Tuesday, October 20, 2009

عبد القادر جیلانی حضرت ابو بکر صدیق حضرت خدیجتہ الکبری حضرت امام جعفر صادق


حضرت ابو بکر صدیق
1
عبداللہ ابن ابی قحافہنام
573تاریخ پیداءش
637تاریخ وفات

ایام جاہلیت میں حضرت ابو بکر کا نام عبداللہ ابن ابی قحافہ تھا ?اسلام لانے کے بعد حضرت محمد نے عبداللہ تجویز فرمایا ۔ صدیق و عتیق دونوں لقب ہیں ۔

جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ نسبتاًقریشی تیمی ہیں چھٹی پشت میں مرہ بن کعب پر پہنچ کر آپ کا نسب رسول اکرم کے نسب سے مل جاتا ہے ۔ حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد پیدا ہوئے یعنی آغاز سن ہجری سے پچاس برس تھی ۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے مسلمان ہوئے ۔10ھ میں اپنی وفات سے قبل پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد علالت کے زمانہ میں اےک روز مسجد میں تشریف لائے اور کچھ گفتگو کے بعد کہا کہ جس قدر مکانو ں کے دروازے صحن مسجد میں ہیں وہ بند کر دئیے جائیں ? مگر ابو بکر کے گھر کا دروازہ بد دستور رہے اور پھر فرمایا :?میں کسی کو نہیں جانتا جو میرے دروازے رفاقت میں با اعتبار احسانات کے ابو بکر سے افضل ہو ? پس اگر میں کسی کو قلبی دوست بنانے والا ہوتا تو ابو بکر کو بناتا ?رسول اللہ نے اپنی علالت کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر کے ساتھ نماز ادا کی ۔ آپ نے 12 ربیع الاول کو 11 ھ میں وفات پائی

اس وقت حضرت ابو بکر سخ میں تھے اور آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی روانہ ہوگئے ان کی عدم موجودگی میں کسی کو آپ کا چہرہ مبارک کھولنے کین جرات نہ ہوئی ۔ابو بکر نے آکر آپ کا چہرہ کھولا ۔ پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ پاک جیئے اور پاک فوت ہوئے ۔ اس کے بعد خلیفہ منتخبکرنے کا سوال پیدا ہوا تو حضرت ابو بکر نے لوگوں سے کہا کے تم عمر اور ابو عبیدہ میں سے جسے چاہو امیر بنا لو میں اس ہر خوش ہو ں ۔اس پر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر کہا کے تم میں سے کون شخص اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اس شخص کو موخر کرے جسے رسولاللہ نے مقدم کیا ۔ یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لیبعض انصار نے کہا کہ ہم حضرت علی کی بیعت کریں گے ۔ ابن الجبیر سے مروی ہے کہ ابو سفیان نے علی سے کہا کہ یہ کیا ہو ا کہ حکومت قریش میں سب سے کم تعداد قبیلے میں چلی گئی بخد ا اگر تم چاہو تو میں اےک زبردست فوج بھیج کر حضرت ابو بکر سے حکومت چھین لوں ۔ اس پر حضرت علی نے کہا کہ اے ابو سفیان تم ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے تمہاری دشمنی سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ ہم نے ابو بکر کو حکومت کا اہل سمجھ کر ان کی بیعت کی ۔ سقیفہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت عام ہوئی ۔ اس کے بعد آپ نے تقریر میں کہا : ?لوگو !تمہارا حاکم بنایا گیا ہے حالانکہ میں تمہارا بہترین فرد نہیں ہو ں ۔ اگر میں نیکی کروں تو تم میری اعانت کرنا او راگر میں برائی کروں رو مجھے سیدھا کر دینا جب تک مین رسول اور اللہ لہ پیروی کروں تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں ?

حضرت ابو بکر خلیفہ بننے سے قبل تجارت کر تے تھے اور اس آپ کا مکان سخ میں تھا ? مگر پھر مدینہ آگئے بیعت خلافت کے بعد چھ ماہ تک سخ میں ہی مقیم رہے اور ہر صبح کو مدینہ پیدل آتے رہہے اور کبھی کبھار گھوڑے پر آجاتے ۔ ان کے جسم پر اےک تہمد اور پرانی چادر ہوتی ۔ مدینہ میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس چلے جاتے ۔ ان کے پاس بکریوں کا ریوڑبھی ہوتا اکثر خود اسے چرانے چلے جاتے ۔ آپ قبیلے والوں کی بکریوں کا دودھ بھی دوہ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب آپ خلیفہ ہوئے تو اےک لڑکی نے کہا ،?اب ہماری گھر کی بکریاں نہیں دو ہی جائیں گی ?اس کی یہ با ت سن کر آپ نے فرمایا ?ہاں ! بخدا مین تمہاری بکریاں ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ اس منصب سے میری سابق عادات میں کوئی تغیر واقع نہ ہوگا ? چنانچہ خلیفہ ہو کر بھی آپ قبیلے کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے ? سخ کے قیام کے زمانے میں چھ ماہ تک یہی آپ کا طرز عمل رہا ۔ پھر مدینہ آکر تجارت ترک کر دی اور بیعت المال میں اپنی اور اپنے متعلقین کی ضرورت کے لئے روزانہ خرچ لینے لگے ۔ لوگو ں نے آپ کے ذاتی مصارف کے لئے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی تھی ۔

حضرت ابو بکر صدیق کا دور خلافت بہت ہہی ہنگامہ خیز تھا آپ ہی کے زمانے مین فتنہ ار تداد نے سر اٹھا یا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس کے ساتھ ہی منکرین زکوٰة نے بھی ملک بھر میں انتشار پھیلایا ۔ ریاست اسلامیہ کی گو نا گو ں ذمہ داریوں اور امت کی قیادت کا بار بھی آپ کے کاندھوں پہ آن پڑ ا تھا ۔ اس طوفان دور میں بھی آپ نے کسی قیمت پر رسولاللہ کے حکامات سے ذرا بھی گردانی نہ کی ۔ بیعت خلافت کے بعد آپ کو جب سے پہلا مسئلہ درپیش ہوا وہ جیش اسامہ کی روانگی کا تھا ۔ رسول اللہ نے اپنی وفات سے قبل اہل مدینہ اور حوائی مدینہ سے اےک مہم مقرر کی تھی جس میں حضرت عمر بھی شامل تھے اسامہ بن زید کو آپ نے مہم کا سر براہ مقر ر کیا ۔ ابھی یہ مہم پوری طرح خندق کو پار نہیں کر چکی تھی کہ آپکی وفات ہو گئی ۔ اسامہ سب کے ساتھ ٹھہر گئے اور حضرت عمر کو بھیجا کہ خلیفہ سے واپسی کی اجازت لے کر آئیں کہ کہیں پیچھے سے مشرک مسلمانوں پر حملہ نہ کر دیں ۔ حضرت عمر نے آکر مدعا بیان کیا تو حضرت ابوبکر نے خفا ہو کر فرمایا :?جس شخص کو رسول اللہ نے روانہ کیا ہے

