کہا کہ ہم حضرت علی کی بیعت کریں گے ۔ ابن الجبیر سے مروی ہے کہ ابو سفیان نے علی سے کہا کہ یہ کیا ہو ا کہ حکومت قریش میں سب سے کم تعداد قبیلے میں چلی گئی بخد ا اگر تم چاہو تو میں اےک زبردست فوج بھیج کر حضرت ابو بکر سے حکومت چھین لوں ۔ اس پر حضرت علی نے کہا کہ اے ابو سفیان تم ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے تمہاری دشمنی سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ ہم نے ابو بکر کو حکومت کا اہل سمجھ کر ان کی بیعت کی ۔ سقیفہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت عام ہوئی ۔ اس کے بعد آپ نے تقریر میں کہا : ?لوگو !تمہارا حاکم بنایا گیا ہے حالانکہ میں تمہارا بہترین فرد نہیں ہو ں ۔ اگر میں نیکی کروں تو تم میری اعانت کرنا او راگر میں برائی کروں رو مجھے سیدھا کر دینا جب تک مین رسول اور اللہ لہ پیروی کروں تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں ?

حضرت ابو بکر خلیفہ بننے سے قبل تجارت کر تے تھے اور اس آپ کا مکان سخ میں تھا ? مگر پھر مدینہ آگئے بیعت خلافت کے بعد چھ ماہ تک سخ میں ہی مقیم رہے اور ہر صبح کو مدینہ پیدل آتے رہہے اور کبھی کبھار گھوڑے پر آجاتے ۔ ان کے جسم پر اےک تہمد اور پرانی چادر ہوتی ۔ مدینہ میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس چلے جاتے ۔ ان کے پاس بکریوں کا ریوڑبھی ہوتا اکثر خود اسے چرانے چلے جاتے ۔ آپ قبیلے والوں کی بکریوں کا دودھ بھی دوہ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب آپ خلیفہ ہوئے تو اےک لڑکی نے کہا ،?اب ہماری گھر کی بکریاں نہیں دو ہی جائیں گی ?اس کی یہ با ت سن کر آپ نے فرمایا ?ہاں ! بخدا مین تمہاری بکریاں ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ اس منصب سے میری سابق عادات میں کوئی تغیر واقع نہ ہوگا ? چنانچہ خلیفہ ہو کر بھی آپ قبیلے کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے ? سخ کے قیام کے زمانے میں چھ ماہ تک یہی آپ کا طرز عمل رہا ۔ پھر مدینہ آکر تجارت ترک کر دی اور بیعت المال میں اپنی اور اپنے متعلقین کی ضرورت کے لئے روزانہ خرچ لینے لگے ۔ لوگو ں نے آپ کے ذاتی مصارف کے لئے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی تھی ۔

حضرت ابو بکر صدیق کا دور خلافت بہت ہہی ہنگامہ خیز تھا آپ ہی کے زمانے مین فتنہ ار تداد نے سر اٹھا یا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس کے ساتھ ہی منکرین زکوٰة نے بھی ملک بھر میں انتشار پھیلایا ۔ ریاست اسلامیہ کی گو نا گو ں ذمہ داریوں اور امت کی قیادت کا بار بھی آپ کے کاندھوں پہ آن پڑ ا تھا ۔ اس طوفان دور میں بھی آپ نے کسی قیمت پر رسولاللہ کے حکامات سے ذرا بھی گردانی نہ کی ۔ بیعت خلافت کے بعد آپ کو جب سے پہلا مسئلہ درپیش ہوا وہ جیش اسامہ کی روانگی کا تھا ۔ رسول اللہ نے اپنی وفات سے قبل اہل مدینہ اور حوائی مدینہ سے اےک مہم مقرر کی تھی جس میں حضرت عمر بھی شامل تھے اسامہ بن زید کو آپ نے مہم کا سر براہ مقر ر کیا ۔ ابھی یہ مہم پوری طرح خندق کو پار نہیں کر چکی تھی کہ آپکی وفات ہو گئی ۔ اسامہ سب کے ساتھ ٹھہر گئے اور حضرت عمر کو بھیجا کہ خلیفہ سے واپسی کی اجازت لے کر آئیں کہ کہیں پیچھے سے مشرک مسلمانوں پر حملہ نہ کر دیں ۔ حضرت عمر نے آکر مدعا بیان کیا تو حضرت ابوبکر نے خفا ہو کر فرمایا :?جس شخص کو رسول اللہ نے روانہ کیا ہے

تم مجھ سے کہتے ہو کہ اسے علیحدہ واپس بلالوں ? پھر آپ خود مدینہ سے اس مہم کے پڑائو میں آئے اور دس باتوں کی نصیحت کی : ? یاد رکھو خیانت نہ کرنا ، نفاق نہ برتنا ،بد عہدی نہ کرنا ، جسم کے اعضانہ کاٹنا ، کسی بچے ۔ بوڑھے یا عورت کو قتل نہ کرنا ، کسی کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ جلانا ، کسی ثمر دار درخت کا نہ کاٹنا ، بیکار کسی بکری ، گائے اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا ، تارک الدنیا لوگوں سے تعرض نہ کرنا ، اگر کچھ لوگ تمہارے لئے کھانا لائیں تو اس میں سے کچھ کھانا اللہ کا نام لے کر کھانا ? پھر حضرت عمر کو اپنے پاس رکھ لیا اور فوج کو ہدایت کی کہ رسولاللہ کی طے کردہ حکمت عملی پر عمل کرنا ۔ اسامہ نے ایسا ہی کیا اور کامیابی پائی ۔ اس مہم کے وقت حالت یہ ہو چکی تھی کہ تمام عرب قبائل یا تو سب کے سب مرتد ہو چکے تھے یا ان میں سے کچھ لوگ مرتد تھے ۔ بہر حال کو ئی قبیلہ پورا مسلمان نہیں رہا تھا ۔ اب یہودوانصاری للچائی ہوئی نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔ تمام امراءنے اپنے اپنے مستقر سے اطلاع بھیجی کہ ہر جگہ فتنہ ار تدادبرپا ہو گیا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے انہیں ذرائع سے ان کا مقابلہ شروع کیا جو رسول اللہ استعمال کر چکے تھے ، یعنی مراسلت ۔ پھر مرتدین نے رات کے وقت مدینہ پر حملہ کر دیا لیکن شکست کھائی ۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرنے لگے ۔ تین قبائل اسلام کی حمایت کا اعلان کیا ۔ حضرت اسامہ کی فوج واپس آئی تو حضرت ابو بکر نے گیارہ جمعتیں تیار کر کے مرتدین کے مقابلہ کے لئے انہیں گیارہ نشانوں پر روانہ کیا اور اپنا اےک خط بھی ان کے نام بھیجا جس میں ان سے دین کی طرف واپس لوٹ آنے کا کہا ۔اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے، لیکن فتنوں کا سلسلہ جاری رہا اور سر کوبی کا بھی ۔ عمان ، بحرین ، یمن ، مجد ، حضرموت میں فتنے برپا ہوئے آپ کے دور میں اسود عنسی بن علاثہ ، سجاح ، مسلیمہ کذاب قیس بن یغوث اور اشعث نے نبوت کا دعوی کیا جن سے آپ بہ طریق احسن نمٹے ۔
11 ءمیں حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو قاضی مقرر کیا جس عہدے پر وہ ان کی وفات تک قائم رہے ۔ خالد بن ولید کو عراق اور ایران میں مختلف مہمات پر روانہ کیا ۔13میں شام کی طرف فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور خالد بن سعید کو پہلا امیر بنایا لیکن انہیں معزول کر کے پزید بن سفیان کو امیر بنا کر روانہ کیا ۔ خالد بن سعید پر حضرت عمر اور حضرت علی کو شبہ تھا ۔ لیکن پھر بھی جب ابو بکر نے مرتدین کی سر کوبی کے لئے افسران فوج منتخب کئے تو ان میں سے خالد بن سعید بھی شامل تھے اور انہیں تیمامیں امدادی دستے پر متعین کردیا ۔ میدان جنگ میں خالد بن سعید نے حضرت ابو بکر کی ہدایات پر عمل نپ کیا اور شکست کھائی ،لیکن آپ نے انہیں معاف کر دیا ۔آپ کی حکومت کی بنیاد قرآن و حدیث تھی اگر کسی مسئلہ کا حل قرآن و حدیث میں نہ ملتا تو اہل الرائے صحابہ کرام کے مشورہ سے فیصلہ کرتے ۔ بیت ا لمال کی آمدنی تقسیم کرتے وقت سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتے ۔ گورنر مقرر کرنے میں آپ کا اصول تھا کہ جو گورنر رسول اللہ کے مقرر کردہ اصولو ں پر قائم رہے ، انہیں ہی تعینات کیا ۔معرکہ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمر نے آپ کو مشورہ دیا کہ قرآن پاک کو ضابطہ تحریر میں لایا جائے ۔ لیکن آپ اس وجہ سے متامل تھے کہ جو کام رسول اللہ نے نہ کیا وہ کیسے کریں ۔ مگر پھر غوروحوض کے بعد یہ مشورہ مان لیا ۔ چنانچہ آپ نے قرن مجید کو لکھوا کر اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں ۔حضرت ابو بکر سے 142 احادیث مروی ہیں ۔ فقہ کے متعلق آپ نے اجتہاد کا قاعدہ کیا جو سارے مجہتدین کا دستور العمل بن گیا ۔ آپ خوابو ں کی تعبیر میں بھی بڑے ماہر تھے سب سے اول تصیفہ و تز کیہ باطن کے واسطے کلمہ طیبہ کا طریقہ ذکر حضرت ابو بکر نے تلقین کیا ۔ شاہ ولی اللہ نے تصوف صدیقی کے ذیل میں حضرت صدیق اکبر کے ان نام اوصاف کی تفصیل دی ہے جو اساس تصوف ہیں ۔ مثلاًتوکل ، احتیاط ، تواضع ، خداکی مخلوق پر شفقت ، رضا ، خوف الہیٰ ۔ حضرت ابو بکر نے اےک روز درخت پر چڑیا دیکھی تو حسرت سے فرمایا : ?اے پرندے خوش حال ہے تو پھل کھاتا ہے ، درختت کے سا یہ میں زندگی بسر کرتا ہے ، حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں ۔ کا ش ابو بکر تجھ جیسا ہوتا ? سلسلہ نقشبند یہ حضرت امام جعفر صادق کی وساطت سے حضرت ابو بکر تک پہنچتا ہے ۔

