Tuesday, October 20, 2009

سید محمد المعروف سلطان المشائخ۔ ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069

نظا م الدین محبوب الہٰی
سید محمد المعروف سلطان المشائخ۔نام
ہجرتاریخ پیداءش
ایک شخص آپکو گالیاں دیتا تھا آپ نے دعا فرمائی میں نے معاف کیا یااللہ تو بھی اسے معاف فرما

آپ کے باپ دادا کسی زمانے میں بخارا سے نکل کر بدایوں آ ئے تھے جہاں636ہجری سلطان التمش کے زمانے میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ ابھی پانچ برس برس کے تھے کہ آپ کے والد محترم جناب مولانا سید احمد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا اور آپ یتیم ہو گئے۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ بی بی زلیخا ایک سمجھ دار اور دین دار خاتون تھیں۔ مولانا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش و تربیت کا بار تنہا سیدہ ہی نے اٹھایا۔ انہوں نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی اور آپ کے دل میں دین کی اشاعت کے حصول کا شوق پیدا کیا۔ بی بی زلیخا سوت کاتتی اور اس سے جو معاوضہ میسر آتا اس سے گھر کے اخراجات چلاتی تھیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ کئی روز فاقے سے گزر جاتے۔ لیکن جناب نظا م الدین باوجود نہا یت کم سن ہونے کے کیا مجال جولب پر ایک حرف بھی شکایت کا لے آتے۔ بلکہ صبر و تحمل اور حوصلے کے ساتھ علوم دین کی تحصیل میں لگے رہتے۔ جس روز کھانے پینے کو گھر میں کچھ نہ ہوتا۔ بی بی کہتیں، بابا نظام آج ہم اللہ میاں کے مہمان ہیں۔ بھولا بھالا نظا م بھی اس مہمانی کا اتنا قدر دان تھا کہ ہمیشہ اس کے دل میں یہی خیال رہتا کہ وہ دن کب آئے گا جب اماں پھر کہیں گیں بابا نظام آج ہم اللہ میں کے مہمان ہیں۔ ماں کی اس خاص توجہ اور تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ سولہ برس ہی کی عمر میں تمام علوم دین میں کامل ہو گئے۔ تفسیر، حدیث ، فقہ پر انہیں دسترس ہو گئی۔ تعلیم سے فراغت پائی تو والدہ محترمہ نے تمام شہر کے علماءو فضلاءکو جمع کیا اور اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے سوت کی آپ کے سر پر پگڑی بندھوائی۔

اس کے بعد مزید تحصیل باطنی کے لیے آپ اپنی والدہ اور ہمشیرہ کو لے کر بدایوں سے دہلی آ گئے۔ جہاں آپ کو شمس الملک مولانا شمس الدین تبریزی خوارزمی سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ مولانا خوارزمی اپنے زمانے کے ممتازعلماءمیں شمار کیے جاتے تھے۔ سلطان بلبن ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ خواجہ صاحب دہلی میں ہلال طشت وار کی مسجد کے نیچے ایک حجرے میں رہا کرتے تھے۔ ان کے قریب ہی خواجہ فرید الدین گنج شکر کے چھوٹے بھائی شیخ نجیب الدین متوکل رہتے تھے۔ آپ اکثر ان کے مکان پر جایا کرتے تھے اور ان کی زبانی آپ کو جناب فرید الدین گنج شکر کے فیض باطنی و کمالات علمی کا حال معلوم ہوا۔ آ پ کو ان سے ملاقات کرنے کا بے حد اشتیاق پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ خواجہ فرید الدین گنج شکر سے ملاقت کرنے کے لیے پاکپٹن روانہ ہوئے۔ جب آپ بابا صاحب کی خدمت میں پہنچے تو بابا صا حب نے آپ کو دیکھتے ہی ایک شعر پڑھا، اور گلے سے لگا لیا۔ آپ ایک مدت تک ان کے پاس رہے۔ ان سے بیعت کی اور خرقہ خلافت پایا۔ ان دنوں بابا کے لنگر میں بڑی تنگدستی تھی۔ آپ کے درویش کیا کرتے کہ اپنے حصے کا ایک کام لے لیتے اور اس کو سر انجام دیتے۔ چنانچہ مولانا بدر الدین اسحٰق لنگر خانہ کے لیے جنگل سے ایندھن لاتے۔ شیخ جمال الدین بانسوی ایک جنگلی پھل ویلا اچار بنانے کو لاتے۔ حسام الدین کابلی پانی بھرتے اور برتن صاف کیا کرتے اور خواجہ صاحب کے ذمے کھانا پکانے اور کھلانے کا کام تھا۔ کہتے ہیں ایک روز کھانے میں نمک کی کمی تھی۔ آپ بازار گئے اور کسی بنیے سے ادھار پر نمک لے آئے۔ بابا صاحب کو جب معلوم ہوا تو لقمہ سے ہاتھ روک لیا اور فرمایا:۔ ازیں بونسے اسراف می آید?
آپ نے عرض کیا قرض سے نمک آیا ہے۔ بابا نے فرمایا درویشوں کے لیے قرض سے موت بہتر ہے۔ اگر کسی مقروض درویش کو اچانک موت آ جائے تو قیامت میں اس کی گردن جھکی رہے گی۔ خواجہ صاحب نے اسی وقت کانوں کو پکڑ لیا اور آئندہ قرض لینے سے توبہ کی ۔ بابا صاحب نے خدا کی بارگاہ میں آپ کے لیے دعا کی:۔ کہ اے پروردگار یہ تجھ سے جو کچھ مانگا کرے اسے عنایت کر دیا کر ? بابا کی دعا قبول ہوئی اسی لیے جناب نظام الدین کو محبوب الہیٰ کہا جاتا ہے۔

