Tuesday, October 20, 2009

شیخ ابو الخبیب سہروردی بہاو?الدین زکریا ملتانی 923016778069

شیخ ابو الخبیب سہروردی
1
شیخ ابو الخبیب سہروردی نام
490ہجر&تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کے نام سے تمام عالم اسلام میں پھیلا اور خوب پھیلا۔

آپ کاشجرہ نسب بارہ واسطوں سے حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے

490ہجری عراق کے ایک چھوٹے سے قصبے ونجان کے قریب سہرورد نام ایک گاو?ں میں پیدا ہوئے۔ شجرہ نسب بارہ واسطوں سے حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ آغاز جوانی میں سہرورد سے تحصیل علم کے لیے بغداد چلے آئے جہاں امام اسعد المتوفی 527 مدرس اعلیٰ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فقہ ، اصول فقہ اور علم کلام کی تحصیل کی۔ علامہ ابو الحسن فصیح النحوی المتوفی516ہجری مدرس علم نحو سے علم ادبیہ کی تحصیل کی اور کئی محدثین کرام سے علم حدیث کی تعلیم پائی۔ غرض تھوڑے ہی دنوں میں ایک متحبر عالم بن گئے۔ اپنے ہم عصر علماءمیں نہایت شہرت و ناموری پائی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ کے دل میں علوم باطنی کے حاصل کرنے کی لگن پیدا ہوئی۔ اگرچہ اپنے چچا وجیہ الدین ابو حفص عمرسہروردی کی صحبت میں بچپن ہی سے آپ کی طبیعت پر صوفیانہ رنگ تھا اور آپ فقر و درویشی کی طرف مائل تھے۔ لیکن اب آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ بھی جوان ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ آپ نے درس و تدریس کا مشغلہ ترک کر کے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے پہلے اپنے چچا کی طرف رجوع کیا۔ ان سے فراغت پانے کے بعد امام محمد غزالی کے بھائی احمد غزالی کی طرف رجوع کیا۔ ان سے علم تصوف حاصل کیا اور منازل سلوک طے کیے۔ تذکرہ نویسوںنے بیان کیا ہے کہ آپ اپنے پیر بھائی محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں بھی پہنچے اور ان سے بھی استفادہ کیا۔ منازل سلوک طے کرنے کے بعد آپ نے دین اسلام کی اشاعت و خدمت کے لیے کمر ہمت باندھ لی اور درس و تدریس کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔

545ہجری میں آپ سلجوقی بادشاہ مسعود اور المفتی امر اللہ عباسی خلیفہ کی خواہش پر مدرسہ نظامیہ بغداد کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آپ اس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ مگر 547ہجری میں دو سال ہی کے بعد اس مدرسہ سے علیحدہ ہو گئے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بغداد کے مشہور کاتب شیخ یعقوب جو مدرسہ ہی میں رہا کرتے تھے فوت ہو گئے۔ وہ چونکہ بے وارث تھے۔ اس لیے حکومت کی طرف سے متعلقہ شعبہ کے افراد نے آ کر ان کے سامان پر قبضہ کر لیا اور تالا ڈالنا چاہا۔ طلباءمزاحم ہوئے۔ اس پر مدرسہ میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جناب شیخ اس ہنگامہ سے کچھ ایسے متاثر ہوئے, کہ عہدے ہی سے مستعفیٰ ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنا مدرسہ جو پہلے سے قائم تھا دوبارہ جاری کیا جس میں فقہ و حدیث کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے مثلاًامام فخر الدین ابو علی واسطی ، قاضی ابوالفتوح تکوینی ، علامہ کمال الدین ابن الانباری، علامہ ابن الغبیری، حافظ ابن عساکر، علامہ حافظ قاسم ابن عساکر، حافظ عبدالکریم سمعانی وغیرہ محدثین واکابرین آپ کے شاگردان رشید ہیں غرض یہ کہ آپ کے چشمہ فیض و عرفان سے ایک عالم سیراب ہوا۔
طریقت کے علم میں بھی آپ کے اخلاص کیشان تصوف کی تعداد بے شمار ہے۔ جن میں سے چند مشہور مشائخ و اولیائے کرام یہ ہیں۔شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی ، شیخ نجم الدین کبریٰ، شیخ عبداللہ مطرومی، شیخ جمال الحق ، عبدالصمد زنجانی، خواجہ اسمٰعیل قیصری وغیرہ صوفیائے کرام آپ ہی کے مریدین خاص اور آپ کے خلفائے با اخلاص ہیں۔
آپ کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کے نام سے تمام عالم اسلام میں پھیلا اور خوب پھیلا۔ جناب شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی، مولانا فخر الدین عراقی، حضرت امیر حسینی سادات ، مولانا جلال الدین رومی ، جناب خواجہ فرید الدین عطار، مولانا شمس الدین تبریزی، شیخ الاسلام سید نور الدین مبارک غزنوی، مولانا مغربی، مخدوم جہا نیاں سید السادات ، مخدوم جلال الدین بخاری، خواجہ نجیب الدین فردوسی، مولانا شمس الدین تبریزی اور شیخ الاسلام جناب غوث زکریا بہائو الدین ملتانی وغیرہ اہم بزرگان دین آپ ہی کے سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ اعلام ہیں۔