بے شمار خطیبوں نے کروڑوں مرتبہ ابو بکر صدیق کے?افضل ا لبشر بعد ا لانبیا با لتحقیق? ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ فضئل صدیقی کی بنیاد تین شہادتوں پر ہے (1 )آیات کلام مجید (2 )احادیث نبوی اور (3 ) اقوال صحابہ کرام و اہل بیت ۔ ? نیز آنحضرت نے آپ کے جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : ?قیامت کے روز سب سے اول قبر کشادہ ہوگی پھر ابو بکر اور پھر عمر کی ۔ میری امت میں سب سے پہلے ابو بکر جنت میں داخل ہوں گے ? اس کے علاوہ اسلام میں سب سے پہلے مسجد آپ نے بنائی ۔
روایات کے مطابق آ پ کا بدن چھریرا اور رنگ نہایت ہی گورا تھا رخسار بیٹھے ہوئے تھے ۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور تمام صحابہ کرام سے زیادہ فصیح ا لبیان تھے آ پ کا عر صہ خلافت دو سا ل چار ماہ چار دن کم تھا ۔

حضرت ابو بکر کی وفات کے متعلق اےک بیان طبری نے یہ لکھا ہے کہ آپ کو یہودیوں نے دھوکے سے چاول یا دلیے میں زہر ملا کر دیدیا تھا جس کا اثر اےک سال بعد ظاہر ہو اتھا ۔ چنانچہ اےک سال بعد جب آپ شدید بیما ر ہو ئے تو کسی نے طبیب کو بلانے کا مشورہ دیا مگر آپ نت فرمایا :? وہ مجھے دیکھ چکا ہے اس نے کہا ہے کہ میں جو چاہتا ہو ں کرتا ہوں ? اےک اور زیاد ہ مستند مانی جانے والی روایت کے مطابق آپ نے سردی میں غسل کیا اور بخار میں مبتلا ہو گئے ۔ اس دوران حضرت عثمان آپ کی تیمارداری کرتے رہے ۔ آپ اس مکا ن میں اقامت پذیر تھے جو آنحضرت نے آپ کو دیا تھا ۔ مرض ا لموت میں آپ نے یہ اشعار پڑھے : (ترجمہ ) ?ہر دو لتمند کا مال میراث میں بٹ جائے گا اور ہر سامان والے سے اس کا سامان چھوٹ جائے گا ۔ ہر غائب ہونے والا واپس آجاتا ہے مگر مر کر غائب ہونے والے کبھی واپس نہیں آتے ?

محمد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ وفات سے قبل حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو تخلیے میں بلایا اور ان سے کہا ? لکھو بسم ا للہ الرحمٰن ا لر حیم ۔ یہ عہد نامہ ابو بکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کے نام لکھا ہے ۔
امابعد!?اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہوگئی اس لئے حضرت عثمان نے لکھ دیا ،?امابعد میں تم پر عمر بن الخطاب کو تم پر خلیفہ مقرر کرتا ہو ں ? پھر آپ ہوش میں آگئے اور حضرت عثمان سے کہا کہ سنائو تم نے کیا لکھا ہے ؟ حضرت عثمان نے پڑھ کر سنایا تو آپ نے تکبیر پڑھی اور فرمایا : ? میں سمجھتا ہوں کہ شاید تم کو اندیشہ ہو ا ہو کہ اگر اس غشی میں میری روح پرواز کر گئی تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا ? حضرت عثمان نے کہا ، ہاں میں نے یہی خیال کیا تھا ۔ حضرت ابو بکر بولے : ? خدا تم کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے ? اور مضمون کو بر قرار رکھا ۔ جب طحہ بن عبیدہ نے حضرت عمر کی سختی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی نامزدگی پر اعتراض کرنا چاہا تو آپ نے کہا :? یاد رکھو جب میں خدا کے سامنے جائوں گا اور وہ مجھ سے باز پرس کرے گا تو میں نے تیری مخلوق پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ بنایا ?
حضرت ابو بکر نے حضرت عبدا لرحمٰن سے تین چیزیں کرنے کی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا : کاش میں اشعثکی گردن مار دیتا ۔کاش میں نے خالد کو مرتدین کے مقابلے کے لئے روانہ نہ کیا ہوتا اور کاش میں نے خالد بن الولید کو جب شام کی طرف بھیجا تھا تو اس وقت عمر بن الخطاب کو عراق کی طرف بھیج دیتا ۔ ? آپ نے رسول اکر م سے تین باتیں پوچھنے کی آرزوبھی کی : ?کاش میں پو چھ لیتا کہ امارت کس کو ملنی چاہئے تاکہ پھر کسی کو نزاع کا موقع نہ ملتا ? کاش میں آپ سے پوچھ لیتا کہ انصار کے لئے اس حکومت میں کچھ حصہ ہے اور کاش میں آپ سے آپ کی میراث کے متعلق دریافت کر لیتا کیونکہ میرے دل میں اس کے متعلق کچھ نے اطمینانی ہے ۔?

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے مجھ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا ۔ میں نے کہا تین کپڑوں میں ۔ آپ نے کہا کہ تم لوگ میرے یہ دونوں کپڑے دھولو (وہ دونوں کپڑے پھٹے ہوئے تھے ) اور اےک کپڑا کیرے کئے خرید لو ۔ میں نے کہا? کہ اباّجان ہم لوگ تو خوشحا ل ہیں ۔ آپ نے فرمایا اے بیٹی مردے کی بہ نسبت زندہ آدمی نئے کپڑے کا زیادہ مستحق ہے اور یہ دونوں کپڑے پرانے اور بو سید ہ ہونے کےلئے مناسب ہیں ۔?
آپ کی زبان پر آخری الفاظ یہ بہت ھے :? بار الہا!ب مجھ کو بحالت اسلام موت دے اور مجھ کو صالحین کے پاس پہنچادے ? جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا کہ ?بیت المال کا جو کچھ سامان ہمارے پاس ہے سب واپس کر دوکیو نکہ میں اس میں سے کچھ اپنے ذمہ نہیں رکھنا چاہتا ? چنانچہ زمین ، اےک اونٹنی ،اےک قلعی گر غلام اور پانچ ہزار درہم کا کچھ غلبہ یہ سب چیزیں حضرت عمر کودیدی گئیں۔ حضرت عمر نے فرمایا :? ابو بکر نے اپنے بعد والوں کو کس قدر مشکل میں مبتلا کردیا ہے ? آپ نے 63 سال کی عمر میں 637 ءمیں وفات پائی ۔ آپ اسی پلنگ پر اٹھائے گئے جس پر آنحضرت کو اٹھایاگیا تھا ۔ نماز جنازہ حضرت عمر نے مسجد بنوی میں پڑھائی ۔ حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہ کو وصیت کی تھی کہ انہیں رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کا سر رسول اللہ کے شانہ مبارک کے قریب اور لحد کو رسول اللہ کی لحد سے ملحق رکھا گیا


ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری
2
حضرت خدیجتہ الکبرینام
556تاریخ پیداءش
620تاریخ وفات

حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا

حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا ?اور سب سے پہلے اس سچے مذہب کی حقیقت کو سمجھا۔ ارباب سیر اور محدثین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے اول جو رسول اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا یا وہ یہی مقدس خاتون ہیں ۔

ان کے نسب کا سلسلہ اس طرح ہے ۔ خدیجتہ بنت خوایلد ? ابن اسد بن عبدالعری بن قصی قریشی ۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بھی قریشی تھیں۔ان کے والد خویلد قریش میں ایک معزز سردار تھے ۔ اور سب سے زیادہ دولت ان کے پاس تھی ۔ ان کے مرنے کے بعد تمام دولت حضرت خدیجہ کو ملی ۔ قریش میں ان کی بہت زیادہ دولت عزت تھی نہ صرف مال کی وجہ سے بلکہ نیکی ? حسن اخلاق میں بھی یہ ایک ممتاز درجہ رکھتں تھیں ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب عہد جاہلیت میں طاہرہ تھا۔ ان کا نکاح پہلے عتیق بن عابد مخزومی کے ساتھ ہوا تھا۔ ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا ۔ انہیں کے بیٹے محمد مخزومی ہیں ۔ اس کے بعد دوسرا نکاح ابوہالہ سے ہوا۔ جو تمیم میں سے تھے ۔ ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا ان کا نام بھی ہند رکھا گیا۔ وہ حضرت علی کے ہمراہ جنگ جمل میں شریک ہو کر کام آئے ۔

ابو ہالہ کے مرنے بعد حضرت خدیجہ نے پھر نکاح کا ارادہ نہیں کیا ۔ دنیا سے ان کی طبیعت اچاٹ تھی ۔ اکثر خانہ کعبہ میں جاتیں اور وہیں اپنی عبادت کیا کرتیں ۔ طبیعت کا میلان بالکل نیکی کی طرف تھا اس لئے کاہنہ عورتیں ? جو اس زمانہ میں بہت بزرگ خیال کی جاتی تھیں ? ان کے پاس آتیں تھیں ۔ یہ ان کی باتیں نیایت خوش اعتقادی سے سنتیں اور ان کی خاطر و مدارات کرتیں ۔