تم مجھ سے کہتے ہو کہ اسے علیحدہ واپس بلالوں ? پھر آپ خود مدینہ سے اس مہم کے پڑائو میں آئے اور دس باتوں کی نصیحت کی : ? یاد رکھو خیانت نہ کرنا ، نفاق نہ برتنا ،بد عہدی نہ کرنا ، جسم کے اعضانہ کاٹنا ، کسی بچے ۔ بوڑھے یا عورت کو قتل نہ کرنا ، کسی کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ جلانا ، کسی ثمر دار درخت کا نہ کاٹنا ، بیکار کسی بکری ، گائے اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا ، تارک الدنیا لوگوں سے تعرض نہ کرنا ، اگر کچھ لوگ تمہارے لئے کھانا لائیں تو اس میں سے کچھ کھانا اللہ کا نام لے کر کھانا ? پھر حضرت عمر کو اپنے پاس رکھ لیا اور فوج کو ہدایت کی کہ رسولاللہ کی طے کردہ حکمت عملی پر عمل کرنا ۔ اسامہ نے ایسا ہی کیا اور کامیابی پائی ۔ اس مہم کے وقت حالت یہ ہو چکی تھی کہ تمام عرب قبائل یا تو سب کے سب مرتد ہو چکے تھے یا ان میں سے کچھ لوگ مرتد تھے ۔ بہر حال کو ئی قبیلہ پورا مسلمان نہیں رہا تھا ۔ اب یہودوانصاری للچائی ہوئی نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔ تمام امراءنے اپنے اپنے مستقر سے اطلاع بھیجی کہ ہر جگہ فتنہ ار تدادبرپا ہو گیا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے انہیں ذرائع سے ان کا مقابلہ شروع کیا جو رسول اللہ استعمال کر چکے تھے ، یعنی مراسلت ۔ پھر مرتدین نے رات کے وقت مدینہ پر حملہ کر دیا لیکن شکست کھائی ۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرنے لگے ۔ تین قبائل اسلام کی حمایت کا اعلان کیا ۔ حضرت اسامہ کی فوج واپس آئی تو حضرت ابو بکر نے گیارہ جمعتیں تیار کر کے مرتدین کے مقابلہ کے لئے انہیں گیارہ نشانوں پر روانہ کیا اور اپنا اےک خط بھی ان کے نام بھیجا جس میں ان سے دین کی طرف واپس لوٹ آنے کا کہا ۔اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے، لیکن فتنوں کا سلسلہ جاری رہا اور سر کوبی کا بھی ۔ عمان ، بحرین ، یمن ، مجد ، حضرموت میں فتنے برپا ہوئے آپ کے دور میں اسود عنسی بن علاثہ ، سجاح ، مسلیمہ کذاب قیس بن یغوث اور اشعث نے نبوت کا دعوی کیا جن سے آپ بہ طریق احسن نمٹے ۔
11 ءمیں حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو قاضی مقرر کیا جس عہدے پر وہ ان کی وفات تک قائم رہے ۔ خالد بن ولید کو عراق اور ایران میں مختلف مہمات پر روانہ کیا ۔13میں شام کی طرف فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور خالد بن سعید کو پہلا امیر بنایا لیکن انہیں معزول کر کے پزید بن سفیان کو امیر بنا کر روانہ کیا ۔ خالد بن سعید پر حضرت عمر اور حضرت علی کو شبہ تھا ۔ لیکن پھر بھی جب ابو بکر نے مرتدین کی سر کوبی کے لئے افسران فوج منتخب کئے تو ان میں سے خالد بن سعید بھی شامل تھے اور انہیں تیمامیں امدادی دستے پر متعین کردیا ۔ میدان جنگ میں خالد بن سعید نے حضرت ابو بکر کی ہدایات پر عمل نپ کیا اور شکست کھائی ،لیکن آپ نے انہیں معاف کر دیا ۔آپ کی حکومت کی بنیاد قرآن و حدیث تھی اگر کسی مسئلہ کا حل قرآن و حدیث میں نہ ملتا تو اہل الرائے صحابہ کرام کے مشورہ سے فیصلہ کرتے ۔ بیت ا لمال کی آمدنی تقسیم کرتے وقت سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتے ۔ گورنر مقرر کرنے میں آپ کا اصول تھا کہ جو گورنر رسول اللہ کے مقرر کردہ اصولو ں پر قائم رہے ، انہیں ہی تعینات کیا ۔معرکہ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمر نے آپ کو مشورہ دیا کہ قرآن پاک کو ضابطہ تحریر میں لایا جائے ۔ لیکن آپ اس وجہ سے متامل تھے کہ جو کام رسول اللہ نے نہ کیا وہ کیسے کریں ۔ مگر پھر غوروحوض کے بعد یہ مشورہ مان لیا ۔ چنانچہ آپ نے قرن مجید کو لکھوا کر اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں ۔حضرت ابو بکر سے 142 احادیث مروی ہیں ۔ فقہ کے متعلق آپ نے اجتہاد کا قاعدہ کیا جو سارے مجہتدین کا دستور العمل بن گیا ۔ آپ خوابو ں کی تعبیر میں بھی بڑے ماہر تھے سب سے اول تصیفہ و تز کیہ باطن کے واسطے کلمہ طیبہ کا طریقہ ذکر حضرت ابو بکر نے تلقین کیا ۔ شاہ ولی اللہ نے تصوف صدیقی کے ذیل میں حضرت صدیق اکبر کے ان نام اوصاف کی تفصیل دی ہے جو اساس تصوف ہیں ۔ مثلاًتوکل ، احتیاط ، تواضع ، خداکی مخلوق پر شفقت ، رضا ، خوف الہیٰ ۔ حضرت ابو بکر نے اےک روز درخت پر چڑیا دیکھی تو حسرت سے فرمایا : ?اے پرندے خوش حال ہے تو پھل کھاتا ہے ، درختت کے سا یہ میں زندگی بسر کرتا ہے ، حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں ۔ کا ش ابو بکر تجھ جیسا ہوتا ? سلسلہ نقشبند یہ حضرت امام جعفر صادق کی وساطت سے حضرت ابو بکر تک پہنچتا ہے ۔

بے شمار خطیبوں نے کروڑوں مرتبہ ابو بکر صدیق کے?افضل ا لبشر بعد ا لانبیا با لتحقیق? ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ فضئل صدیقی کی بنیاد تین شہادتوں پر ہے (1 )آیات کلام مجید (2 )احادیث نبوی اور (3 ) اقوال صحابہ کرام و اہل بیت ۔ ? نیز آنحضرت نے آپ کے جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : ?قیامت کے روز سب سے اول قبر کشادہ ہوگی پھر ابو بکر اور پھر عمر کی ۔ میری امت میں سب سے پہلے ابو بکر جنت میں داخل ہوں گے ? اس کے علاوہ اسلام میں سب سے پہلے مسجد آپ نے بنائی ۔
روایات کے مطابق آ پ کا بدن چھریرا اور رنگ نہایت ہی گورا تھا رخسار بیٹھے ہوئے تھے ۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور تمام صحابہ کرام سے زیادہ فصیح ا لبیان تھے آ پ کا عر صہ خلافت دو سا ل چار ماہ چار دن کم تھا ۔

حضرت ابو بکر کی وفات کے متعلق اےک بیان طبری نے یہ لکھا ہے کہ آپ کو یہودیوں نے دھوکے سے چاول یا دلیے میں زہر ملا کر دیدیا تھا جس کا اثر اےک سال بعد ظاہر ہو اتھا ۔ چنانچہ اےک سال بعد جب آپ شدید بیما ر ہو ئے تو کسی نے طبیب کو بلانے کا مشورہ دیا مگر آپ نت فرمایا :? وہ مجھے دیکھ چکا ہے اس نے کہا ہے کہ میں جو چاہتا ہو ں کرتا ہوں ? اےک اور زیاد ہ مستند مانی جانے والی روایت کے مطابق آپ نے سردی میں غسل کیا اور بخار میں مبتلا ہو گئے ۔ اس دوران حضرت عثمان آپ کی تیمارداری کرتے رہے ۔ آپ اس مکا ن میں اقامت پذیر تھے جو آنحضرت نے آپ کو دیا تھا ۔ مرض ا لموت میں آپ نے یہ اشعار پڑھے : (ترجمہ ) ?ہر دو لتمند کا مال میراث میں بٹ جائے گا اور ہر سامان والے سے اس کا سامان چھوٹ جائے گا ۔ ہر غائب ہونے والا واپس آجاتا ہے مگر مر کر غائب ہونے والے کبھی واپس نہیں آتے ?

محمد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ وفات سے قبل حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو تخلیے میں بلایا اور ان سے کہا ? لکھو بسم ا للہ الرحمٰن ا لر حیم ۔ یہ عہد نامہ ابو بکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کے نام لکھا ہے ۔
امابعد!?اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہوگئی اس لئے حضرت عثمان نے لکھ دیا ،?امابعد میں تم پر عمر بن الخطاب کو تم پر خلیفہ مقرر کرتا ہو ں ? پھر آپ ہوش میں آگئے اور حضرت عثمان سے کہا کہ سنائو تم نے کیا لکھا ہے ؟ حضرت عثمان نے پڑھ کر سنایا تو آپ نے تکبیر پڑھی اور فرمایا : ? میں سمجھتا ہوں کہ شاید تم کو اندیشہ ہو ا ہو کہ اگر اس غشی میں میری روح پرواز کر گئی تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا ? حضرت عثمان نے کہا ، ہاں میں نے یہی خیال کیا تھا ۔ حضرت ابو بکر بولے : ? خدا تم کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے ? اور مضمون کو بر قرار رکھا ۔ جب طحہ بن عبیدہ نے حضرت عمر کی سختی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی نامزدگی پر اعتراض کرنا چاہا تو آپ نے کہا :? یاد رکھو جب میں خدا کے سامنے جائوں گا اور وہ مجھ سے باز پرس کرے گا تو میں نے تیری مخلوق پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ بنایا ?
حضرت ابو بکر نے حضرت عبدا لرحمٰن سے تین چیزیں کرنے کی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا : کاش میں اشعثکی گردن مار دیتا ۔کاش میں نے خالد کو مرتدین کے مقابلے کے لئے روانہ نہ کیا ہوتا اور کاش میں نے خالد بن الولید کو جب شام کی طرف بھیجا تھا تو اس وقت عمر بن الخطاب کو عراق کی طرف بھیج دیتا ۔ ? آپ نے رسول اکر م سے تین باتیں پوچھنے کی آرزوبھی کی : ?کاش میں پو چھ لیتا کہ امارت کس کو ملنی چاہئے تاکہ پھر کسی کو نزاع کا موقع نہ ملتا ? کاش میں آپ سے پوچھ لیتا کہ انصار کے لئے اس حکومت میں کچھ حصہ ہے اور کاش میں آپ سے آپ کی میراث کے متعلق دریافت کر لیتا کیونکہ میرے دل میں اس کے متعلق کچھ نے اطمینانی ہے ۔?

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے مجھ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا ۔ میں نے کہا تین کپڑوں میں ۔ آپ نے کہا کہ تم لوگ میرے یہ دونوں کپڑے دھولو (وہ دونوں کپڑے پھٹے ہوئے تھے ) اور اےک کپڑا کیرے کئے خرید لو ۔ میں نے کہا? کہ اباّجان ہم لوگ تو خوشحا ل ہیں ۔ آپ نے فرمایا اے بیٹی مردے کی بہ نسبت زندہ آدمی نئے کپڑے کا زیادہ مستحق ہے اور یہ دونوں کپڑے پرانے اور بو سید ہ ہونے کےلئے مناسب ہیں ۔?
آپ کی زبان پر آخری الفاظ یہ بہت ھے :? بار الہا!ب مجھ کو بحالت اسلام موت دے اور مجھ کو صالحین کے پاس پہنچادے ? جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا کہ ?بیت المال کا جو کچھ سامان ہمارے پاس ہے سب واپس کر دوکیو نکہ میں اس میں سے کچھ اپنے ذمہ نہیں رکھنا چاہتا ? چنانچہ زمین ، اےک اونٹنی ،اےک قلعی گر غلام اور پانچ ہزار درہم کا کچھ غلبہ یہ سب چیزیں حضرت عمر کودیدی گئیں۔ حضرت عمر نے فرمایا :? ابو بکر نے اپنے بعد والوں کو کس قدر مشکل میں مبتلا کردیا ہے ? آپ نے 63 سال کی عمر میں 637 ءمیں وفات پائی ۔ آپ اسی پلنگ پر اٹھائے گئے جس پر آنحضرت کو اٹھایاگیا تھا ۔ نماز جنازہ حضرت عمر نے مسجد بنوی میں پڑھائی ۔ حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہ کو وصیت کی تھی کہ انہیں رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کا سر رسول اللہ کے شانہ مبارک کے قریب اور لحد کو رسول اللہ کی لحد سے ملحق رکھا گیا


ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری
2
حضرت خدیجتہ الکبرینام
556تاریخ پیداءش
620تاریخ وفات

حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا

حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا ?اور سب سے پہلے اس سچے مذہب کی حقیقت کو سمجھا۔ ارباب سیر اور محدثین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے اول جو رسول اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا یا وہ یہی مقدس خاتون ہیں ۔

ان کے نسب کا سلسلہ اس طرح ہے ۔ خدیجتہ بنت خوایلد ? ابن اسد بن عبدالعری بن قصی قریشی ۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بھی قریشی تھیں۔ان کے والد خویلد قریش میں ایک معزز سردار تھے ۔ اور سب سے زیادہ دولت ان کے پاس تھی ۔ ان کے مرنے کے بعد تمام دولت حضرت خدیجہ کو ملی ۔ قریش میں ان کی بہت زیادہ دولت عزت تھی نہ صرف مال کی وجہ سے بلکہ نیکی ? حسن اخلاق میں بھی یہ ایک ممتاز درجہ رکھتں تھیں ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب عہد جاہلیت میں طاہرہ تھا۔ ان کا نکاح پہلے عتیق بن عابد مخزومی کے ساتھ ہوا تھا۔ ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا ۔ انہیں کے بیٹے محمد مخزومی ہیں ۔ اس کے بعد دوسرا نکاح ابوہالہ سے ہوا۔ جو تمیم میں سے تھے ۔ ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا ان کا نام بھی ہند رکھا گیا۔ وہ حضرت علی کے ہمراہ جنگ جمل میں شریک ہو کر کام آئے ۔

ابو ہالہ کے مرنے بعد حضرت خدیجہ نے پھر نکاح کا ارادہ نہیں کیا ۔ دنیا سے ان کی طبیعت اچاٹ تھی ۔ اکثر خانہ کعبہ میں جاتیں اور وہیں اپنی عبادت کیا کرتیں ۔ طبیعت کا میلان بالکل نیکی کی طرف تھا اس لئے کاہنہ عورتیں ? جو اس زمانہ میں بہت بزرگ خیال کی جاتی تھیں ? ان کے پاس آتیں تھیں ۔ یہ ان کی باتیں نیایت خوش اعتقادی سے سنتیں اور ان کی خاطر و مدارات کرتیں ۔

بہت سے قریش کے سردار اس خواہش میں تھے کہ ان سے شادی کریں ۔ کیونکہ مالداراور دولمند ہونے کے علاوہ حسن میں بھی تمام قبیلہ میں بے نظیر تھیں ۔ علاوہ بریں اعلی درجہ کی منتظم ار نہایت عقیل تھیں ۔ گھر اور باہر کا سب انتظام بہت اچھی طرح رکھتی تھیں ۔ لیکن انہوں نے پسند نی کیا۔ ایک سال بہت ہی سخت قحط تھا اور عرب کے لوگ نہایت پریشان تھے ۔ ابوطالب نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کہا کہ ? تمہارا نام عرب میں امین امانت دار مشہور ہو گیا ہے ۔ تمہاری سچائی اور دیانت داری پر اعتماد رکھتے ہیں ۔ اس وقت شام کے ملک میں قافلہ جانے کو تیار ہے خدیجہ اپنے اونٹوں کے ہمراہ ایک شخص کو اجیر ملازم کر کے بھیجتی ہیں ۔ اگر تم ان سے کہو تو کیا عجیب ہے کہ تمہیں کو اس کام کے لئے وہ پسند کریں ۔ کیو نکہ بہت قحط ہے ہم لوگ تباہ ہورہے ہیں کوئی صورت آمدنی کی کرنی چاہیے ? آپ نے جواب میں فرمایا کہ ? بہت ممکن ہے کہ وہ بلادرخواست یہ کام میرے سپرد کریں ۔ کیونکہ آپ سمجھے تھے کہ میری امانت داری کی شہرت ہے ? اور وہ امین آدمی تلاش کریں گی اس لئے کوئی تعجب نہیں ہے کہ پہلے ان کی نظر مجھی پر پڑے گی ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب حضرت خدیجہ نے اپنے ایک آدمی سے حضرت ابوطالب اوررسول اللہ صلی علیہ وسلم کی گفتگو کا حال سناتو آپ نے کہلا بھیجا کہ میں اپنے تجارتی سامان کے اونٹ آپ ہی کے سپرد کرتی ہوں ۔ اور پہلے لوگوں کو میں جس قدر اجرت دیا کرتی تھی اس کا دوگنا آپ کو دوں گی ۔ یہ سن کر حضرت ابو طالب بہت خوش ہوئے ۔ تمام راستہ میں آپ کا بر تائوہر ایک کے ساتھ خوش معاملگی کا تھا ۔ میسر ہ جان و دل سے آپ کا مطیع تھا ۔ اور جس وقت قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر اس نے تمام حالت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے سفر کی اور نسطورا کا قصہ بیان کیا۔ اور حد سے زیادہ ان کی تعریف کی ۔ اس کے بعد سب مال و منافع پیش کیا۔ حضرت خد یجہ اس غیر معمولی نفع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ اور رسول اللہ کو ان کی مقررہ اجرت سے بھی دگنا دیا۔ پھر حضرت ضدیجہ نے یمن کے بازار جاشہ میں آپ کو بھیجا ۔

وہاں بھی اچھا نفع حاصل ہوا۔ آپ وہاں سے کپڑے خریدلائے جس کی تجارت سے مکہ میں بہت فائدہ ہوا۔ یہی سفر بھی آپ کا بہت کامیاب ہوا۔حضرت خدیجہ آپ کے حسن معاملت اور دیانت دار ی سے بیحد خوش ہوئیں ۔ اس کے علاوہ چونکہ نسطورارا ہب وغیر ہ کا قصہ سن چکی تھیں اس لئے ان یقین ہو گیا تھا کہ آنحضرت کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں اور یہی وجہ جس نے ان کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے نکاح کی ترغیب دلائی ۔ نفیہ جو حضرت خدیجہ کی کونڈیوں میں تھیں ? کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہمیشہ سے بہت قدر تھی ? اور ان کے اخلاق اور راستی پر وہ فدا تھیں ۔ جب آنحضرت دوسری بار یمن کے بازار سے واپس آئے تو خدیجہ نے مجھ کو بطور پیغامبر کے آپ کے پاس بھیجا ۔ میں نے جا کر عرض کیا کہ آپ نکاح کرنا چاہے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے پاس وقت نہ کچھ مال ہے نہ سامان ۔ نکاح کیونکر کروں ۔ میں نے کہا کہ اس کی ذمہ دار میں ہوں اور ایسی جگہ نکاح کرائوں گی جہان مال ? جمال ? شرافت اور اطاعت سب کچھ ہو۔ آپ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ میں نے کہا خدیجہ ۔ فرمایا کہ کیونکر اس کا سر انجام ہو گا ۔ میں نے کہا سب کچھ میں کر لوں گی ۔ یہ کیفیت میں نے آکر خدیجہ سے بیان کی ۔ انہوںنے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو بلوایا ۔ اور کہ مجھے آپ کی طرف صرف اس لئے رغبت ہے کہ آپ کی کوئی بات کبھی میں نے جھوٹی نہیں پائی اور آپ کے خلاق بہت اچھے ہیں۔

آپ اپنے چچا ابو طالب کے پاس گئے ان سے یہ حا ل بیان کیا تو وہ بہت خو ش ہو ئے ۔حضرت خد یجہ نے بھی ا پنے چچا عمر و بن ا سد اور تما م قبیلے جمع کو جمع کیا۔ا بو طا لب نے نکا ح کا خطبہ پڑ ھا ۔ حضرت حمزہ نے بیس او نٹ مہر میں د یئے اور نکا ح ہو گیا۔اس و قت ر سول کی عمر پچیس سا ل کی تھی اور خد یجہ کی چا لیس
سا ل۔

اس نکا ح کے بعد چو نکہ آ پ کو دولت مل گئی اس و جہ سے آ پ کی عز ت اور و قعت بہت بڑ ھ گئی ۔اور د نیو ی ا سبا ب کے لحا ظ سے رسالت کی کا میا بی کی شا ہر ا ہ اسی و قت سے کھل گئی۔اس کے بعد آ پ کو د فا ع ا لبا لی اور ا طمینا ن کے سا تھ ا پنے اس کا م کے لئے کو شش کر نے کا مو قع مل گیا جس کے لئے مشیت ا یز دی نے دنیا میں آ پ کو بھیجا تھا ۔ آ پ ا کثر غا ر حرا میں چلے جا تے اور و ہیں عبا دت کیا کر تے ۔حضرت خد یجہ ہر ایک کا م میں آ پ کی مر ضی کے مطا بق مدد کر نے کے لئے تیا ر ر ہتیں۔ غا ر حرا میں آ پ ز بر دست نشا نی (رو ح ا لا مین )کو دیکھ کر ڈ ر گئے۔کا نپتے ہو ئے گھر مین آ ئے ۔اور کہا کہ ز ملو نی (مجھ کو چا در اڈ ھا ئو)۔پھر جب آ پ کی طبیعت کو کچھ سکو ن ہوا تو حضرت خد یجہ سے تما م کیفیت بیا ن فر مائی۔حضرت خد یجہ نے ہرطر ح پر تسکین د لائی ۔اور کہا کہ تم صد قہ د یتے ہو،قرا بت مند و ں کے سا تھ سلو ک کر تے ہو ،تمہا را شیوہ ا حصا ن ہے تم ا للہ سے ڈ ر تے ہو۔ کیا تم کو ا للہ ضا ئع کر ے گا؟ نہیں ہر گز نہیں ۔وہ پھر آ پ کو اپنے چچا اد بھا ئی ورقہ بن نو فل کے پاس لے گئیں جو کہ گز شتہ آ سما نی کتابوں کے بہت بڑ ے عا لم تھے۔ان سے سا را حا ل بیان کیا۔