بہاو?الدین زکریا ملتانی
غوث بہاو?الدین زکریانام
578ھتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ کی طبیعت کی فیاضی اور دل کی سخاو ت نے آپکو ہر دلعزیز بنا دیا
خواجہ گیلانی بھی آپ کے اس جودو سخا سے اتنے متاثر ہوئے کہ دنیا کی دولت کو لات مار کر فقیر ہو گئے

۵۷۸ھمیں ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے باپ دادا چنگیز خان کے زمانے میں کوارزم سے نکل کر ملتان آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ آپ کے جد اعلیٰ کمال الدین علی شاہ مکہ معظمہ سے نکل خوارزم میں آباد ہوئے۔ جہاں شیخ وجیہ الدین پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ میہار بن اسود بن مطلب بن عبد العزیز بن اقصٰی قریشی سے جا ملتا ہے۔ شیخ وجیہ الدین کی شادی مولانا حسام الدین ترمزی ایک ممتاز بزرگ کی بیٹی سے ہوئی ۔ جن کے بطن سے جناب غوث بہاو?الدین زکریا تولد ہوئے۔ آپ کو پانچ برس کی عمر ہی سے تعلیم دین کی طرف راغب کیا گیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ بارہ برس کی عمر کو پہنچنے تک آپ کو اتنی تحصیل علم ہو گئی تھی کہ جتنی کوئی صاحب شعور سات برس کی مدت میں حاصل کر سکتا ہے۔ آپ ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئیں۔ عین عالم جوانی میں آپ کے والد محترم انتقال فرما گئے۔ والد محترم کے بعد چونکہ ان کے سرپر کسی مشفق بزرگ کا سایہ نہ رہا۔ اس لیے وہ حصول تعلیم کے لیے ملتان سے خراسان چلے گئے اور یہاں کے علماءفضلا ءسے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ پھر بخارا چلے گئے۔ وہاں نہ صرف تحصیل علوم ظاہری کی بلکہ اجتہاد کا درجہ پا لیا۔ پھر بخارا سے مکہ معظمہ کا رخ کیا۔ یہاں پانچ برس تک مجاوری کرتے رہے۔ یہاں سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ شیخ کمال الدین محمد یمنی سے علم حدیث حاصل کیا۔