بہت سے قریش کے سردار اس خواہش میں تھے کہ ان سے شادی کریں ۔ کیونکہ مالداراور دولمند ہونے کے علاوہ حسن میں بھی تمام قبیلہ میں بے نظیر تھیں ۔ علاوہ بریں اعلی درجہ کی منتظم ار نہایت عقیل تھیں ۔ گھر اور باہر کا سب انتظام بہت اچھی طرح رکھتی تھیں ۔ لیکن انہوں نے پسند نی کیا۔ ایک سال بہت ہی سخت قحط تھا اور عرب کے لوگ نہایت پریشان تھے ۔ ابوطالب نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کہا کہ ? تمہارا نام عرب میں امین امانت دار مشہور ہو گیا ہے ۔ تمہاری سچائی اور دیانت داری پر اعتماد رکھتے ہیں ۔ اس وقت شام کے ملک میں قافلہ جانے کو تیار ہے خدیجہ اپنے اونٹوں کے ہمراہ ایک شخص کو اجیر ملازم کر کے بھیجتی ہیں ۔ اگر تم ان سے کہو تو کیا عجیب ہے کہ تمہیں کو اس کام کے لئے وہ پسند کریں ۔ کیو نکہ بہت قحط ہے ہم لوگ تباہ ہورہے ہیں کوئی صورت آمدنی کی کرنی چاہیے ? آپ نے جواب میں فرمایا کہ ? بہت ممکن ہے کہ وہ بلادرخواست یہ کام میرے سپرد کریں ۔ کیونکہ آپ سمجھے تھے کہ میری امانت داری کی شہرت ہے ? اور وہ امین آدمی تلاش کریں گی اس لئے کوئی تعجب نہیں ہے کہ پہلے ان کی نظر مجھی پر پڑے گی ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب حضرت خدیجہ نے اپنے ایک آدمی سے حضرت ابوطالب اوررسول اللہ صلی علیہ وسلم کی گفتگو کا حال سناتو آپ نے کہلا بھیجا کہ میں اپنے تجارتی سامان کے اونٹ آپ ہی کے سپرد کرتی ہوں ۔ اور پہلے لوگوں کو میں جس قدر اجرت دیا کرتی تھی اس کا دوگنا آپ کو دوں گی ۔ یہ سن کر حضرت ابو طالب بہت خوش ہوئے ۔ تمام راستہ میں آپ کا بر تائوہر ایک کے ساتھ خوش معاملگی کا تھا ۔ میسر ہ جان و دل سے آپ کا مطیع تھا ۔ اور جس وقت قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر اس نے تمام حالت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے سفر کی اور نسطورا کا قصہ بیان کیا۔ اور حد سے زیادہ ان کی تعریف کی ۔ اس کے بعد سب مال و منافع پیش کیا۔ حضرت خد یجہ اس غیر معمولی نفع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ اور رسول اللہ کو ان کی مقررہ اجرت سے بھی دگنا دیا۔ پھر حضرت ضدیجہ نے یمن کے بازار جاشہ میں آپ کو بھیجا ۔

وہاں بھی اچھا نفع حاصل ہوا۔ آپ وہاں سے کپڑے خریدلائے جس کی تجارت سے مکہ میں بہت فائدہ ہوا۔ یہی سفر بھی آپ کا بہت کامیاب ہوا۔حضرت خدیجہ آپ کے حسن معاملت اور دیانت دار ی سے بیحد خوش ہوئیں ۔ اس کے علاوہ چونکہ نسطورارا ہب وغیر ہ کا قصہ سن چکی تھیں اس لئے ان یقین ہو گیا تھا کہ آنحضرت کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں اور یہی وجہ جس نے ان کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے نکاح کی ترغیب دلائی ۔ نفیہ جو حضرت خدیجہ کی کونڈیوں میں تھیں ? کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہمیشہ سے بہت قدر تھی ? اور ان کے اخلاق اور راستی پر وہ فدا تھیں ۔ جب آنحضرت دوسری بار یمن کے بازار سے واپس آئے تو خدیجہ نے مجھ کو بطور پیغامبر کے آپ کے پاس بھیجا ۔ میں نے جا کر عرض کیا کہ آپ نکاح کرنا چاہے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے پاس وقت نہ کچھ مال ہے نہ سامان ۔ نکاح کیونکر کروں ۔ میں نے کہا کہ اس کی ذمہ دار میں ہوں اور ایسی جگہ نکاح کرائوں گی جہان مال ? جمال ? شرافت اور اطاعت سب کچھ ہو۔ آپ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ میں نے کہا خدیجہ ۔ فرمایا کہ کیونکر اس کا سر انجام ہو گا ۔ میں نے کہا سب کچھ میں کر لوں گی ۔ یہ کیفیت میں نے آکر خدیجہ سے بیان کی ۔ انہوںنے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو بلوایا ۔ اور کہ مجھے آپ کی طرف صرف اس لئے رغبت ہے کہ آپ کی کوئی بات کبھی میں نے جھوٹی نہیں پائی اور آپ کے خلاق بہت اچھے ہیں۔

آپ اپنے چچا ابو طالب کے پاس گئے ان سے یہ حا ل بیان کیا تو وہ بہت خو ش ہو ئے ۔حضرت خد یجہ نے بھی ا پنے چچا عمر و بن ا سد اور تما م قبیلے جمع کو جمع کیا۔ا بو طا لب نے نکا ح کا خطبہ پڑ ھا ۔ حضرت حمزہ نے بیس او نٹ مہر میں د یئے اور نکا ح ہو گیا۔اس و قت ر سول کی عمر پچیس سا ل کی تھی اور خد یجہ کی چا لیس
سا ل۔

اس نکا ح کے بعد چو نکہ آ پ کو دولت مل گئی اس و جہ سے آ پ کی عز ت اور و قعت بہت بڑ ھ گئی ۔اور د نیو ی ا سبا ب کے لحا ظ سے رسالت کی کا میا بی کی شا ہر ا ہ اسی و قت سے کھل گئی۔اس کے بعد آ پ کو د فا ع ا لبا لی اور ا طمینا ن کے سا تھ ا پنے اس کا م کے لئے کو شش کر نے کا مو قع مل گیا جس کے لئے مشیت ا یز دی نے دنیا میں آ پ کو بھیجا تھا ۔ آ پ ا کثر غا ر حرا میں چلے جا تے اور و ہیں عبا دت کیا کر تے ۔حضرت خد یجہ ہر ایک کا م میں آ پ کی مر ضی کے مطا بق مدد کر نے کے لئے تیا ر ر ہتیں۔ غا ر حرا میں آ پ ز بر دست نشا نی (رو ح ا لا مین )کو دیکھ کر ڈ ر گئے۔کا نپتے ہو ئے گھر مین آ ئے ۔اور کہا کہ ز ملو نی (مجھ کو چا در اڈ ھا ئو)۔پھر جب آ پ کی طبیعت کو کچھ سکو ن ہوا تو حضرت خد یجہ سے تما م کیفیت بیا ن فر مائی۔حضرت خد یجہ نے ہرطر ح پر تسکین د لائی ۔اور کہا کہ تم صد قہ د یتے ہو،قرا بت مند و ں کے سا تھ سلو ک کر تے ہو ،تمہا را شیوہ ا حصا ن ہے تم ا للہ سے ڈ ر تے ہو۔ کیا تم کو ا للہ ضا ئع کر ے گا؟ نہیں ہر گز نہیں ۔وہ پھر آ پ کو اپنے چچا اد بھا ئی ورقہ بن نو فل کے پاس لے گئیں جو کہ گز شتہ آ سما نی کتابوں کے بہت بڑ ے عا لم تھے۔ان سے سا را حا ل بیان کیا۔

ا نہو ں نے کہا یہ علا مت نبو ت کی ہے ۔تمہیں اللہ تعا لی سر فراز کر ے گا اور تمہا ری قوم تم کو یہا ں سے نکا ل دے گی۔ور قہ بن نو فل کا یہ کلا م سن کر اور اورخد یجہ کی با تو ں سے آ پ کو تسکین ہو گئی ۔جب کبھی کسی قم کی گھبرا ہٹ آپ کی طبیعت کو ہو تی تو حضرت خد یجہ ہی تسکین د لا تیں اور ہمت بندھا تیں۔

آ پ فر ما یا کر تے تھے کہ ?میں جب کفا ر سے کو ئی با ت سنتا تھا اور وہ مجھ کو نا گو ار معلو م ہو ےی ےھی تو خد یجہ سے کہتا تھا۔وہ اس طر ح سمجھا تی تھیں کہ اس سے میر ے دل کو تسکین ہو جا تی تھی اور کو ئی رنج مجھ کو نہیں ہو تا تھا?اس حد یث سے معلو م ہو تا ہے کہ وہ کس قد ر ثا بت ا لقلب اور مستقل مز اج تھیں کہ ر سو ل اللہ جیسے او لو ا لعز م اور با حوصلہ ر سو ل کی ہمت بند ھا تاکر تی تھیں۔اس طر ح آ نخصرت کی نہ صر ف ز ند گی کی شر یک تھیں بلکہ رسا لت کی کا میا بی میں بھی ا یک قو ی اور ز بر دست با زو تھیں۔