ا نہو ں نے کہا یہ علا مت نبو ت کی ہے ۔تمہیں اللہ تعا لی سر فراز کر ے گا اور تمہا ری قوم تم کو یہا ں سے نکا ل دے گی۔ور قہ بن نو فل کا یہ کلا م سن کر اور اورخد یجہ کی با تو ں سے آ پ کو تسکین ہو گئی ۔جب کبھی کسی قم کی گھبرا ہٹ آپ کی طبیعت کو ہو تی تو حضرت خد یجہ ہی تسکین د لا تیں اور ہمت بندھا تیں۔

آ پ فر ما یا کر تے تھے کہ ?میں جب کفا ر سے کو ئی با ت سنتا تھا اور وہ مجھ کو نا گو ار معلو م ہو ےی ےھی تو خد یجہ سے کہتا تھا۔وہ اس طر ح سمجھا تی تھیں کہ اس سے میر ے دل کو تسکین ہو جا تی تھی اور کو ئی رنج مجھ کو نہیں ہو تا تھا?اس حد یث سے معلو م ہو تا ہے کہ وہ کس قد ر ثا بت ا لقلب اور مستقل مز اج تھیں کہ ر سو ل اللہ جیسے او لو ا لعز م اور با حوصلہ ر سو ل کی ہمت بند ھا تاکر تی تھیں۔اس طر ح آ نخصرت کی نہ صر ف ز ند گی کی شر یک تھیں بلکہ رسا لت کی کا میا بی میں بھی ا یک قو ی اور ز بر دست با زو تھیں۔

ر سو ل ان کی و فا ت کے بعد ا کثر ان کی تعر یف کیا کر تے تھے۔حضرت عا ئشہ فرما تی ہیںکہ ا کثر جب آپ گھر میں تشر یف لا تے تو خد یجہ کا ذ کر کر تے اور بیحد ان کی تعر یف فر ما تے ۔ا یک د فعہ فر ما یا کہ خد یجہ سے ا چھی کو ئی بیو ی مجھ کو نہیں ملی ۔وہ ایما ن لا ئی اور سب لو گ کا فر تھے ۔اس نے میر ی تصد یق کی ،اور سب لو گ مجھ کو جھٹلا تے تھے۔اس نے اپنے ما ل سے میر ی مدد کی اور سب لو گو ں نے مجھ کو محروم ر کھا۔ اس سے اللہ نے مجھے ا و لا د یں عطا کیں اور کسی بیو ی سے اولا د نہ ہو ئی۔

حضرت خد یجہ نے 65بر س کی عمر میں 620ءمیں و فا ت پا ئی اور مکہ کے مشہو ر قبر ستا ن حجو ن میں دفن کی گئیں۔اس وقت جنا زہ کی نما ز بھی نہیں پڑ ھی جا تی تھی۔


رسو ل کی تما م او لا دیں ،سو ائے حضرت ا برا ہیم کے انہیں سے تھیں۔سب سے پہلے قا سم پیدا ہو ئے جو چا ر بر س کی عمر میں ا نتقا ل کر گئے۔انہیں کے نا م سے آ پ کی کنیت ا بو قا سم ہو ئی۔پھر ز ینب۔اس کے بعد عبد اللہ ،پھر ر قیہ ،پھر ام کلثوم ،پھر فا طمہ ز ہرا۔عبدا للہ نے بھی جن کا لقب طیب و طا ہر تھا دو برس کی عمر میں ا نتقال کیا۔
بہت ز یا دہ دو لت،عو رتو ں میں سب سے پہلے اسلا م قبو ل کر نے وا لی اور ر سو ل کی بہت پیا ری

حضرت امام جعفر صادق
3
حضرت امام جعفر صادقنام
704تاریخ پیداءش
772تاریخ وفات
وجھ شھرت
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت نعوذ باللہ اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ?جبکہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔آپ امت محمدی کے لئے صرف بادشاہ اور حجت نبوی کے لئے روشن دلیل ہی نہیں بلکہ صدق و تحقیق پر عمل پیرا ?اولیا ءکرام کے باغ کا پھل ?آل علی ?نبیوں کے سردار کے جگر گوشہ اور صحیح معنوں میں بھی وارث بنی بھی ہیں ۔اور آپ کی عظمت و شان کے اعتبار سے ان خطابات کو کسی طرح بھی نا مناسب نہیں کہا جا سکتا ۔آپ کا درجہ صحابہ کرام کے بعد ہی آتا ہے لیکن اہل بیت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف باب طریقت ہی میں آپ سے ارشادات منقول ہیں ?بلکہ بہت سی روایتیں بھی مروی ہیں۔جو لوگ آپ کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں وہ بارہ اماموں کے مسلک پر گامزن ہیں ۔آپ نہ صرف مجموعہ کمالات و پیشوائے طریقت کے مشائخ بلکہ ا رباب ذوق اور عاشقان طریقت اور زاہدان عالی مقام کے مقتدا بھی ہیں ?نیز آپ نے بہت سی تصانیف میں راز ہائے کو بڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے اور حضرت امام باقر ے بھی کثیر مناقب روایت کئے ہیں ۔

آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت نعوذ باللہ اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ?جبکہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کے عقائد ہی میں یہ شے داخل ہے کہ رسول خدا پر ایمان لانے کے بعد ان کی اولاد سے محبت کرنا لازم ہے۔

اہل بیت ہی کی محبت کی وجہ سے حضرت امام شافعی کو رافضی کا خطاب دے کر قید کر دیا گیا ?جس کے متعلو امام صاحب خود اپنے ہی ایک شعرمیں اشارہ فرماتے ہیں :اگر اہل بیت سے محبت کا نام رفض ہے تو پھر پورے عالم کو میرے رافضی پر گواہ رہنا چاہئیے اور اگر بالفرض اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت کرنا ارکان ایمان میں داخل نہ بھی ہو تب بھی ان سے محبت کرنے اور ان کے حالات سے باخبر رہنے میں کیا حرج واقع ہوتاہے ۔ اس لئے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ خلفائے راشدین ودیگر صحابہ کرام کے مراتب کو بھی مراتب افضل خیال کرے ۔روایت ہے کہ کسی نے حضرت امام ابو حنیفہسے دریا فت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں سب سے زیا دہ افضل کون ہے؟فرمایا کہ بیبیوں میں حضرت فاطمہ زہرہ صدیق اکبر و حضرت عمر اور جوانوں میں حضرت عثمان و علی اور ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ ۔
خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق کو میرے روبرو پیش کرو? تاکہ میں ان کو قتل کر دوں ۔وزیر نے عرض کیا کہ دنیا کو خیر باد کہہ کر جو شخص عزلت نشین ہو گیا ہو اس کو قتل کرنا قرین مصلحت نہیں ۔لیکن خلیفہ نے غضب ناک ہو کرکہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے ۔چنانچہ مجبوراجب وزیر امام جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموںکو ہدایت کی کہ جس وقت میں اپنے سر سے تاج اتاروں تو تم فی الفور امام جعفر صادق کو قتل کر دینا ۔لیکن جب آپ تشریف لائے تو آپ کے جلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ بے قرار ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھا یا بلکہ اور خود بھی مودبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور ضروریا ت کے متعلق دریا فت کرنے لگا ۔آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت اور ضرورت یہ ہے کہ آئندہ پھر کبھی مجھے دربار میں طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت اور ریاضت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔چنانچہ منصور نے وعدہ کر کے آپ کو عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کیا حضرت دائود ائی نے حاضر خدمت ہو کر امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں ۔ لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ دائود طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالی نے جو آپ کو فضیلت بخشی ہے اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہی خوف لگا ہو اہے کہ قیامت کے دن میرے جدا علی ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تو نے خود میرا اتباع کیوں نہیںکیا؟کیوں کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے ۔یہ سن کر دائود طائی کو بہت عبرت ہوئی ۔

جب آپ تارک دنیا گئے تو کسی بزرگ نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا کہ مخلوق آپ کے تارک الدنیا ہونے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہو گئی ہے ۔آپ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل دو اشعار پڑھے (ترجمہ) :
َََ کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئی اور لوگ اپنے خیالات میں غرق رہ گئے
گو بظاہر با ہم اظہار محبت وفا کرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھوئوں سے لبریز ہیں
آپ کو بیش بہا لباس میں دیکھ کر کسی نے اعتراض کیا کہ اتنا قیمتی لباس اہل بیت کے لئے مناسب نہیں ۔آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جب اپنے آستین پر پھیر اتو اس کا لباس ٹاٹ سے بھی زیا دہ کھردرا محسوس ہوا ۔اس قت آپ نے فرمایا ?مخلوق کی نگاہوں میں یہ تو عمدہ لباس ہے لیکن حق کے لئے یہی کھردرا ہے ۔
آپ نے امام ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ دانش مند کی کیا تعریف ہے؟امام صاحب نے جوب دیا کہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کر سکے ۔آپ نے کہا کہ یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ جو ان کی خدمت کرتا ہے اس کوایذا نہیں پہنچا تے اور جو تکلیف دیتا ہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں ۔امام ابو حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟جواب دیا کہ جو دو بھلائیوں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے ۔ اور دو برائیوں میں سے مصلحتہََ کم برائی پر عمل کرے ۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری وباطنی فضل وکمال کے باوجود آپ میں تکبر پایا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میں متکبر تو نہیں ہوں ۔ البتہ جب میں نے کبر کو ترک کر دیا تو میرے رب کی کبریائی نے مجھے گھیر لیا ۔اس لئے میں اپنے کبر پر نازاں نہیں ہوں ?بلکہ میں تو اپنے رب کی کبریائی پر فخر کرتا ہوں ۔

جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گنہگار ہے اور جو معصیت پراظہار ندامت کرے وہ فرمانبردار ہے ۔ صبر کرنے والے درویش کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ مالدار کو ہمہ اوقات اپنے مال کا تصور ہے اور درویش کو صرف اللہ کا خیال ۔جیسا کہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ ?توبہ کرنے والے ہی عبادت گزار ہیں ?ذکر الہی کی تعریف یہ ہے کہ جس میں مشغول ہونے کے بعد دنیا کی ہر شے کو بھول جائے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر شے کا نعم البدل ہے اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے یعنی تمام اسباب وسائل ختم کر دیئے جا تے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عطائے الہٰی بلا واسطہ ہے نہ کہ بالواسطہ۔مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہمہ تن مشغول رہے ۔صاحب کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے نفس کی سرکشی سے آمادہ بجنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالی تک رسائی کا سبب ہوتا ہے ۔اوصاف مقبولیت میں سے ایک وصف الہام بھی ہے ۔ جو لوگ دلائل سے الہا م کو بے بنیا د قراردیتے ہیں وہ بد دین ہیں ۔اللہ تعالی اپنے بندے اس سے بھی زیا دہ پوشیدہ ہے جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے حضرت امام جعفر صادق کا قول ہے کہ مجھ پر موز حقیقت اس وقت منکشف ہوئے جب میں خود دیوانہ ہو گیا ۔نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقلمند دشمن سے واسطہ پڑ جائے آپ نے فرمایا کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہیے:اول?جھوٹے سے کیونکہ اس کی صحبت فریب میں مبتلا کر دیتی ہے۔دوم ?بیوقوف کیونکہ جس قدر وہ تمہاری منفعت چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا ۔سوم ?کنجوس سے کیونکہ اس کی صحبت سے بہترین وقت ضائع رائیگاں ہو جاتا ہے ۔ چہارم ?بزدل سے کیونکہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیتاہے ۔پنجم?فاسق سے کیوں کہ ایک نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔اللہ تعالی نے دنیا ہی میں فردوس وجہنم کا نمونہ پیش کر دیا ہے ?کیونکہ آسائش جنت ہے اور تکلیف جہنم ۔جنت کا صرف وہی حق دار ہے جو اپنے تمام امور اللہ تعالی کے سپرد کر دے اوردوزخ اس کا مقدر ہے جو اپنے امور نفس سرکش کے حولے کر دے۔ اگر دشمنوں کی صحبت سے اولیاءکرام کو ضرر پہنچ سکتا تو فرعون سے آسیہ کو پہنچتا اور اگر اولیاءکی صحبت دشمن کے لئے فائدہ مند ہوتی تو سب سے پہلے انبیاءکی ازدواج کو فائدہ پہنچتا ۔لیکن قبض اور بسط کے سوا اور کچھ بھی ِنہیں ہے

عبد القادر جیلانی
عبد القادر جیلانینام
470تاریخ پیداءش
محی ا لدین لقب اسم گرامی عبدالقادر والد کی طرف سے حسنی والدہ کی طرف سے حسینی نجیب الطرفین ہاشمی سیّدتھے۔

ولادت: ٧٠٧٤ہجری قصبہ گیلان شہر فارس میں پیدا ہوئے ۔عربی میں قاعدہ ہے کہ گاف کے حرف کو جیم سے بدل دیتے ہیں اس لیے گیلان کی مناسبت سے آپ کو گیلانی کی بجائے جیلانی کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں آپ کے جدّاعلیٰ کا اسم گرامی جیلان ابو عبد اللہ صو معی تھا۔ اسی رعایت سے آپ جیلانی کہلاتے ہیں ۔ لیکن آپ کے نسب نامہ میں اس نام کے کوئی بزرگ نہیں ملتے۔ اس لیے یہ بیان صحیح نہیں ۔ اصل میں آپ کے نانا کا نام ابو عبداللہ صومعی تھا مگر ان کے نام کے ساتھ بھی جیلان کا لفظ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا ۔ پس آپ کو جدّاعلیٰ کی مناسبت سے جیلانی کہنا درست نہیں۔


مولانا جامی نے اپنی کتاب نفخا ت الانس میں طبقات حنابلہ میں علامہ ابوالفرح عبدالرحمان شہاب نے اور ان کی تائید میں اکثر دیگرتذکرہ نگاروں نے آپ کو والد کی طرف سے حسنی لکھا ہے اور نصب نامہ یوں بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن صالح ،حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ ، زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّد امام حسن بن امیر المو منین علی ابن ابی طالب۔


بعض روایات میں آپ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن ابو صالح حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الثانی بن عبداللہ الثانی بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب۔


اس کے علاوہ بعضوں نے اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر ابو محمد ابن ابو صالح ابن موسٰی بن عبداللہ حیلی بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب،


آپ کے والد محترم جناب ابو صالح نہایت متقی ، عابدوزاہد اور ایک پرہیز گار بزرگ تھے۔ گویا اسم با مسمّیٰ ۔ آپ کے تقوے اور دینداری کا اندازہ کچھ اس واقع سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نہر میں بہتا ہوا ایک سیب آپ کے ہاتھ ا گیا سیب نہایت حوش رنگ تھا طبیعت چاہی چنانچہ کھا لیا ۔ مگر کھاتے ہی معاً خیال آیا کہ معلوم نہیں کہ یہ کس کے باغ کا سیب ہے با غبان کی اجازت کے بغیر کھانا حلال نہیں ہو سکتا چنانچہ اب نہر کے کنارے کنارے سیب کے مالک کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے کہ اس سے جا کر معافی مانگیں۔


جو بندہ با بندہ با لا خر ایک باغ میں پہنچ گئے اور وہاں آپ نے اس بات کا صحیح اندازہ لگا لیا کہ یہ سیب اسی باغ کا ہے اس باغ کے مالک جناب عبد اللہ صومعی تھے ۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کر کے خواستگارمعافی ہوئے۔ ولی را ولی می شناسد کے بمصداق جناب صومعی نے دیکھا کہ ایک طرف عنفوان شباب ہے لیکن دوسری طرف تقوی و طہارت کا یہ عالم کہ طبیعت میں جوانی کی شوخی و شرارت مطلق نہیں۔ دل نے کہا یہ ضرور کسی عالی خاندان کا چشم وچراغ ہے۔ جناب سیّد عبداللہ صومعی نے آپ کا حسب و نسب معلوم کیا بعد اطمینان کر لینے کے آپ کو اپنے پاس رکھا بعضوں نے لکھا ہے کہ آپ ان کی خدمت میں دس برس تک مقیم رہے اور باغبانی کرتے رہے۔


ایک روز جناب عبداللہ صومعی نے آپ سے فرمایا کہ آپ کو معافی اس شرط پر دی جا سکتی ہے کہ آپ میری اندھی ، گونگی، اپاہج اور بہری بیٹی کو اپنی بیوی بنانا قبول کر لیں آپ نے منظور کر لیا چنانچہ شادی ہو گئی۔ مجلہ عروسی میں گئے وہاں اپنے گمان و خیال کے برعکس پایا ۔ انہوں نے دیکھا کہ نہایت حسین و جمیل عورت ہے اور اس کے تمام اعضاءصحیح و سالم ہیں۔ سخت پریشانی ہوئی قریب تھا کہ کسی الجھن میںپڑ جاتے کہ آپ کے خسر نامدار نے اسے رفع کر دیا فرمایا ہاں یہی تمہاری بیوی ہے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ درست ہے میرا اس سے مطلب ان باتوں سے تھا جو احکام الٰہی کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری بیٹی ایسی تربیت یافتہ ہے کہ کبھی شیطان کے بہکاوے بہک نہیں سکتی۔


یہ بی بی جناب فاطمہ ام الخیر تھیں ۔ جن کے آغوش امومت میں جناب سید عبدالقادر جیلانی نے پرورش و تربیت پائی ۔ آپ جناب امام حسین کی اولاد سے تھیں آپ کا شجرہ نسب یوں ہے۔ سیدہ ام الخیر بی بی فاطمہ بنت سید عبید اللہ صومعی بن ابو جمال بن محمد بن محمود بن ابو العطاءعبداللہ بن کمال الدین عیسٰی بن ابو علائو الدین محمد الجواد بن علی الرضا بن موسٰی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن امیرالمومنین علی بن ابی طالب۔


تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ام الخیر بی بی فاطمہ جب ساٹھ برس کی عمر کو پہنچیں تب آپ کے بڑھاپے اور عالم یاس میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں اولاد کا منہ دیکھنا کسی طرح معجزے سے کم نہیں۔ آپ کے عادات و خصا ئل کے بارے میں لکھا ہے کہ عام بچوں سے با لکل مختلف تھے۔ یعنی عالم طفلی میں بھی دودھ کے لیے کبھی روتے تھے نہ چلاتے تھے کسی نے پلا دیا تو پی لیا ورنہ چپ رہے اور گہوارے میں پڑے ہاتھ پیر چلاتے رہے۔


ابھی ہوش نہ سنبھالنے پائے تھے کہ والد محترم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ کے نانا جناب عبد اللہ صومعی حیات تھے۔ اب وہی آپ کے سر پرست بنے نانا کا چونکہ اپنا کوئی فرزند نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے آپ ہی کو فرزند بنا لیا اور تمام تر جائداد آپ کے نام وقف کر دی۔ جب آپ چار پانچ برس کے ہوئے تو بی بی فاطمہ نے آپ کو مکتب میں بٹھا دیا۔ دس بارہ برس کی عمر تک اسی مدرسے میں تعلیم پاتے رہے اسی دوران میں آپ کے نانا کو بھی اللہ تعا لیٰ کی بارگاہ سے بلاوا آ گیا اب لے دے کر صرف آپ کی والدہ محترمہ بی بی فاطمہ ہی تھیں جن کے کندھوں پر تمام گھر کے انتظام کا بار تھا اور ان کی امیدوں کا واحد مرکز آپ تھے۔