پھربیعت المقدس پہنچے شیوخ سے ملے یہاں سے چل کر پھر بغداد آ ئے اور جناب شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے فیض صحبت اٹھایا۔ ان سے علوم باطنی حاصل کیے اور خرقہ خلافت پایا۔ کہتے ہیں جناب شیخ شہاب الدین کے درویشوں نے یہ دیکھ کر کہ زکریا ملتانی کو صرف سترہ دن جناب شیخ کی خدمت میں رہنے سے خرقہ خلافت مل گیا۔ آپس میں کھسر پھسر کی کہنے لگے کہ ہم اتنی مدت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ہمیں تو خرقہ خلافت عطا نہیں ہوا۔ مگر یہ ہندی درویش چند ہی دنوں کی حاضری سے خرقہ خلافت لے کر چلتا بنا ۔ کہتے ہیں کہ بات کہیں ہوتے ہوتے جناب شیخ تک پہنچ گئی ۔ آپ نے فرمایا اے درویشو تم لوگ تر اور سوکھی لکڑی کی طرح ہواور زکریا ملتانی خشک لکڑی کی مانند ہے ۔ جس تیزی و سرعت کے ساتھ سوکھی لکڑی آگ پکڑتی ہے تر لکڑی نہیں پکڑ سکتی۔ درویشوں نے یہ بات سن کر ندامت محسوس کی اور خاموش ہو رہے۔ جناب زکریا خرقہ خلافت پانے کے بعد اپنے مرشد کے حکم سے ملتان واپس آگئے اور یہاں پہنچ کر آپ نے سلسلہ رشد وہدایت جاری کیا۔ آپ کے ایک پیر بھائی جناب شمش الدین تبریزی جو آپ سے بڑی محبت رکھتے تھے ۔ تبلیغ اسلام میں آپ کے بڑے ممدو معاون بن گئے۔ جناب زکریا نے ملتان میں دین اسلام کی تعلیم کے لیے سب سے پہلے ایک مدرسہ قائم کیا ۔ جس کے اثر سے ملتان میں اسلامی زندگی ظہور میں آئی اور لوگوں کے دلوں میں خدا کی یاد رہنے لگی۔ اس کے بعد آپ کی طبیعت کی فیاضی اور دل کی سخاوت نے خلق خدا کو ولایت کا مفہوم سمجھا نا شروع کیا چنانچہ کہتے ہیں ایک مرتبہ آپ کے ایک مرید جناب خواجہ کمال الدین مسعود شیروانی جوہیرے جواہرات کی تجارت کیا کرتے تھے۔ دیگر سوداگروں کے ساتھ بحری جہاز میں سوار تھے۔ جب جہاز عدن کے لیے روانہ ہوا تو ابھی تھوڑی ہی دور پہنچا ہو گا کہ باد مخالف چلنے لگی اور جہاز کے مسافر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے کسی کو بچنے کی امید نہ رہی۔ ایسے عالم حسرت میں خواجہ کمال الدین نے خدا کی بارگاہ میں فریاد کی اور تما م تاجروں نے اپنے دل میں کہا کہ اے پروردگار اگر ہم اس عذاب اور طوفان سے تیرے فضل و کرم سے صحیح و سالم پار اتر گئے تو ہم تیری راہ میں اپنے مال و اسباب کا تیسرا حصہ خیرات کریں گے۔

کہتے ہیں خواجہ کمال الدین و دیگر تاجروں کی نگاہوں کو یوں محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جانے جناب زکریا ملتانی کو جہاز والوں کی مدد کے لیے بھیج دیا اور قدرت خدا جہاز بخیر و عافیت عدن پہنچ گیا۔ تمام سوداگروں نے اپنے مال و اسباب کا تیسرا حصہ خواجہ کمال الدین کے حوالے کیا۔ خواجہ نے فخر الدین گیلانی کے ہاتھ جناب زکریا ملتانی کے پاس بھیج دیا۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ یہ رقم ستر لاکھ روپے تھی۔ جناب زکریا ملتانی نے اس رقم کو قبول کر کے اسی وقت شہر کے تمام غریبوں یتیموں اور بیواو?وں میں تقسیم کر دیا اور خود اس سے دامن جھاڑ کر علیحدہ ہو گئے۔ کہتے ہیں اس واقعہ سے تمام ملتان میں آپ کی سخاوت و فراخدلی کی دھوم مچ گئی اور آپ نے لوگوں پر عملاً ثابت کر دکھایا کہ جن خوش نصیبوں کو خدا مل جاتا ہے انہیںپھر کسی شے کی حاجت نہیں ۔ جو خدا کے قرب کو پا لیتے ہیں وہ دنیا کی ہر شے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