ر سو ل ان کی و فا ت کے بعد ا کثر ان کی تعر یف کیا کر تے تھے۔حضرت عا ئشہ فرما تی ہیںکہ ا کثر جب آپ گھر میں تشر یف لا تے تو خد یجہ کا ذ کر کر تے اور بیحد ان کی تعر یف فر ما تے ۔ا یک د فعہ فر ما یا کہ خد یجہ سے ا چھی کو ئی بیو ی مجھ کو نہیں ملی ۔وہ ایما ن لا ئی اور سب لو گ کا فر تھے ۔اس نے میر ی تصد یق کی ،اور سب لو گ مجھ کو جھٹلا تے تھے۔اس نے اپنے ما ل سے میر ی مدد کی اور سب لو گو ں نے مجھ کو محروم ر کھا۔ اس سے اللہ نے مجھے ا و لا د یں عطا کیں اور کسی بیو ی سے اولا د نہ ہو ئی۔

حضرت خد یجہ نے 65بر س کی عمر میں 620ءمیں و فا ت پا ئی اور مکہ کے مشہو ر قبر ستا ن حجو ن میں دفن کی گئیں۔اس وقت جنا زہ کی نما ز بھی نہیں پڑ ھی جا تی تھی۔


رسو ل کی تما م او لا دیں ،سو ائے حضرت ا برا ہیم کے انہیں سے تھیں۔سب سے پہلے قا سم پیدا ہو ئے جو چا ر بر س کی عمر میں ا نتقا ل کر گئے۔انہیں کے نا م سے آ پ کی کنیت ا بو قا سم ہو ئی۔پھر ز ینب۔اس کے بعد عبد اللہ ،پھر ر قیہ ،پھر ام کلثوم ،پھر فا طمہ ز ہرا۔عبدا للہ نے بھی جن کا لقب طیب و طا ہر تھا دو برس کی عمر میں ا نتقال کیا۔
بہت ز یا دہ دو لت،عو رتو ں میں سب سے پہلے اسلا م قبو ل کر نے وا لی اور ر سو ل کی بہت پیا ری

حضرت امام جعفر صادق
3
حضرت امام جعفر صادقنام
704تاریخ پیداءش
772تاریخ وفات
وجھ شھرت
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت نعوذ باللہ اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ?جبکہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔آپ امت محمدی کے لئے صرف بادشاہ اور حجت نبوی کے لئے روشن دلیل ہی نہیں بلکہ صدق و تحقیق پر عمل پیرا ?اولیا ءکرام کے باغ کا پھل ?آل علی ?نبیوں کے سردار کے جگر گوشہ اور صحیح معنوں میں بھی وارث بنی بھی ہیں ۔اور آپ کی عظمت و شان کے اعتبار سے ان خطابات کو کسی طرح بھی نا مناسب نہیں کہا جا سکتا ۔آپ کا درجہ صحابہ کرام کے بعد ہی آتا ہے لیکن اہل بیت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف باب طریقت ہی میں آپ سے ارشادات منقول ہیں ?بلکہ بہت سی روایتیں بھی مروی ہیں۔جو لوگ آپ کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں وہ بارہ اماموں کے مسلک پر گامزن ہیں ۔آپ نہ صرف مجموعہ کمالات و پیشوائے طریقت کے مشائخ بلکہ ا رباب ذوق اور عاشقان طریقت اور زاہدان عالی مقام کے مقتدا بھی ہیں ?نیز آپ نے بہت سی تصانیف میں راز ہائے کو بڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے اور حضرت امام باقر ے بھی کثیر مناقب روایت کئے ہیں ۔

آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت نعوذ باللہ اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ?جبکہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کے عقائد ہی میں یہ شے داخل ہے کہ رسول خدا پر ایمان لانے کے بعد ان کی اولاد سے محبت کرنا لازم ہے۔

اہل بیت ہی کی محبت کی وجہ سے حضرت امام شافعی کو رافضی کا خطاب دے کر قید کر دیا گیا ?جس کے متعلو امام صاحب خود اپنے ہی ایک شعرمیں اشارہ فرماتے ہیں :اگر اہل بیت سے محبت کا نام رفض ہے تو پھر پورے عالم کو میرے رافضی پر گواہ رہنا چاہئیے اور اگر بالفرض اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت کرنا ارکان ایمان میں داخل نہ بھی ہو تب بھی ان سے محبت کرنے اور ان کے حالات سے باخبر رہنے میں کیا حرج واقع ہوتاہے ۔ اس لئے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ خلفائے راشدین ودیگر صحابہ کرام کے مراتب کو بھی مراتب افضل خیال کرے ۔روایت ہے کہ کسی نے حضرت امام ابو حنیفہسے دریا فت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں سب سے زیا دہ افضل کون ہے؟فرمایا کہ بیبیوں میں حضرت فاطمہ زہرہ صدیق اکبر و حضرت عمر اور جوانوں میں حضرت عثمان و علی اور ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ ۔
خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق کو میرے روبرو پیش کرو? تاکہ میں ان کو قتل کر دوں ۔وزیر نے عرض کیا کہ دنیا کو خیر باد کہہ کر جو شخص عزلت نشین ہو گیا ہو اس کو قتل کرنا قرین مصلحت نہیں ۔لیکن خلیفہ نے غضب ناک ہو کرکہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے ۔چنانچہ مجبوراجب وزیر امام جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموںکو ہدایت کی کہ جس وقت میں اپنے سر سے تاج اتاروں تو تم فی الفور امام جعفر صادق کو قتل کر دینا ۔لیکن جب آپ تشریف لائے تو آپ کے جلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ بے قرار ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھا یا بلکہ اور خود بھی مودبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور ضروریا ت کے متعلق دریا فت کرنے لگا ۔آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت اور ضرورت یہ ہے کہ آئندہ پھر کبھی مجھے دربار میں طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت اور ریاضت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔چنانچہ منصور نے وعدہ کر کے آپ کو عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کیا حضرت دائود ائی نے حاضر خدمت ہو کر امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں ۔ لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ دائود طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالی نے جو آپ کو فضیلت بخشی ہے اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہی خوف لگا ہو اہے کہ قیامت کے دن میرے جدا علی ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تو نے خود میرا اتباع کیوں نہیںکیا؟کیوں کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے ۔یہ سن کر دائود طائی کو بہت عبرت ہوئی ۔

جب آپ تارک دنیا گئے تو کسی بزرگ نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا کہ مخلوق آپ کے تارک الدنیا ہونے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہو گئی ہے ۔آپ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل دو اشعار پڑھے (ترجمہ) :
َََ کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئی اور لوگ اپنے خیالات میں غرق رہ گئے
گو بظاہر با ہم اظہار محبت وفا کرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھوئوں سے لبریز ہیں
آپ کو بیش بہا لباس میں دیکھ کر کسی نے اعتراض کیا کہ اتنا قیمتی لباس اہل بیت کے لئے مناسب نہیں ۔آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جب اپنے آستین پر پھیر اتو اس کا لباس ٹاٹ سے بھی زیا دہ کھردرا محسوس ہوا ۔اس قت آپ نے فرمایا ?مخلوق کی نگاہوں میں یہ تو عمدہ لباس ہے لیکن حق کے لئے یہی کھردرا ہے ۔
آپ نے امام ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ دانش مند کی کیا تعریف ہے؟امام صاحب نے جوب دیا کہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کر سکے ۔آپ نے کہا کہ یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ جو ان کی خدمت کرتا ہے اس کوایذا نہیں پہنچا تے اور جو تکلیف دیتا ہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں ۔امام ابو حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟جواب دیا کہ جو دو بھلائیوں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے ۔ اور دو برائیوں میں سے مصلحتہََ کم برائی پر عمل کرے ۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری وباطنی فضل وکمال کے باوجود آپ میں تکبر پایا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میں متکبر تو نہیں ہوں ۔ البتہ جب میں نے کبر کو ترک کر دیا تو میرے رب کی کبریائی نے مجھے گھیر لیا ۔اس لئے میں اپنے کبر پر نازاں نہیں ہوں ?بلکہ میں تو اپنے رب کی کبریائی پر فخر کرتا ہوں ۔

جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گنہگار ہے اور جو معصیت پراظہار ندامت کرے وہ فرمانبردار ہے ۔ صبر کرنے والے درویش کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ مالدار کو ہمہ اوقات اپنے مال کا تصور ہے اور درویش کو صرف اللہ کا خیال ۔جیسا کہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ ?توبہ کرنے والے ہی عبادت گزار ہیں ?ذکر الہی کی تعریف یہ ہے کہ جس میں مشغول ہونے کے بعد دنیا کی ہر شے کو بھول جائے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر شے کا نعم البدل ہے اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے یعنی تمام اسباب وسائل ختم کر دیئے جا تے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عطائے الہٰی بلا واسطہ ہے نہ کہ بالواسطہ۔مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہمہ تن مشغول رہے ۔صاحب کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے نفس کی سرکشی سے آمادہ بجنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالی تک رسائی کا سبب ہوتا ہے ۔اوصاف مقبولیت میں سے ایک وصف الہام بھی ہے ۔ جو لوگ دلائل سے الہا م کو بے بنیا د قراردیتے ہیں وہ بد دین ہیں ۔اللہ تعالی اپنے بندے اس سے بھی زیا دہ پوشیدہ ہے جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے حضرت امام جعفر صادق کا قول ہے کہ مجھ پر موز حقیقت اس وقت منکشف ہوئے جب میں خود دیوانہ ہو گیا ۔نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقلمند دشمن سے واسطہ پڑ جائے آپ نے فرمایا کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہیے:اول?جھوٹے سے کیونکہ اس کی صحبت فریب میں مبتلا کر دیتی ہے۔دوم ?بیوقوف کیونکہ جس قدر وہ تمہاری منفعت چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا ۔سوم ?کنجوس سے کیونکہ اس کی صحبت سے بہترین وقت ضائع رائیگاں ہو جاتا ہے ۔ چہارم ?بزدل سے کیونکہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیتاہے ۔پنجم?فاسق سے کیوں کہ ایک نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔اللہ تعالی نے دنیا ہی میں فردوس وجہنم کا نمونہ پیش کر دیا ہے ?کیونکہ آسائش جنت ہے اور تکلیف جہنم ۔جنت کا صرف وہی حق دار ہے جو اپنے تمام امور اللہ تعالی کے سپرد کر دے اوردوزخ اس کا مقدر ہے جو اپنے امور نفس سرکش کے حولے کر دے۔ اگر دشمنوں کی صحبت سے اولیاءکرام کو ضرر پہنچ سکتا تو فرعون سے آسیہ کو پہنچتا اور اگر اولیاءکی صحبت دشمن کے لئے فائدہ مند ہوتی تو سب سے پہلے انبیاءکی ازدواج کو فائدہ پہنچتا ۔لیکن قبض اور بسط کے سوا اور کچھ بھی ِنہیں ہے