بی بی فاطمہ اٹھتر برس کی تھیں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بغداد جانے کی خواہش پیش کی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے عالم میں بی بی فاطمہ کے دل پر کیا گزری ہو گی مگر فرمان نبوی کے پیش نظر کہ تم علم سیکھو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے ?بی بی نے آپ کو با چشم گریاں اجازت دے دی اور فرمایا تمہارے بابا نے اسی ٠٨ دینار ترکہ میں چھوڑے تھے ان میں سے چالیس دینار تم لے جائو اور چالیس دینار تمہارے بھائی کے لیے رکھ لیتی ہوں ۔ آپ بغداد پہنچ کر سلطان نظام الملک کے مدرسہ عالیہ نظامیہ بغداد میں داخل ہوئے علامہ شیخ ابو سعید اس مدرسہ کے مہتمم تھے آپ نے جناب شیخ سے درس قرآن حکیم حاصل کیا پھر قواعد تجوید، علم تفسیر ، فقہ اور اصول حدیث کی تعلیم پائی ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آپ علوم عقلی و نقلی میں ایک مبتحر عالم ہو گئے۔


آپ کے بزرگ استاد جناب شیخ نے تکمیل تعلیم کے بعد آپ سے اسی مدرسہ میںطلباءکو تعلیم دینے پر اصرار کیا الامر فوق الا دب کے پیش نظر آپ نے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور اسی مدرسہ نظامیہ بغداد میں طلباءکو تعلیم دینے لگے۔ درس و تدریس کا جو انداز قدرت نے آپ کو عطا کیا تھا وہ آپ کے زمانے کے کسی مدرس یا معلم کو حاصل نہ تھا۔ حاصل کلام یہ کہ آپ ایک تھوڑی ہی مدت میں عالم و عارف کامل کی حیثیت سے شہرت پا گئے۔


آپ کی ذہانت و فطانت کا عالم یہ تھا کہ مشکل سے مشکل اور ادق سے ادق مسئلہ جو بڑے بڑے علماءسے حل نہ ہوتاتھا ایک ثانیہ کی مہلت میں حل کر کے رکھ دیتے تھے۔ مختصریہ کہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے استاد علامہ شیخ ابو سعید مبارک بن علی محزومی کے مرید ہوئے۔ محزومی شیخ ابو الحسن علی بن محمد القریشی کے مرید تھے ۔ ابوالحسن شیخ ابوالفرح طرطوسی کے مرید تھے۔ طرطوسی ابو الفضل عبدا لواحد تمیمی کے مرید تھے۔ تمیمی شیخ ابو بکر شبلی کے مرید تھے۔ شبلی شیخ جنید بغدادی کے مرید تھے بغدادی اپنے ماموں شیخ سری سقطی کے مرید تھے سقطی شیخ معروف کرخی کے مرید تھے کرخی شیخ دائود و طائی کے مرید تھے طائی شیخ حبیب عجمی کے مرید تھے عجمی خواجہ حسن بصری کے مرید تھے۔ بصری امیر المومنین علی بن ابی طالب کے مرید و شاگرد تھے۔


آپ سے طریقت کا جو سلسلہ آگے چلا وہ آپ ہی کے نام نامی پر سلسلہ قادریہ سے موسوم ہوا۔ آپ کی بزرگی اور علمی فضیلت و شخصی کمال کے اعتراف کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی۔ کہ طریقت کے تمام سلسلوں میں آپ کا فیض جاری ہے ۔ اور بلا استثناءطریقت کے تمام سلسلے کے بزرگوں نے آپ کو اولیائے کبار کی فہرست میں سب سے افضل تسلیم کیا ہے۔


پچیس برس کا سن جوانی کی شوخیوں کا زمانہ ہوتا ہے آپ نے اس عمر میں پہنچ کر بڑ ی بڑی ریاضتیںاور مجاہدے کیے اور نفس کی ہر اس خواہش کا گلا گھونٹ دیا جس سے انسان کے دل میں دنیا سے رغبت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔

جب جناب جیلانی پچاس برس کے ہوئے تو آاپ نے جامع بغداد میں وعظ کہنا شروع کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بلند آواز عطا فرمائی کہ دور و نزدیک ہر جگہ سے یکساں سنائی دیتی تھی۔ اور یہ بھی آپ کے بیان ترجمان قرآن کا اثر تھا کہ لوگ وعظ سنتے سنتے مبہوت ہو جاتے اور مجمع کا یہ عالم ہوتا کہ جامع مسجد میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہتی بڑے بڑے علماءو مشائخ آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور گوش ہوش وا کرتے۔ کہتے ہیں چار سو علماءآپ کے وعظ میں اس لیے شریک ہوتے کہ آپ کے ارشادات قلمبند کریں اور کتنے ہی یہودی اور عیسائی آتے کہ آپ کی زبان ترجمان قرآن سے وعظ سن کر مسلمان ہو جاتے لکھا ہے کہ آپ کے دست حق پرست پر پانچ سو سے زیادہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔


اصلاح احوال کا جو اسلوب آپ نے اختیار کیا وہ آپ کے زمانے میں کسی کو میسر نہیں تھا۔ اخلاق سنوارنے اور بگڑے ہوئے لو گوں کے احوال سد ھارنے میں بڑی سے بڑی حکومت بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی مگر آپ کی ایک ہی نگا ہ التفات بڑے بڑے سرکشوں، ڈاکوئوں ، رہزنوں اور چوروںپر وہ کام کر گئی۔ ان کے دل و دماغ کو ایسا مسلمان کیا۔ فکرو نظر میں ایسی جلا پیدا کی کہ انہوں نے سیدھی راہ کو چھوڑ کر پھر کبھی گمراہی کا راستہ اختیار نہ کیا اس سلسلے میں ایک ادنیٰ سی مثال آپ کے بچپن کے زمانے کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ مرتبہ ولایت پر پہنچے تب اس وقت آپ کی زبان ترجمان قرآن میں کیا اثر تھا اور آپ کس شان کے بزرگ تھے۔


تذکرہ نگاروںنے لکھا ہے کہ آپ چودہ برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ بغداد کو روانہ ہوئے والدہ محترمہ نے آپ کی گدڑ ی میں چالیس اشرفیاں رکھ کر اس مقصد کے لیے سی دیں کہ حفاظت رہے اور ضرورت کے وقت کام آ سکیں بد قسمتی سے راستے میں ڈاکہ پڑا۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی ڈاکوئوں نے اس سے بڑی بے دردی سے چھین لی۔ داکوئوں نے آپ سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے؟ آپ نے کہا چالیس اشرفیاں ڈاکو سمجھے آپنے ہم سے مذاق کیا ہے چنانچہ آپ کو اپنے سردار احمد الفی کے پاس لے گئے اور ماجرا بیان کیا سردار نے بھی آپ سے یہی پوچھا اور آپ نے اسے بھی یہی جواب دیا۔ اس نے کہا اچھا لائو دکھائو تو وہ چالیس اشرفیاں کہاں ہیں۔ آپ نے گدڑی ادھیڑی اور اشرفیاں نکال کے ان کے سامنے رکھ دیں۔


ڈاکو بہت حیران ہوئے۔ سردار نے کہا اے لڑکے تو نے ایسی چھپی ہوئی چیز جو ہزار کوششوں کے باوجود بھی ہمارے ہاتھ نہ آ سکتی تھی کیوں ظاہر کر دی آپ نے جواب دیا میں تعلیم کی غرض سے بغداد جا رہا ہوں یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں رکھی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بڑی شدت سے تاکید کی کہ سچ کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دینا ہمیشہ سچ بولنا ڈا کوئوں کے دل پر آپ کی بات نے کچھ ایسا اثر کیا کہ فوراً ڈکیتی سے توبہ کر کے پارسائی اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ یہ لوگ چوروں اور ڈاکوئوں کی صف سے نکل کر اللہ کے دوستوں میں شمار ہوئے۔ احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اللہ کے رسو ل کی محبت بچپن ہی سے آپکے دل میں جا گزین تھی جب تحویل علم سے فارغ ہو کر آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عارف عظیم المرتبت ولی اللہ ہوئے تو اس وقت بھی آپ کا یہ عالم تھا کہ سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔


چھوٹوں پر شفقت فرماتے اور بڑوں کی تعظیم کرتے۔ کمزوروں ، ضعیفوں ، غریبوں اور حا جتمندوں کی دستگیری فرماتے ان کی ضرورتیں پوری کرتے۔ لیکن کسی دولتمند یا امیر اور رئیس کو کبھی خاطر میں نہ لاتے اور نہ کبھی اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے۔ غریبوں کے گھر پر اکثر خود چل کر جاتے اور ان کی مزاج پرسی کرتے لیکن کسی دولت مند کے دروازے پر کبھی قدم نہ رکھتے۔ بادشاہ وقت سے لیکر تمام اراکین حکومت تک کبھی کسی کی پرواہ نہ کرتے۔


اگر کسی ضرورت مندو محتاج و بے نوا کے بارے میں کسیحاکم سے کچھ کہناہوتا تو اسے سفارش کے طور پر لجاجت کے ساتھ نہ لکھتے نہ کہتے بلکہ تحکمانہ انداز میں فرمان لکھتے اورحکم دیتے کہ اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور اس کی بات سنی جائے۔صاحب طبقات نے لکھا ہے کہ آپ نے ٠٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا تمام اراکین حکومت آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور آپ کی تنقید حکومت پر اتنی سخت ہوتی کہ کسی کی مجال نہیں تھی کو آپ کے بیان پرذرا گرفت کر سکے۔ اکثر دس دس اور بیس بیس ہزار کا مجمع ہوتا تھا ۔ مگر کسی میں بھی اتنا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ آپ کے سامنے لب کشائی کر سکے۔ آپ کے وعظ کا ماحصل یہ تھا ۔ کہ اے لوگو اللہ اور اللہ کے رسول کی پیروی کرو اس کے احکام پر صدق دل سے عمل کرو دین میں کوئی نئی بات نہ پیدا کرو خدا کی نافرمانی مت کرو صبر کرو بے صبر نہ بنو ۔ کشائش کا انتظار کرنا چاہیے۔ نا امید نہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر پر سب ایک ہو جائو۔ اور آپس میں نا اتفاقی پیدا نہ کرو ۔ توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو جائو۔ ان سے آلودہ نہ ہو جائو اور اپنے مولا کے دروازے سے نہ ہٹو۔