لکھا ہے خواجہ گیلانی بھی آپ کے اس جودو سخا سے اتنے متاثر ہوئے۔ کہ دنیا کی دولت کو لات مار کر فقیر ہو گئے اور آپ کے دست حق پر بیعت کر لی اور پچیس برس تک آپ کی خدمت میں رہے۔ اس کے بعد آپ مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے۔ مگر ابھی راستے میں ہی تھے کہ جدہ پہنچ کر انتقال کر گئے۔ یہیں ان کا مزار ہے۔ جناب زکریا ملتانی کا یہ معمول تھا کہ خود تو روزے رکھتے اور سادہ غذا کھاتے مگر ایک خلق خدا کو بلا بلا کر باورچی خانے میں لاتے اور طرح طرح کے لذیذ کھانے کھلاتے اورانہیں کھانا کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے۔ ایک مرتبہ ملتان میں سخت قحط پڑا ملتان کے حاکم کوغلہ کی ضرورت پڑی۔ آپ نے کئی من غلہ اس کے پاس پہنچا دیا۔ جب وہ غلے کو بحفاظت کسی جگہ رکھوا رہا تھا تو اس میں سے نقرئی سکےّ کے سات کوزے بھی نکلے۔ ملتان کے حاکم نے آپ کو اس کی اطلاع دی ۔ آپ نے فرمایا ہمیں ان سے کوئی واسطہ نہیںیہ بھی ہم نے تمہی کو بھیجے ہیں۔ ایک روز آپ نے خادم سے فرمایا جاو? فلاں صندوقچہ اٹھا لاو?۔ اس میں پانچ ہزار اشرفیاں پڑی ہیں ۔ خادم گیا۔ ادھر ادھر دیکھا بھالا مگر اتفاق سے نہ ملا۔ خدمت میں واپس آیا اور عرض کیا معلوم نہیں صندوقچہ کہاں رکھا ہے۔ مجھے تو نہیں ملا۔ آپ نے فرمایا۔ الحمد للہ اور خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد خادم پھر آیا اور آ کر صندوقچہ کے مل جانے کی اطلاع دی۔ آپ نے پھر فرمایاالحمدللہ ۔ ایک شخص جو آپ کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ کہنے لگا یا حضرت آپ کے دونوں مرتبہ الحمد للہ کہنے کے کیا معنی ہیں۔ میں سمجھ نہیں سکا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم فقیروں کے نزدیک کسی شے کا ہونا یا نہ ہونادونوں یکساں ہیں۔ اس لیے ہمیں نہ کسی کے آنے کی خوشی اور نہ کسی کے جانے کا غم۔ اس کے بعد آپ نے وہ پانچ ہزار اشرفیاں اسی وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں۔