عبد القادر جیلانی
عبد القادر جیلانینام
470تاریخ پیداءش
محی ا لدین لقب اسم گرامی عبدالقادر والد کی طرف سے حسنی والدہ کی طرف سے حسینی نجیب الطرفین ہاشمی سیّدتھے۔

ولادت: ٧٠٧٤ہجری قصبہ گیلان شہر فارس میں پیدا ہوئے ۔عربی میں قاعدہ ہے کہ گاف کے حرف کو جیم سے بدل دیتے ہیں اس لیے گیلان کی مناسبت سے آپ کو گیلانی کی بجائے جیلانی کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں آپ کے جدّاعلیٰ کا اسم گرامی جیلان ابو عبد اللہ صو معی تھا۔ اسی رعایت سے آپ جیلانی کہلاتے ہیں ۔ لیکن آپ کے نسب نامہ میں اس نام کے کوئی بزرگ نہیں ملتے۔ اس لیے یہ بیان صحیح نہیں ۔ اصل میں آپ کے نانا کا نام ابو عبداللہ صومعی تھا مگر ان کے نام کے ساتھ بھی جیلان کا لفظ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا ۔ پس آپ کو جدّاعلیٰ کی مناسبت سے جیلانی کہنا درست نہیں۔


مولانا جامی نے اپنی کتاب نفخا ت الانس میں طبقات حنابلہ میں علامہ ابوالفرح عبدالرحمان شہاب نے اور ان کی تائید میں اکثر دیگرتذکرہ نگاروں نے آپ کو والد کی طرف سے حسنی لکھا ہے اور نصب نامہ یوں بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن صالح ،حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ ، زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّد امام حسن بن امیر المو منین علی ابن ابی طالب۔


بعض روایات میں آپ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن ابو صالح حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الثانی بن عبداللہ الثانی بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب۔


اس کے علاوہ بعضوں نے اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر ابو محمد ابن ابو صالح ابن موسٰی بن عبداللہ حیلی بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب،


آپ کے والد محترم جناب ابو صالح نہایت متقی ، عابدوزاہد اور ایک پرہیز گار بزرگ تھے۔ گویا اسم با مسمّیٰ ۔ آپ کے تقوے اور دینداری کا اندازہ کچھ اس واقع سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نہر میں بہتا ہوا ایک سیب آپ کے ہاتھ ا گیا سیب نہایت حوش رنگ تھا طبیعت چاہی چنانچہ کھا لیا ۔ مگر کھاتے ہی معاً خیال آیا کہ معلوم نہیں کہ یہ کس کے باغ کا سیب ہے با غبان کی اجازت کے بغیر کھانا حلال نہیں ہو سکتا چنانچہ اب نہر کے کنارے کنارے سیب کے مالک کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے کہ اس سے جا کر معافی مانگیں۔


جو بندہ با بندہ با لا خر ایک باغ میں پہنچ گئے اور وہاں آپ نے اس بات کا صحیح اندازہ لگا لیا کہ یہ سیب اسی باغ کا ہے اس باغ کے مالک جناب عبد اللہ صومعی تھے ۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کر کے خواستگارمعافی ہوئے۔ ولی را ولی می شناسد کے بمصداق جناب صومعی نے دیکھا کہ ایک طرف عنفوان شباب ہے لیکن دوسری طرف تقوی و طہارت کا یہ عالم کہ طبیعت میں جوانی کی شوخی و شرارت مطلق نہیں۔ دل نے کہا یہ ضرور کسی عالی خاندان کا چشم وچراغ ہے۔ جناب سیّد عبداللہ صومعی نے آپ کا حسب و نسب معلوم کیا بعد اطمینان کر لینے کے آپ کو اپنے پاس رکھا بعضوں نے لکھا ہے کہ آپ ان کی خدمت میں دس برس تک مقیم رہے اور باغبانی کرتے رہے۔


ایک روز جناب عبداللہ صومعی نے آپ سے فرمایا کہ آپ کو معافی اس شرط پر دی جا سکتی ہے کہ آپ میری اندھی ، گونگی، اپاہج اور بہری بیٹی کو اپنی بیوی بنانا قبول کر لیں آپ نے منظور کر لیا چنانچہ شادی ہو گئی۔ مجلہ عروسی میں گئے وہاں اپنے گمان و خیال کے برعکس پایا ۔ انہوں نے دیکھا کہ نہایت حسین و جمیل عورت ہے اور اس کے تمام اعضاءصحیح و سالم ہیں۔ سخت پریشانی ہوئی قریب تھا کہ کسی الجھن میںپڑ جاتے کہ آپ کے خسر نامدار نے اسے رفع کر دیا فرمایا ہاں یہی تمہاری بیوی ہے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ درست ہے میرا اس سے مطلب ان باتوں سے تھا جو احکام الٰہی کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری بیٹی ایسی تربیت یافتہ ہے کہ کبھی شیطان کے بہکاوے بہک نہیں سکتی۔


یہ بی بی جناب فاطمہ ام الخیر تھیں ۔ جن کے آغوش امومت میں جناب سید عبدالقادر جیلانی نے پرورش و تربیت پائی ۔ آپ جناب امام حسین کی اولاد سے تھیں آپ کا شجرہ نسب یوں ہے۔ سیدہ ام الخیر بی بی فاطمہ بنت سید عبید اللہ صومعی بن ابو جمال بن محمد بن محمود بن ابو العطاءعبداللہ بن کمال الدین عیسٰی بن ابو علائو الدین محمد الجواد بن علی الرضا بن موسٰی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن امیرالمومنین علی بن ابی طالب۔


تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ام الخیر بی بی فاطمہ جب ساٹھ برس کی عمر کو پہنچیں تب آپ کے بڑھاپے اور عالم یاس میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں اولاد کا منہ دیکھنا کسی طرح معجزے سے کم نہیں۔ آپ کے عادات و خصا ئل کے بارے میں لکھا ہے کہ عام بچوں سے با لکل مختلف تھے۔ یعنی عالم طفلی میں بھی دودھ کے لیے کبھی روتے تھے نہ چلاتے تھے کسی نے پلا دیا تو پی لیا ورنہ چپ رہے اور گہوارے میں پڑے ہاتھ پیر چلاتے رہے۔


ابھی ہوش نہ سنبھالنے پائے تھے کہ والد محترم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ کے نانا جناب عبد اللہ صومعی حیات تھے۔ اب وہی آپ کے سر پرست بنے نانا کا چونکہ اپنا کوئی فرزند نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے آپ ہی کو فرزند بنا لیا اور تمام تر جائداد آپ کے نام وقف کر دی۔ جب آپ چار پانچ برس کے ہوئے تو بی بی فاطمہ نے آپ کو مکتب میں بٹھا دیا۔ دس بارہ برس کی عمر تک اسی مدرسے میں تعلیم پاتے رہے اسی دوران میں آپ کے نانا کو بھی اللہ تعا لیٰ کی بارگاہ سے بلاوا آ گیا اب لے دے کر صرف آپ کی والدہ محترمہ بی بی فاطمہ ہی تھیں جن کے کندھوں پر تمام گھر کے انتظام کا بار تھا اور ان کی امیدوں کا واحد مرکز آپ تھے۔


بی بی فاطمہ اٹھتر برس کی تھیں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بغداد جانے کی خواہش پیش کی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے عالم میں بی بی فاطمہ کے دل پر کیا گزری ہو گی مگر فرمان نبوی کے پیش نظر کہ تم علم سیکھو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے ?بی بی نے آپ کو با چشم گریاں اجازت دے دی اور فرمایا تمہارے بابا نے اسی ٠٨ دینار ترکہ میں چھوڑے تھے ان میں سے چالیس دینار تم لے جائو اور چالیس دینار تمہارے بھائی کے لیے رکھ لیتی ہوں ۔ آپ بغداد پہنچ کر سلطان نظام الملک کے مدرسہ عالیہ نظامیہ بغداد میں داخل ہوئے علامہ شیخ ابو سعید اس مدرسہ کے مہتمم تھے آپ نے جناب شیخ سے درس قرآن حکیم حاصل کیا پھر قواعد تجوید، علم تفسیر ، فقہ اور اصول حدیث کی تعلیم پائی ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آپ علوم عقلی و نقلی میں ایک مبتحر عالم ہو گئے۔