ایک مرتبہ ا پ نے فرمایا جب میں فرائض کے بعد اچھے کاموں پر غور کرتا ہوں تو محتاجوں اور مہمانوں کو کھانا کھلانے اور عام و خاص کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے اور دشواریوں میں ہاتھ بٹانے سے بہتر کسی کام کو نہیںپاتا ۔ اگر دنیا کی تمام دولتوں کے خزانے مجھے مل جائیں تو میں سب کے سب فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کر دیتا۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھلا دیتا یہ ہیں وہ درحقیقت آپ کے نیک خیالات و عزائم جن کی وجہ سے آپ کو پیر دستگیر غریبوں کا ہاتھ پکڑنے والا اور غوث اعظم کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ آدم میں سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے والا سب سے بڑا انسان آپ کا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ آپ اپنے شاگردوں اور مہمانوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھاتے۔ غریبوں اور مسکینوں میں بیٹھ کر تو آپ کو بے پناہ مسرت ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ امیروں اور دولتمندوں کے ساتھ بیٹھنے کی آرزو تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی سعادت و مسرت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں اور غریبوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے۔


آپ کا یہ قاعدہ تھا کہ مریدین و معتقدین جو تحفے اور تحائف اور بڑی بڑی رقمیں نذرانے کے طور پر آپ کیخدمت میں پیش کرتے۔ وہ اسی وقت غریبوں میں تقسیم کر دیتے ایک موقع پر آپ خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ میں روپیہ پیسہ مال و دولت مطلق نہیںٹھہرتا ۔ اگر صبح میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک بھی دینار باقی نہ رہے آپ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم سمجھتے۔ آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔ اگر آپ کے پاس کسی وقت رقم نہ ہوتی تو سائل کو اپنے تن کے کپڑے اتار کر دے دیتے مخدوم جہانیا ں گشت کہتے ہیں کہ آپ بعض اوقات سو سو غلام خریدتے اور اسی وقت انہیں آزاد کر دیتے تھے۔


خیر یہ تو شان آپ کے جمال کے پہلو کی تھی۔ اب ذرا شان جلال دیکھیے کہتے ہیں ایک مرتبہ خلیفہ بغداد المقتضی نے ابن مرجم کو جو ظالم کے نام سے مشہور تھا ۔ شہر کا قاضی مقرر کیا۔ اس کے عہدہ قضا پر تقرر سے لوگوں میں سخت بے اطمینانی و تشویش پھیل گئی۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی۔ اس پر آپ نے بر سر منبر خلیفہ بغداد سے مخاطب ہو کر فرمایا?تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا ہے۔ جو سخت ظالم ہے کل جب تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچو گے تو اس وقت اللہ کوکیاجواب دو گے؟ وہ تو اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور شفیق ہے۔ ? کہتے ہیں خلیفہ آپ کے یہ کلمات سن کر لرزنے لگا اور اس نے فوراًہی ابن مرجم کو قضا کے عہدے سے علیحدہ کر دیا۔


ایک مرتبہ آپ مسجد میں بیٹھے وعظ کہہ رہے تھے کہ اسی دوران میں آپ کو چھینک آئی آپ نے الحمدللہ کہا۔ لوگوں نے اس کے جواب میں یرحمک اللہ و یرحیم کہا تو مسجد لوگوں کی مجمع آواز سے گونج اٹھی ۔ خلیفہ بغداد نے جو اس وقت یہاں موجود تھا حیرت سے پوچھا یہ کیا ہوا؟ اسے جواب ملا کہ سید نا عبدالقادرجیلانی کو چھینک آئی ہے لوگ اس کا جواب دے رہے ہیں اس پر خلیفہ بغداد نے کہا اصل میں حکومت تو یہ ہے۔ دلوں پر حکومت دلوں کو موہ لینے سے قائم ہوتی ہے۔ دل کا موہ لینا ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است۔۔۔۔۔صد ہزار کعبہ یک دل بہتر است


آپ کو ایک زمانہ پیر دستگیر اور غوث الاعظم و محبو ب صمدانی و سبحانی وغیرہ ناموں سے جو یاد کرتا ہے ہر چند اس میں شرک کا پہلو نکلتا ہے۔ تا ہم یہ اسی جذبے کی ایک صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے دل غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں سے محبت کرنے کے لیے پیدا کیا۔


ایک مرتبہ طالب علمی کے زمانے میں آپ کو سامان خوردونوش کی سخت دشواری پیش آئی ایک پھوٹی کوڑی پلے نہیں تھی مگر بھوک کے مارے سخت برا حال ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص بھناہوا گوشت اور تازہ تازہ روٹیاں لے کر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے ان کا جو یہ حال دیکھا تو نہایت اصرار کر کے کھانے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ باتوں باتوں میں اس نے پوچھاکہ آپ کیا کرتے ہیں آپ نے کہا تعلیم پا رہا ہوں اس نے کہا گیلان سے بھی ایک نوجوان عبدالقادر حصول تعلیم کے لیے یہاں آیا ہوا ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟ آپ نے کہا ۔ جی ہاں وہ میں ہی ہوں۔ اس جواب پر وہ شخ?ص سخت بے چین اور آبدیدہ ہو کر بولا ۔ بھائی تم میرے مہمان نہیں بلکہ اب میں تمہارا مہمان ہوں تمہاری والدہ نے تمہارے خرچ کے لیے آٹھ دینار دیے تھے کہ تمہیں پہنچا دوں مگرمجھ سے تمہاری امانت میں خیانت ہو گئی۔ آپ نہایت صبرو اطمینان کے ساتھ خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے پھر وہ کہنے لگا ہوا یوں کہ میں نے آپ کو بغداد میں بہت ڈھونڈا کئی دن آپ کی تلاش میں لگ گئے اس مدت میں میرا ذاتی خرچ جو میں اپنے ساتھ لایا تھا ختم ہو گیا جب لگا بھوکوں مرنے اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو میںنے آج یہ رقم صرف کر کے کھانا خرید لیا جسے ابھی ابھی ہم دونوں نے مل کر کھایا ہے۔


آپ نے یہ تمام بات سن کر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کے حسن خیال و نیت کی تعریف کی اور اسے تسلی دی اس کے بعد کچھ بچا ہوا کھانا دے کر اسے نہایت محبت کے ساتھ رخصت کیا۔
ٍ آٹھ دینار اور قحط کے ایام پر غور کیجئے ان دنوں اس تھوڑی سی رقم کی کتنی بڑی اہمیت ہو گی۔ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اسے بخش دیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ?قحط کی ہولناکی کے انہی دنوں میں آپ نے بھوکے ننگے فقیروں کی ایک جماعت کو دیکھاکہ شدید فاقہ کشی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپ کی طبیعت میں بے حد ملال پیدا ہوا پروردگار سے دعا کی اور اس نے فوراًقبول کی کہ ان فقیروں کے حال سے متاثر ہو کر تھو ڑی ہیہی دور گئے ہوں گے کہ ایک شخص ملا۔ اور اس نے سونے کا ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ٹکڑا آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے اخراجات کے لیے بھیجا ہے۔ آپ بازار گئے بقدرے ضرورت سونا فروخت کیا اس سے جو دام میسر آئے ان سے سب سے پہلے فقیروں کی فاقہ کشی دور کی۔


آپ کے زمانہ ولایت میں بغداد مذہبی اور سیاسی بد احوالی میں مبتلا تھا۔ مذہب کا حال یہ تھا کہ دین کے نام پر طرح طرح کے فرقے اور گروہ بن چکے تھے۔ اور ان کا عقائد میں ایسی ایسی باتیں داخل ہو چکی تھیں کہ ان کا دین اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ خاص کر اسمٰعیلی فرقے کی باطنی تحریک نے تو خوب ہی اودھم مچا رکھا تھا۔ دوسری طرف خلفائے عباسیہ کا ستارہ اقبال زوال پذیر تھا ۔ ان کی حیثیت خلافت کے تخت پر مذہبی پیشواو?ں سے زیادہ نہیں تھی۔ حالات یہ تھے کہ سلاطین آپس میں لڑ رہے تھے۔ اور ان میں سے جس کی قوت زیادہ ہو جاتی اسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا اور بغداد میں اس کے خلاف کسی میں دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔

ان احوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنان اسلام نے سر اٹھایا اور میدان کارزارگرم کیا تمام عیسائیوں نے متحد ہو کر عالم اسلام پر یلغار کر دی۔ تاریخ اسلام یہ لڑائی پہلی جنگ صلیبی کے نام سے مشہور ہے اب ایک طرف تو یہ عالم ہے کہ اپنوں اپنوں میں اقتدار و حکومت کے لیے تلوار چل رہی ہے۔ کہیں ایک دوسرے کے خلاف مذہب کی آڑ لیکر طرح طرح کی غیر اسلامی تحر یکیں چلائی جا رہی ہیں جن میں اسمٰعیلی شعیوں کی تحریک باطنیت سر فہرست ہے اور دوسری طرف اسلام کو مٹانے کے لیے کفروباطل کی تمام قوتیں مجتمع ہو کر مسلمانوں کے مقابلے پر آ گئیں۔ اب ان حالات میں کسی قوم میں خواہ کتنی ہی قوت و عزم و جوش اور ولولہ جہاد کیوں نہ ہو وہ جب تک متحد نہیں ہوتی سب کا مرکز ایک نہیں ہوتا۔ اس کا وجودوعدم دونوں برابر ہیں۔


کسی قوم کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے اور ان کے آپس کے اختلافات کو دبانے کے لیے ایک ایسی تبلیغ سے بہتر کوئی ایسا موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا جس میں فروعی اختلافات سے قطع نظرصرف اصولوں پر زور دیا جائے۔ آپ نے سلسلہ رشدوہدایت جاری کیا تو اس میں اپنی ذات کو مرکز نہیں بنایا بلکہ محمد رسول اللہ کی ذات والاصفات پر تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش فرمائی حکومت و اقتدار کے لیے دین و مذہب کے نام پر مسلمانوں میں جو مختلف گروہ بن چکے تھے ان کے اغرا ض و مقاصد کی نقاب کشائی کی۔