آپ کسی سے اپنی تعظیم و تکریم کی خواہش نہیں رکھتے تھے ایک مرتبہ آپ کے چند ایک درویش وضو کر رہے تھے کہ آپ بھی ان کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر تما م درویش آپ کی تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر ایک درویش نے جو وضو کررہا تھا۔ اس وقت آپ کی تعظیم و تکریم کی کہ جب وہ وضو سے فراغت پا چکا۔ آپ نے فرمایا تم درویشوں میں سے سب سے افضل و زاہد ہو۔ لیکن آپ دوسروں سے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ پیش آتے ایک موقع پر جلال الدین تبریزی نیشا پور میں آپ سے علیحدہ ہو کر خراسان چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ سلطان التمش کی دعوت پر دہلی تشریف لائے۔ سلطان مع علماءو مشائخ کے شہر سے باہر آپ کے استقبال کو بڑھا اور ان کو دیکھتے ہی گھوڑے سے اتر پڑا ۔ پھر انہیں سب کا امام بنا کر ان کے پیچھے پیچھے شہر کو روانہ ہوا ۔ کہتے ہیں شیخ الاسلام نجم الدین حضری کوسلطان کی یہ ادا پسندنہ آئی اور وہ تبریزی سے حسد کرنے لگا۔ بعد میں بغض و حسد کی آگ یہاں تک بھڑک اٹھی کہ انہیں سلطان کی نگاہوں سے گرانے کے لیے اس نے ان پر زنا کا الزام لگا دیا اور اس جرم کا ثبوت بہم پہنچانے کے لیے ایک فاحشہ عورت گواہی دینے کے لیے معاوضہ لے کر تیار ہو گئی۔

جب سلطان کے سامنے اس واقعے کو پیش کیا گیا تو سلطان سکتے میں آ گیا اس کے وہم و گمان میں بھی کبھی ایسا جرم نہ آ سکتا تھا کہ جس کا کوئی ولی اللہ مرتکب ہو ۔ ہر چند وہ سمجھتا تھا کہ یہ الزام غلط ہے اور گواہی دینے والی عورت جھوٹی ہے اور فاحشہ کار ہے۔ تا ہم قانون کا تقاضا جب پورا نہ ہو وہ انصاف نہیں کر سکتا تھا۔ آخر اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہندوستان کے تمام علماءو مشائخ کو دربار میں تشریف لانے کی زحمت دی۔ بہاو?الدین زکریا سے بھی التماس کیا گیا۔ چنانچہ آپ بھی دہلی تشریف لے گئے۔

دہلی کی جامع مسجد میں اس مقدمہ کے فیصلے کا اہتمام کیا گیاتھا۔ چنانچہ جمعہ کا دن تھا۔ تمام علمائو مشائخ نے شرکت کی ۔ شیخ الاسلام نجم الدین حضری کو آپ کی اور جناب تبریزی کی آپس میں کشیدگی کا علم تھا۔ اس نے اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے جناب زکریا بہاو?الدین کہ حَکَمَہ مقرر کر دیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد سوچی سمجھی بات کے مطابق فا حشہ عورت پیش ہوئے اور جناب تبریزی کو بھی طلب کیا گیا۔ جس وقت جناب تبریزی مسجد کے دروازے تک پہنچے تو تمام علمائے ربانی و مشائخ سبحانی آپ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب حضرت اپنی جوتیاں اتار کر آگے بڑھے تو جناب زکریا نے آپ کی جوتیاں اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ سلطان نے یہ دیکھ کر کہ جس بزرگ کا جناب زکریا ایسے عالی مرتبت ولی اتنا ادب و احترام کریں۔ وہ کیونکر مجرم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر کہ بظاہر تو جناب تبریزی کو مجرم کہا جا رہا ہے۔ اس لیے آپ کو اس احترام سے روک دینا چاہا۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے لیے فخر کی بات ہے کہ میں شیخ جلال الدین تبریزی کی خاک پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناو?ں لیکن شاید شیخ الاسلام نجم الدین حضری کے دل میں یہ خیال ہو کہ میں نے جناب تبریزی کا احترام کر کے ان کے عیب کو چھپانے یا اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ گواہ کو پیش کیا جائے۔