آپ کے بزرگ استاد جناب شیخ نے تکمیل تعلیم کے بعد آپ سے اسی مدرسہ میںطلباءکو تعلیم دینے پر اصرار کیا الامر فوق الا دب کے پیش نظر آپ نے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور اسی مدرسہ نظامیہ بغداد میں طلباءکو تعلیم دینے لگے۔ درس و تدریس کا جو انداز قدرت نے آپ کو عطا کیا تھا وہ آپ کے زمانے کے کسی مدرس یا معلم کو حاصل نہ تھا۔ حاصل کلام یہ کہ آپ ایک تھوڑی ہی مدت میں عالم و عارف کامل کی حیثیت سے شہرت پا گئے۔


آپ کی ذہانت و فطانت کا عالم یہ تھا کہ مشکل سے مشکل اور ادق سے ادق مسئلہ جو بڑے بڑے علماءسے حل نہ ہوتاتھا ایک ثانیہ کی مہلت میں حل کر کے رکھ دیتے تھے۔ مختصریہ کہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے استاد علامہ شیخ ابو سعید مبارک بن علی محزومی کے مرید ہوئے۔ محزومی شیخ ابو الحسن علی بن محمد القریشی کے مرید تھے ۔ ابوالحسن شیخ ابوالفرح طرطوسی کے مرید تھے۔ طرطوسی ابو الفضل عبدا لواحد تمیمی کے مرید تھے۔ تمیمی شیخ ابو بکر شبلی کے مرید تھے۔ شبلی شیخ جنید بغدادی کے مرید تھے بغدادی اپنے ماموں شیخ سری سقطی کے مرید تھے سقطی شیخ معروف کرخی کے مرید تھے کرخی شیخ دائود و طائی کے مرید تھے طائی شیخ حبیب عجمی کے مرید تھے عجمی خواجہ حسن بصری کے مرید تھے۔ بصری امیر المومنین علی بن ابی طالب کے مرید و شاگرد تھے۔


آپ سے طریقت کا جو سلسلہ آگے چلا وہ آپ ہی کے نام نامی پر سلسلہ قادریہ سے موسوم ہوا۔ آپ کی بزرگی اور علمی فضیلت و شخصی کمال کے اعتراف کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی۔ کہ طریقت کے تمام سلسلوں میں آپ کا فیض جاری ہے ۔ اور بلا استثناءطریقت کے تمام سلسلے کے بزرگوں نے آپ کو اولیائے کبار کی فہرست میں سب سے افضل تسلیم کیا ہے۔


پچیس برس کا سن جوانی کی شوخیوں کا زمانہ ہوتا ہے آپ نے اس عمر میں پہنچ کر بڑ ی بڑی ریاضتیںاور مجاہدے کیے اور نفس کی ہر اس خواہش کا گلا گھونٹ دیا جس سے انسان کے دل میں دنیا سے رغبت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔

جب جناب جیلانی پچاس برس کے ہوئے تو آاپ نے جامع بغداد میں وعظ کہنا شروع کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بلند آواز عطا فرمائی کہ دور و نزدیک ہر جگہ سے یکساں سنائی دیتی تھی۔ اور یہ بھی آپ کے بیان ترجمان قرآن کا اثر تھا کہ لوگ وعظ سنتے سنتے مبہوت ہو جاتے اور مجمع کا یہ عالم ہوتا کہ جامع مسجد میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہتی بڑے بڑے علماءو مشائخ آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور گوش ہوش وا کرتے۔ کہتے ہیں چار سو علماءآپ کے وعظ میں اس لیے شریک ہوتے کہ آپ کے ارشادات قلمبند کریں اور کتنے ہی یہودی اور عیسائی آتے کہ آپ کی زبان ترجمان قرآن سے وعظ سن کر مسلمان ہو جاتے لکھا ہے کہ آپ کے دست حق پرست پر پانچ سو سے زیادہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔


اصلاح احوال کا جو اسلوب آپ نے اختیار کیا وہ آپ کے زمانے میں کسی کو میسر نہیں تھا۔ اخلاق سنوارنے اور بگڑے ہوئے لو گوں کے احوال سد ھارنے میں بڑی سے بڑی حکومت بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی مگر آپ کی ایک ہی نگا ہ التفات بڑے بڑے سرکشوں، ڈاکوئوں ، رہزنوں اور چوروںپر وہ کام کر گئی۔ ان کے دل و دماغ کو ایسا مسلمان کیا۔ فکرو نظر میں ایسی جلا پیدا کی کہ انہوں نے سیدھی راہ کو چھوڑ کر پھر کبھی گمراہی کا راستہ اختیار نہ کیا اس سلسلے میں ایک ادنیٰ سی مثال آپ کے بچپن کے زمانے کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ مرتبہ ولایت پر پہنچے تب اس وقت آپ کی زبان ترجمان قرآن میں کیا اثر تھا اور آپ کس شان کے بزرگ تھے۔


تذکرہ نگاروںنے لکھا ہے کہ آپ چودہ برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ بغداد کو روانہ ہوئے والدہ محترمہ نے آپ کی گدڑ ی میں چالیس اشرفیاں رکھ کر اس مقصد کے لیے سی دیں کہ حفاظت رہے اور ضرورت کے وقت کام آ سکیں بد قسمتی سے راستے میں ڈاکہ پڑا۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی ڈاکوئوں نے اس سے بڑی بے دردی سے چھین لی۔ داکوئوں نے آپ سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے؟ آپ نے کہا چالیس اشرفیاں ڈاکو سمجھے آپنے ہم سے مذاق کیا ہے چنانچہ آپ کو اپنے سردار احمد الفی کے پاس لے گئے اور ماجرا بیان کیا سردار نے بھی آپ سے یہی پوچھا اور آپ نے اسے بھی یہی جواب دیا۔ اس نے کہا اچھا لائو دکھائو تو وہ چالیس اشرفیاں کہاں ہیں۔ آپ نے گدڑی ادھیڑی اور اشرفیاں نکال کے ان کے سامنے رکھ دیں۔


ڈاکو بہت حیران ہوئے۔ سردار نے کہا اے لڑکے تو نے ایسی چھپی ہوئی چیز جو ہزار کوششوں کے باوجود بھی ہمارے ہاتھ نہ آ سکتی تھی کیوں ظاہر کر دی آپ نے جواب دیا میں تعلیم کی غرض سے بغداد جا رہا ہوں یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں رکھی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بڑی شدت سے تاکید کی کہ سچ کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دینا ہمیشہ سچ بولنا ڈا کوئوں کے دل پر آپ کی بات نے کچھ ایسا اثر کیا کہ فوراً ڈکیتی سے توبہ کر کے پارسائی اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ یہ لوگ چوروں اور ڈاکوئوں کی صف سے نکل کر اللہ کے دوستوں میں شمار ہوئے۔ احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اللہ کے رسو ل کی محبت بچپن ہی سے آپکے دل میں جا گزین تھی جب تحویل علم سے فارغ ہو کر آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عارف عظیم المرتبت ولی اللہ ہوئے تو اس وقت بھی آپ کا یہ عالم تھا کہ سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔


چھوٹوں پر شفقت فرماتے اور بڑوں کی تعظیم کرتے۔ کمزوروں ، ضعیفوں ، غریبوں اور حا جتمندوں کی دستگیری فرماتے ان کی ضرورتیں پوری کرتے۔ لیکن کسی دولتمند یا امیر اور رئیس کو کبھی خاطر میں نہ لاتے اور نہ کبھی اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے۔ غریبوں کے گھر پر اکثر خود چل کر جاتے اور ان کی مزاج پرسی کرتے لیکن کسی دولت مند کے دروازے پر کبھی قدم نہ رکھتے۔ بادشاہ وقت سے لیکر تمام اراکین حکومت تک کبھی کسی کی پرواہ نہ کرتے۔


اگر کسی ضرورت مندو محتاج و بے نوا کے بارے میں کسیحاکم سے کچھ کہناہوتا تو اسے سفارش کے طور پر لجاجت کے ساتھ نہ لکھتے نہ کہتے بلکہ تحکمانہ انداز میں فرمان لکھتے اورحکم دیتے کہ اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور اس کی بات سنی جائے۔صاحب طبقات نے لکھا ہے کہ آپ نے ٠٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا تمام اراکین حکومت آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور آپ کی تنقید حکومت پر اتنی سخت ہوتی کہ کسی کی مجال نہیں تھی کو آپ کے بیان پرذرا گرفت کر سکے۔ اکثر دس دس اور بیس بیس ہزار کا مجمع ہوتا تھا ۔ مگر کسی میں بھی اتنا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ آپ کے سامنے لب کشائی کر سکے۔ آپ کے وعظ کا ماحصل یہ تھا ۔ کہ اے لوگو اللہ اور اللہ کے رسول کی پیروی کرو اس کے احکام پر صدق دل سے عمل کرو دین میں کوئی نئی بات نہ پیدا کرو خدا کی نافرمانی مت کرو صبر کرو بے صبر نہ بنو ۔ کشائش کا انتظار کرنا چاہیے۔ نا امید نہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر پر سب ایک ہو جائو۔ اور آپس میں نا اتفاقی پیدا نہ کرو ۔ توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو جائو۔ ان سے آلودہ نہ ہو جائو اور اپنے مولا کے دروازے سے نہ ہٹو۔


ایک مرتبہ ا پ نے فرمایا جب میں فرائض کے بعد اچھے کاموں پر غور کرتا ہوں تو محتاجوں اور مہمانوں کو کھانا کھلانے اور عام و خاص کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے اور دشواریوں میں ہاتھ بٹانے سے بہتر کسی کام کو نہیںپاتا ۔ اگر دنیا کی تمام دولتوں کے خزانے مجھے مل جائیں تو میں سب کے سب فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کر دیتا۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھلا دیتا یہ ہیں وہ درحقیقت آپ کے نیک خیالات و عزائم جن کی وجہ سے آپ کو پیر دستگیر غریبوں کا ہاتھ پکڑنے والا اور غوث اعظم کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ آدم میں سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے والا سب سے بڑا انسان آپ کا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ آپ اپنے شاگردوں اور مہمانوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھاتے۔ غریبوں اور مسکینوں میں بیٹھ کر تو آپ کو بے پناہ مسرت ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ امیروں اور دولتمندوں کے ساتھ بیٹھنے کی آرزو تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی سعادت و مسرت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں اور غریبوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے۔