آپ نے اپنے جدامجد جناب سید نا امام حسن کا اخلاق و کردار ہر مرحلے اور زندگی کے ہر کام پر پیش نظر رکھا یعنی امام حسن نے دیکھا کہ ان کے رفقا وقت پر ساتھ نہیں دیں گے اور خلافت سے علیحدگی پر خون کی ندیاںبہنے سے رک سکتی ہیں چنانچہ آپ علیحدہ ہو گئے اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کو باہمی کشت و خون اور جنگ و جدل سے بچا لیا۔


جناب امام حسین بیوی بچوں اور جاں نثاروں کو ساتھ لے کر گھرسے چلے تھے تو آپ نے کسی سے لڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا کوفے والوں کے خط پر خط آ رہے تھے یہ ان کی دعوت پر کوفہ کو روانہ ہوئے ۔ کوفہ پہنچ کر آپ کو جو حالات پیش آئے ۔ لوگوں نے سرد مہری سے کام لیا اس وقت بھی آپ نے کسی سے جنگ و جدل کرنا پسند نہیں کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ واپس جانے کی خواہش ظاہر فرمائی یا کہا کہ مجھے یزید سے مل کر اپنا معاملہ طے کر لینے کی مہلت دی جائے۔ اور اگر یہ گوارا نہ ہو تو کسی مہم پر بھیج دیا جائے اللہ کی راو میں جہاد کرنے کی اجازت ہو یہ باتیں آپ نے کیوں کہیں؟صرف یہ کہ محمدرسول اللہ کی امت میں آپ کے نواسے کے لیے باہمی تلوار نہ چلے۔

جناب عبدالقادر جیلانی نے اپنے دادا جناب حسن اور نانا جناب حسین کے اخلاق مطہرہ کی پوری پوری پیروی کی ۔ آپ نے اپنے واعظ میں اسلام کے صرف اصولوں کی تبلیغ کی۔ اور حکومت وسیاست کے معاملات میں قطعاًاپنے آپ کو نہیں الجھایا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ نے لاکھوں انسانوں کے دلوں پر مکمل حکمرانی کی اور ایسی حکمرانی کہ تخت وتاج کے مالکوں کو رشک آتا تھا آپ کے پر اخلاص ارشادات نے جن کی اثر انگیزی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے سے بچا لیا یہی وہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کے سبب سے اسلامی دنیا آپ کو محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کے لقب سے یاد کرتی ہے اور یہی وہ سب سے بڑا فریضہ ہے جس کے ادا کرنے پر آپ کا مرتبہ بلند ہوا کہ تمام اولیائے کرا م آپ کے قدموں میں سر دیتے ہیں۔ اور آپ کے طریقے میں داخل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


ہندوستان میں آپ کا سلسلہ قادریہ سلطان سکندر خاں لودھی کے عہد حکومت میں جناب سید محمد غوث گوالیاری سے پھیلا۔ جناب غوث نو واسطوں سے اپنے جدّ امجد جناب سید عبدالقادرجیلانی سے جا ملتے ہیں۔ جناب غوث علاقہ اوچھ ضلع ملتان کے قریب ٨٢٤١ءمیں مقیم ہوئے۔ آپ کے زمانے میں ہندوستان کی مذہبی فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کے معتقدات کو باہم ملا کر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جا رہا تھا۔ جس کی تعلیمات میں دونوں گروہوں کے اعتقادات و مذہب کا رنگ موجود تھا۔ بھگت کبیر جو ٠٤٤١ءمیں پیدا ہوئے۔ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی تحریک اتحاد بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔


تحریک تصوف کی تاریخ میں بھگتی تحریک کو اس لیے اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستانی خیالات و معتقدات مشاغل اور یوگ کے طریقے یعنی حبس دم وغیرہ صوفیوں میں راہ پا گئے۔ قادری سلسلے نے تصوف اسلامی سے ان تمام باتوں کو جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں کلی طور پر نکال باہر کیا۔
تصانیف:دین اسلام کی حفاظت و مدافعت کے لیے جناب جیلانی نے جو کتابیں تصنیف کیں ان کی حیثیت بجا طور پر حصار دین و فصیل ملت کی ہے۔ آپ کی سب سے پہلی کتاب غنیتہ الطالبین ہے۔ اس میں احکام شرع بیان کئے گئے ہیں اوران کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری کتاب فتوح الغیب ہے جس میں آپ نے مضامین تصوف نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیے ہیں ۔ تیسری کتاب فتح ربانی ہے جس میں آپ کے مواعظ حسنہ و خطبات عالیہ ملتے ہیں۔ انہیں آپ کے نواسے جناب سید عفیف الدین مبارک نے مرتب کیا ہے۔

مکتوبات سبحانی: اس میں آپ کے وہ خطوط جمع کئے گئے ہیں جو آپ نے وقتاًفوقتاً پندو نصالح کی غرض سے مختلف لوگوں کو لکھے تھے۔
قصائد:اس میں آپ کے چودہ قصیدے ہیں اس کے علاوہ آپ کا ایک فارسی دیوان ہے منجملہ ان کے آ پ کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔


ازواج و اولاد:آپ نے مختلف اوقات میں چار شادیاں کیں جن سے کل بیس لڑکے اور انتیس لڑکیاں پیدا ہوئیں آپ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصو صیت کے ساتھ توجہ فرمائی جس سے آپ کی اولاد نے علم و فضل کی دنیا میں بڑا نام پایا ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہےں ۔
١۔شیخ سیف الدین عبدالوہاب ٢۔ شیخ عبد الر زاق تاج الدین
٣۔شیخ شر ف الدین عیسیٰ ٤۔شیخ ابواسحاق ابراہیم
٥۔شیخ ابو بکر عبد العزیز ٦۔شیخ یحیٰ
٧۔شیخ عبد الجبار ٨۔شیخ محمد موسیٰ
ٍٍ ٩۔شیخ محمد
خدام و خلفائ:سلسلہ قادریہ کے خدام خلفاءکی تعداد یوں تو ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔ مگر ان مین سے جن کو اسلام کے پھیلانے میں شہرت دوام حاصل ہوئی ان میں سے چند ایک مشاہیر کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔ شیخ ابو البقا ابو الحسن ،مفتی عراق قاضی
ابو طالب عبد الر حمٰن ،شیخ امام موفق الدین، قاضی ابو العباس احمد ، شیخ ابو محمد عبداللہ بن خشاب، شیخ قاضی ابو العلی، شیخ ابو السعود احمد بن ابی بکر حریمی عطار، علامہ ابو بکر عبد اللہ بن نصر، شیخ شہاب الدین سہروردی ان بزرگوںکے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ ہیں جن کو آپ کے سلسلے سے فیض حاصل ہوا آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے مریدین و خلفاءکو ممالک اسلامیہ میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور دوسرے شہروں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کرتے۔ اور چلتے وقت انہیں حسب ذیل ہدایات فرماتے۔
١۔ حاکموں اور امیروں کی ملازمت نہ کرنا۔
٢۔ کسی امیر سے وظیفہ نہ لینا۔
٣۔ کتاب اللہ اور سنت رسول کی مکمل پیروی کرنا۔
٤۔ شریعت کی حدود سے کبھی آگے نہ بڑھنا۔
٥۔ زندگی نہایت سادگی سے بسر کرنے کو اپنا شعار بنانا۔
وفات: تبلیغ اسلام اور مدافعت دین کے لیے آپ نے ١٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا جو ١٦٥ہجری یعنی آپ کے انتقال تک چالیس برس جاری رہا ۔ اس مدت میں سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا ہزاروں مسلمانوں کے ایمان تجدید اور عقائد کی اصلاح ہوئی بہت سے شاگرد پیدا کئے جو مشاہیر کی فہرست میں شمار ہوتے ہیںکئی جماعتیں دیگر ممالک میں اسلام کو پھیلانے کے لیے تیار کیں ۔ موصل حلب ، دمشق، تبریز ، ہمدان، طوس، بسطام، الحطیف اور کوفہ وغیرہ میں قادری سلسلے کے مدرسے قائم ہوئے۔ غرض احیائے اسلام و تبلیغ دین میں کوشش کرتے جب آپ اکیانوے برس کے ہوئے اور آپ کی تمام کوششیں با آور ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں اس دنیائے فانی سے آپ کو واپس بلا لیا۔ آپ ١٦٥ءمیں چند روز صاحب فراش رہ کر راہی دارالبقا ہ ہوئے آپ نے بغداد میں وفات پائی وہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔
اقوال:١۔ مالدار بننے کی آرزو نہ کرو۔ ابوالہوس مت بنو مالدار اور فقیر اور بے نوا کے درمیان امتیاز مت رکھو۔
٢۔عمل کے بغیر علم مطلق فائدہ نہیں پہنچاتا۔ عامل بنوجان بوجھ کر جاہل نہ بنو۔ عالم باعمل نائب خدا ہے۔
٣۔اپنے جائز کسب سے کمائو۔ دین کے ذریعے سے ہر گز نہ کمائو۔ جائز کمائو اور کھائو۔ اور اس سے دوسروں کی غمخواری بھی کرو۔
٤۔ اللہ سے بندوں کا شکوہ نہ کر۔ جب تک زندگی کا دروازہ کھلا ہے اسے غنیمت جانو۔
٥۔ایمان والوں کی آزمائش ہوتی ہے۔
٦۔خدمت کرو مخدوم بن جائو گے۔
٧۔افسوس اس شخص پر جس نے قرآن تو حفظ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔
٨۔باطن کا جہاد ظاہر کے جہاد سے زیادہ سخت ہے۔
٩۔دنیا تمہارے ہاتھ میں تور ہے مگر دل پر اس کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ دل کو اللہ کی یاد سے آباد کرو۔ اللہ ہی کی محبت کا تمہارے دل پر قبضہ ہو۔

No comments:

Post a Comment