کہتے ہیں جب فاحشہ عورت گواہی کے لیے آپ کے سامنے لائی گئی تو اس پر آپ کی بزرگی و عظمت کا کچھ ایسا رعب طاری ہو گیا۔ کہ وہ آپ کے قدموں میں گر پڑی اور اول سے لے کر تمام واقعہ اگل دیا اور شیخ الاسلام کی تمام سازش طشت اذبام کر دی ۔ جناب تبریزی سے بڑی تعظیم و توقیر کے ساتھ معافی مانگی گئی اور نجم الدین کو شیخ السلام کے عہدے سے بر طرف کر دیا گیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد سلطان نے آپ کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ آپ شیخ السلام کا عہدہ قبول فرما لیں۔ چنانچہ آپ نے یہ عہدہ قبول فرما لیا جو آپ کے خاندان میںطویل عرصے تک قائم رہا۔ بعضوں نے شیخ السلام نجم الدین حضری کی اس ناپاک حرکت کے واقعہ کو جناب بختیار کاکی سے منسوب کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہی صحیح ہو کیونکہ جناب کاکی کا اثر و نفوذ اور مقام و منصب دہلی والوں میں اتنا بلند ہو گیا تھا کہ نجم الدین جلنے لگا یہی سبب ہے کہ جناب خواجہ معین الدین چشتی جب آپ سے ملنے دہلی تشریف لائے اور یہ حال دیکھا تو آپ سے فرمایا۔ بابا بختیار تمہارے یہاں رہنے سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تم دہلی چھوڑ کر میرے ساتھ اجمیر چلے چلو۔ چنانچہ بابا اپنے مرشد کے ساتھ چلنے پر فوراً آمادہ ہو گئے مگر اہل دہلی نے واویلا کر کے آپ کو رکوالیا۔ ممکن ہے یہ واقعہ ان دونوں بزرگوں ہی کے نام سے منسوب ہو کیونکہ تاریخوںسے اس بات کا ثبوت ضرور ملتا ہے۔ کہ جناب تبریزی ، حضرت بختیار کاکی سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے تھے۔ سلطان کی دعوت پر نہیں۔ بلکہ سلطان کو ان کے آنے کی بروقت اطلاع ملی تھی۔ جس پر وہ آپ کے استقبال کو نکلے اور جناب کاکی آپ کے استقبال کو علیحدہ بڑھے۔

تصانیف:۔جناب زکریا بہاو?الدین کی کسی تصنیف و تالیف کا حال تو معلوم نہیں ۔ البتہ آپ نے اپنے مریدوں کو جو خطوط دوصایا تحریر کیے وہ بمنزلہ آپ کے ملفوظات کے ہیں۔ ?الا خبار الاخیار میں مل سکتے ہیں۔ آپ نے 661ھ تا 666ھ میں وفات پائی۔ آپ کا مزار پر انوار ملتان ہی میں مرجع خلائق ہے۔

آپ کی اولاد میںشیخ صدر الدین عارف ایک ولی کامل کی حیثیت میں سب سے زیادہ مشہور ہیں والد محترم کی تمام خوبیاں، سخاوت ، و فیاضی آپ کی طبیعت اور مزاج میںبدرجہ اتم موجود تھیں ۔ آپ نے اپنے والد گرامی قدر کے انتقال کے بعد تمام دولت ایک ہی دن میں فقیروں اور مسکینوں، محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی۔ کسی نے اس پر آپ سے پوچھا کہ یا حضرت آپ کے والد ماجد تو اپنے خزانے خزانے جمع رکھتے تھے اور اسے تھوڑا تھوڑا خرچ کرنا پسند کرتے تھے مگر آپ نے تو اپنے لیے ایک دام بھی نہ رکھا۔ سب کچھ ایک ہی دن میں لٹا دیا فرمایا حضرت بابا دنیا پر غالب تھے اس لیے دولت ان کے پاس جمع رہتی اور اس میں سے تھوڑا تھوڑا خرچ کرتے تھے۔ مگر مجھ میں یہ خوبی پیدا نہیں ہوئی۔مجھے ڈر ہے کہ میں دنیا کے فریب میں نہ آ جاو?ں ۔ اس لیے میں نے تمام دولت اپنے سے علیحدہ
کر دی۔ہمارے ہاں سہر وردی سلسلہ جناب زکریا ملتانی سے ہی پھیلا ہے۔

No comments:

Post a Comment