آپ کا یہ قاعدہ تھا کہ مریدین و معتقدین جو تحفے اور تحائف اور بڑی بڑی رقمیں نذرانے کے طور پر آپ کیخدمت میں پیش کرتے۔ وہ اسی وقت غریبوں میں تقسیم کر دیتے ایک موقع پر آپ خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ میں روپیہ پیسہ مال و دولت مطلق نہیںٹھہرتا ۔ اگر صبح میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک بھی دینار باقی نہ رہے آپ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم سمجھتے۔ آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔ اگر آپ کے پاس کسی وقت رقم نہ ہوتی تو سائل کو اپنے تن کے کپڑے اتار کر دے دیتے مخدوم جہانیا ں گشت کہتے ہیں کہ آپ بعض اوقات سو سو غلام خریدتے اور اسی وقت انہیں آزاد کر دیتے تھے۔


خیر یہ تو شان آپ کے جمال کے پہلو کی تھی۔ اب ذرا شان جلال دیکھیے کہتے ہیں ایک مرتبہ خلیفہ بغداد المقتضی نے ابن مرجم کو جو ظالم کے نام سے مشہور تھا ۔ شہر کا قاضی مقرر کیا۔ اس کے عہدہ قضا پر تقرر سے لوگوں میں سخت بے اطمینانی و تشویش پھیل گئی۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی۔ اس پر آپ نے بر سر منبر خلیفہ بغداد سے مخاطب ہو کر فرمایا?تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا ہے۔ جو سخت ظالم ہے کل جب تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچو گے تو اس وقت اللہ کوکیاجواب دو گے؟ وہ تو اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور شفیق ہے۔ ? کہتے ہیں خلیفہ آپ کے یہ کلمات سن کر لرزنے لگا اور اس نے فوراًہی ابن مرجم کو قضا کے عہدے سے علیحدہ کر دیا۔


ایک مرتبہ آپ مسجد میں بیٹھے وعظ کہہ رہے تھے کہ اسی دوران میں آپ کو چھینک آئی آپ نے الحمدللہ کہا۔ لوگوں نے اس کے جواب میں یرحمک اللہ و یرحیم کہا تو مسجد لوگوں کی مجمع آواز سے گونج اٹھی ۔ خلیفہ بغداد نے جو اس وقت یہاں موجود تھا حیرت سے پوچھا یہ کیا ہوا؟ اسے جواب ملا کہ سید نا عبدالقادرجیلانی کو چھینک آئی ہے لوگ اس کا جواب دے رہے ہیں اس پر خلیفہ بغداد نے کہا اصل میں حکومت تو یہ ہے۔ دلوں پر حکومت دلوں کو موہ لینے سے قائم ہوتی ہے۔ دل کا موہ لینا ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است۔۔۔۔۔صد ہزار کعبہ یک دل بہتر است


آپ کو ایک زمانہ پیر دستگیر اور غوث الاعظم و محبو ب صمدانی و سبحانی وغیرہ ناموں سے جو یاد کرتا ہے ہر چند اس میں شرک کا پہلو نکلتا ہے۔ تا ہم یہ اسی جذبے کی ایک صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے دل غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں سے محبت کرنے کے لیے پیدا کیا۔


ایک مرتبہ طالب علمی کے زمانے میں آپ کو سامان خوردونوش کی سخت دشواری پیش آئی ایک پھوٹی کوڑی پلے نہیں تھی مگر بھوک کے مارے سخت برا حال ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص بھناہوا گوشت اور تازہ تازہ روٹیاں لے کر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے ان کا جو یہ حال دیکھا تو نہایت اصرار کر کے کھانے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ باتوں باتوں میں اس نے پوچھاکہ آپ کیا کرتے ہیں آپ نے کہا تعلیم پا رہا ہوں اس نے کہا گیلان سے بھی ایک نوجوان عبدالقادر حصول تعلیم کے لیے یہاں آیا ہوا ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟ آپ نے کہا ۔ جی ہاں وہ میں ہی ہوں۔ اس جواب پر وہ شخ?ص سخت بے چین اور آبدیدہ ہو کر بولا ۔ بھائی تم میرے مہمان نہیں بلکہ اب میں تمہارا مہمان ہوں تمہاری والدہ نے تمہارے خرچ کے لیے آٹھ دینار دیے تھے کہ تمہیں پہنچا دوں مگرمجھ سے تمہاری امانت میں خیانت ہو گئی۔ آپ نہایت صبرو اطمینان کے ساتھ خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے پھر وہ کہنے لگا ہوا یوں کہ میں نے آپ کو بغداد میں بہت ڈھونڈا کئی دن آپ کی تلاش میں لگ گئے اس مدت میں میرا ذاتی خرچ جو میں اپنے ساتھ لایا تھا ختم ہو گیا جب لگا بھوکوں مرنے اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو میںنے آج یہ رقم صرف کر کے کھانا خرید لیا جسے ابھی ابھی ہم دونوں نے مل کر کھایا ہے۔


آپ نے یہ تمام بات سن کر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کے حسن خیال و نیت کی تعریف کی اور اسے تسلی دی اس کے بعد کچھ بچا ہوا کھانا دے کر اسے نہایت محبت کے ساتھ رخصت کیا۔
ٍ آٹھ دینار اور قحط کے ایام پر غور کیجئے ان دنوں اس تھوڑی سی رقم کی کتنی بڑی اہمیت ہو گی۔ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اسے بخش دیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ?قحط کی ہولناکی کے انہی دنوں میں آپ نے بھوکے ننگے فقیروں کی ایک جماعت کو دیکھاکہ شدید فاقہ کشی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپ کی طبیعت میں بے حد ملال پیدا ہوا پروردگار سے دعا کی اور اس نے فوراًقبول کی کہ ان فقیروں کے حال سے متاثر ہو کر تھو ڑی ہیہی دور گئے ہوں گے کہ ایک شخص ملا۔ اور اس نے سونے کا ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ٹکڑا آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے اخراجات کے لیے بھیجا ہے۔ آپ بازار گئے بقدرے ضرورت سونا فروخت کیا اس سے جو دام میسر آئے ان سے سب سے پہلے فقیروں کی فاقہ کشی دور کی۔


آپ کے زمانہ ولایت میں بغداد مذہبی اور سیاسی بد احوالی میں مبتلا تھا۔ مذہب کا حال یہ تھا کہ دین کے نام پر طرح طرح کے فرقے اور گروہ بن چکے تھے۔ اور ان کا عقائد میں ایسی ایسی باتیں داخل ہو چکی تھیں کہ ان کا دین اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ خاص کر اسمٰعیلی فرقے کی باطنی تحریک نے تو خوب ہی اودھم مچا رکھا تھا۔ دوسری طرف خلفائے عباسیہ کا ستارہ اقبال زوال پذیر تھا ۔ ان کی حیثیت خلافت کے تخت پر مذہبی پیشواو?ں سے زیادہ نہیں تھی۔ حالات یہ تھے کہ سلاطین آپس میں لڑ رہے تھے۔ اور ان میں سے جس کی قوت زیادہ ہو جاتی اسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا اور بغداد میں اس کے خلاف کسی میں دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔

ان احوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنان اسلام نے سر اٹھایا اور میدان کارزارگرم کیا تمام عیسائیوں نے متحد ہو کر عالم اسلام پر یلغار کر دی۔ تاریخ اسلام یہ لڑائی پہلی جنگ صلیبی کے نام سے مشہور ہے اب ایک طرف تو یہ عالم ہے کہ اپنوں اپنوں میں اقتدار و حکومت کے لیے تلوار چل رہی ہے۔ کہیں ایک دوسرے کے خلاف مذہب کی آڑ لیکر طرح طرح کی غیر اسلامی تحر یکیں چلائی جا رہی ہیں جن میں اسمٰعیلی شعیوں کی تحریک باطنیت سر فہرست ہے اور دوسری طرف اسلام کو مٹانے کے لیے کفروباطل کی تمام قوتیں مجتمع ہو کر مسلمانوں کے مقابلے پر آ گئیں۔ اب ان حالات میں کسی قوم میں خواہ کتنی ہی قوت و عزم و جوش اور ولولہ جہاد کیوں نہ ہو وہ جب تک متحد نہیں ہوتی سب کا مرکز ایک نہیں ہوتا۔ اس کا وجودوعدم دونوں برابر ہیں۔


کسی قوم کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے اور ان کے آپس کے اختلافات کو دبانے کے لیے ایک ایسی تبلیغ سے بہتر کوئی ایسا موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا جس میں فروعی اختلافات سے قطع نظرصرف اصولوں پر زور دیا جائے۔ آپ نے سلسلہ رشدوہدایت جاری کیا تو اس میں اپنی ذات کو مرکز نہیں بنایا بلکہ محمد رسول اللہ کی ذات والاصفات پر تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش فرمائی حکومت و اقتدار کے لیے دین و مذہب کے نام پر مسلمانوں میں جو مختلف گروہ بن چکے تھے ان کے اغرا ض و مقاصد کی نقاب کشائی کی۔


آپ نے اپنے جدامجد جناب سید نا امام حسن کا اخلاق و کردار ہر مرحلے اور زندگی کے ہر کام پر پیش نظر رکھا یعنی امام حسن نے دیکھا کہ ان کے رفقا وقت پر ساتھ نہیں دیں گے اور خلافت سے علیحدگی پر خون کی ندیاںبہنے سے رک سکتی ہیں چنانچہ آپ علیحدہ ہو گئے اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کو باہمی کشت و خون اور جنگ و جدل سے بچا لیا۔


جناب امام حسین بیوی بچوں اور جاں نثاروں کو ساتھ لے کر گھرسے چلے تھے تو آپ نے کسی سے لڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا کوفے والوں کے خط پر خط آ رہے تھے یہ ان کی دعوت پر کوفہ کو روانہ ہوئے ۔ کوفہ پہنچ کر آپ کو جو حالات پیش آئے ۔ لوگوں نے سرد مہری سے کام لیا اس وقت بھی آپ نے کسی سے جنگ و جدل کرنا پسند نہیں کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ واپس جانے کی خواہش ظاہر فرمائی یا کہا کہ مجھے یزید سے مل کر اپنا معاملہ طے کر لینے کی مہلت دی جائے۔ اور اگر یہ گوارا نہ ہو تو کسی مہم پر بھیج دیا جائے اللہ کی راو میں جہاد کرنے کی اجازت ہو یہ باتیں آپ نے کیوں کہیں؟صرف یہ کہ محمدرسول اللہ کی امت میں آپ کے نواسے کے لیے باہمی تلوار نہ چلے۔

جناب عبدالقادر جیلانی نے اپنے دادا جناب حسن اور نانا جناب حسین کے اخلاق مطہرہ کی پوری پوری پیروی کی ۔ آپ نے اپنے واعظ میں اسلام کے صرف اصولوں کی تبلیغ کی۔ اور حکومت وسیاست کے معاملات میں قطعاًاپنے آپ کو نہیں الجھایا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ نے لاکھوں انسانوں کے دلوں پر مکمل حکمرانی کی اور ایسی حکمرانی کہ تخت وتاج کے مالکوں کو رشک آتا تھا آپ کے پر اخلاص ارشادات نے جن کی اثر انگیزی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے سے بچا لیا یہی وہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کے سبب سے اسلامی دنیا آپ کو محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کے لقب سے یاد کرتی ہے اور یہی وہ سب سے بڑا فریضہ ہے جس کے ادا کرنے پر آپ کا مرتبہ بلند ہوا کہ تمام اولیائے کرا م آپ کے قدموں میں سر دیتے ہیں۔ اور آپ کے طریقے میں داخل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


ہندوستان میں آپ کا سلسلہ قادریہ سلطان سکندر خاں لودھی کے عہد حکومت میں جناب سید محمد غوث گوالیاری سے پھیلا۔ جناب غوث نو واسطوں سے اپنے جدّ امجد جناب سید عبدالقادرجیلانی سے جا ملتے ہیں۔ جناب غوث علاقہ اوچھ ضلع ملتان کے قریب ٨٢٤١ءمیں مقیم ہوئے۔ آپ کے زمانے میں ہندوستان کی مذہبی فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کے معتقدات کو باہم ملا کر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جا رہا تھا۔ جس کی تعلیمات میں دونوں گروہوں کے اعتقادات و مذہب کا رنگ موجود تھا۔ بھگت کبیر جو ٠٤٤١ءمیں پیدا ہوئے۔ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی تحریک اتحاد بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔


تحریک تصوف کی تاریخ میں بھگتی تحریک کو اس لیے اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستانی خیالات و معتقدات مشاغل اور یوگ کے طریقے یعنی حبس دم وغیرہ صوفیوں میں راہ پا گئے۔ قادری سلسلے نے تصوف اسلامی سے ان تمام باتوں کو جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں کلی طور پر نکال باہر کیا۔
تصانیف:دین اسلام کی حفاظت و مدافعت کے لیے جناب جیلانی نے جو کتابیں تصنیف کیں ان کی حیثیت بجا طور پر حصار دین و فصیل ملت کی ہے۔ آپ کی سب سے پہلی کتاب غنیتہ الطالبین ہے۔ اس میں احکام شرع بیان کئے گئے ہیں اوران کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری کتاب فتوح الغیب ہے جس میں آپ نے مضامین تصوف نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیے ہیں ۔ تیسری کتاب فتح ربانی ہے جس میں آپ کے مواعظ حسنہ و خطبات عالیہ ملتے ہیں۔ انہیں آپ کے نواسے جناب سید عفیف الدین مبارک نے مرتب کیا ہے۔

مکتوبات سبحانی: اس میں آپ کے وہ خطوط جمع کئے گئے ہیں جو آپ نے وقتاًفوقتاً پندو نصالح کی غرض سے مختلف لوگوں کو لکھے تھے۔
قصائد:اس میں آپ کے چودہ قصیدے ہیں اس کے علاوہ آپ کا ایک فارسی دیوان ہے منجملہ ان کے آ پ کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔


ازواج و اولاد:آپ نے مختلف اوقات میں چار شادیاں کیں جن سے کل بیس لڑکے اور انتیس لڑکیاں پیدا ہوئیں آپ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصو صیت کے ساتھ توجہ فرمائی جس سے آپ کی اولاد نے علم و فضل کی دنیا میں بڑا نام پایا ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہےں ۔
١۔شیخ سیف الدین عبدالوہاب ٢۔ شیخ عبد الر زاق تاج الدین
٣۔شیخ شر ف الدین عیسیٰ ٤۔شیخ ابواسحاق ابراہیم
٥۔شیخ ابو بکر عبد العزیز ٦۔شیخ یحیٰ
٧۔شیخ عبد الجبار ٨۔شیخ محمد موسیٰ
ٍٍ ٩۔شیخ محمد
خدام و خلفائ:سلسلہ قادریہ کے خدام خلفاءکی تعداد یوں تو ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔ مگر ان مین سے جن کو اسلام کے پھیلانے میں شہرت دوام حاصل ہوئی ان میں سے چند ایک مشاہیر کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔ شیخ ابو البقا ابو الحسن ،مفتی عراق قاضی
ابو طالب عبد الر حمٰن ،شیخ امام موفق الدین، قاضی ابو العباس احمد ، شیخ ابو محمد عبداللہ بن خشاب، شیخ قاضی ابو العلی، شیخ ابو السعود احمد بن ابی بکر حریمی عطار، علامہ ابو بکر عبد اللہ بن نصر، شیخ شہاب الدین سہروردی ان بزرگوںکے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ ہیں جن کو آپ کے سلسلے سے فیض حاصل ہوا آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے مریدین و خلفاءکو ممالک اسلامیہ میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور دوسرے شہروں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کرتے۔ اور چلتے وقت انہیں حسب ذیل ہدایات فرماتے۔
١۔ حاکموں اور امیروں کی ملازمت نہ کرنا۔
٢۔ کسی امیر سے وظیفہ نہ لینا۔
٣۔ کتاب اللہ اور سنت رسول کی مکمل پیروی کرنا۔
٤۔ شریعت کی حدود سے کبھی آگے نہ بڑھنا۔
٥۔ زندگی نہایت سادگی سے بسر کرنے کو اپنا شعار بنانا۔
وفات: تبلیغ اسلام اور مدافعت دین کے لیے آپ نے ١٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا جو ١٦٥ہجری یعنی آپ کے انتقال تک چالیس برس جاری رہا ۔ اس مدت میں سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا ہزاروں مسلمانوں کے ایمان تجدید اور عقائد کی اصلاح ہوئی بہت سے شاگرد پیدا کئے جو مشاہیر کی فہرست میں شمار ہوتے ہیںکئی جماعتیں دیگر ممالک میں اسلام کو پھیلانے کے لیے تیار کیں ۔ موصل حلب ، دمشق، تبریز ، ہمدان، طوس، بسطام، الحطیف اور کوفہ وغیرہ میں قادری سلسلے کے مدرسے قائم ہوئے۔ غرض احیائے اسلام و تبلیغ دین میں کوشش کرتے جب آپ اکیانوے برس کے ہوئے اور آپ کی تمام کوششیں با آور ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں اس دنیائے فانی سے آپ کو واپس بلا لیا۔ آپ ١٦٥ءمیں چند روز صاحب فراش رہ کر راہی دارالبقا ہ ہوئے آپ نے بغداد میں وفات پائی وہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔
اقوال:١۔ مالدار بننے کی آرزو نہ کرو۔ ابوالہوس مت بنو مالدار اور فقیر اور بے نوا کے درمیان امتیاز مت رکھو۔
٢۔عمل کے بغیر علم مطلق فائدہ نہیں پہنچاتا۔ عامل بنوجان بوجھ کر جاہل نہ بنو۔ عالم باعمل نائب خدا ہے۔
٣۔اپنے جائز کسب سے کمائو۔ دین کے ذریعے سے ہر گز نہ کمائو۔ جائز کمائو اور کھائو۔ اور اس سے دوسروں کی غمخواری بھی کرو۔
٤۔ اللہ سے بندوں کا شکوہ نہ کر۔ جب تک زندگی کا دروازہ کھلا ہے اسے غنیمت جانو۔
٥۔ایمان والوں کی آزمائش ہوتی ہے۔
٦۔خدمت کرو مخدوم بن جائو گے۔
٧۔افسوس اس شخص پر جس نے قرآن تو حفظ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔
٨۔باطن کا جہاد ظاہر کے جہاد سے زیادہ سخت ہے۔
٩۔دنیا تمہارے ہاتھ میں تور ہے مگر دل پر اس کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ دل کو اللہ کی یاد سے آباد کرو۔ اللہ ہی کی محبت کا تمہارے دل پر قبضہ ہو۔