آخری مرتبہ جب آپ دہلی سے پاکپٹن اپنے مرشد جناب بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی زیارت کو گئے تو آپ کو بابا صاحب نے پھر ایک دعا دی۔ فرمایا نظام الدین اللہ تعالیٰ تمہیں نیک بخت بنائے۔ انشاءاللہ تم ایک ایسے درخت ہو گے جس کے سائے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق آرام پائے گی۔ چنانچہ بابا صاحب کی یہ دعا اور پشین گوئی بھی آپ کے حق میں حرف بحرف بوری ہوئی۔ اولیائے کرام کی فہرست میں شاید ہی کوئی ایسا ولی نظر آئے جس کے قرب و صحت کی باد شاہوں تک نے آرزو کی ہو۔ آپ کے لنگر خانہ کا یہ عالم تھا کہ سینکڑوں غریب و مسکین لولے، لنگڑے اور اپاہج کھانا کھاتے۔ ان کے علاوہ باہر سے جو سیاح آتے انہیں بھی یہاں آرام میسر آتا۔ اور وہ مہینوں آپ کے مہمان رہتے اور سینکڑوں اشرفیاں اور زاد راہ لے کر واپس جاتے۔ آپ کا یہ معمو ل تھا کہ جب تمام لوگ کھانے سے فارغ ہو جاتے تب اپنا کھانا منگواتے اور تناول فرماتے۔ آپ نے عمر بھر کبھی مرغن غذا نہیں کھائی۔ عموماً جو کی روٹی اور ابلی ہوئی ترکاری ہوتی۔ کبھی رو پڑتے اور فرماتے جی نہیں چاہتا کہ اللہ کے ہزاروں بندے مسجدوں بازاروں اور گھر کے کونوں گوشوں میں بھوکے پیاسے پڑے ہوں اور میں مزے مزے کی چیزیں کھاو?ں۔ سردی کے دنوں میں فرماتے بار الٰہا کس غضب کی سردی ہے۔ غریب لوگ تیرے عاجز بندے کس طرح برداشت کر رہے ہوں گے۔

ایک مرتبہ ایک شخص کے مکان کو آگ لگ گئی۔ لوگ اس کی مدد کو دوڑے آپ بھی لوگوں کے ساتھ آگ بجھانے کو دوڑے۔ آتش زنی سے اس غریب کا بڑا نقصان ہوا۔ آپ کو اس کی بربادی پر سخت قلق ہوا۔ آپ نے خادم سے فرمایا۔ لنگر سے اس کے بیوی بچوں کے لیے کھانا لے جاو? اور اتنی رقم بھی دے آو? جس سے اس کی ضروریات آسانی سے پوری ہو جائیں۔ شان کی بے پروائی یہ تھی کہ اکثر بادشاہوں کو آپ سے میل جول بڑھانے کی تمنا رہتی۔ وہ چاہتے کہ آپ ان کے پاس تشریف لائیں۔ غیاث الدین بلبن کے پوتے معزالدین کیقباد کو آپ سے دلی محبت تھی ۔ اس لیے اسی سبب سے آپ کے مسکن کے قریب ہی اپنا محل تعمیر کرایا اور اس میں سکونت اختیار کی۔ لیکن آپ اس کی تعمیر کی ہوئی مسجد میں جانے کے سوا کبھی اس کے پاس نہیں گئے۔ کیقباد کے بعد جب جلال الدین خلجی کا زمانہ آیا تو اس نے بھی آپ کے قرب کی خواہش کی لیکن آپ نے منظور نہ کیا۔ اس کے بعد علاو?الدین خلجی آیا۔ تو اس نے بھی آپ کو نہایت قدرو منزلت کی نگاہوں سے دیکھا۔ وہ آپ کے اشعار کو کئی مرتبہ پڑھاتا اور زارو قطار روتا جاتا۔ علاو?الدین کو بھی آپ کے قرب کی حسرت ہی رہی۔ مگر اس نے اس آرزو کی خواہش میں اپنے ولی عہد خضر خاں اور چھوٹے بیٹے شادی خاں کو آپ کی مریدی میں دے دیا۔

علاو?الدین کے مرنے کے بعد سلطنت کے احوال میں کچھ ایسی پچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ کہ خضر خاں تاجدار ہند نہ بن سکا۔ علاو?الدین خاں کے تیسرے بیٹے قطب الدین خاں نے سلطنت اپنے زیر نگین کر لی اور اپنے بڑے بھائی خضر خاں کو پہلے اندھا کر دیا پھراپنے دوسرے بھائی شادی خاں سمیت اسے قتل کروا دیا۔ قطب الدین ایک نا تجربہ کار اور نو عمر بادشاہ تھا اسے دیوانگی ہو گئی کہ وہ کسی طرح لوگوں کے دلوں سے آپ کی عظمت مٹا دے۔ چنانچہ اس نے بزور شمشیر اس ناپاک ارادے میں کامیاب ہونے کی کوشش کی۔ اس نے آپکو اپنے دربار میں بلانے کے لیے حکم دیا کہ تمام علماءو فضلاءکی طرح سلام کی غرض سے آپ بھی میرے حضور میں پیش ہوا کریں۔ آپ نے اسے کہلا بھیجا کہ بادشاہوں سے ملنے کا ہم فقیروں کا دستور نہیں۔ قطب الدین اس جواب پر بڑا سیخ پا ہوا اور کہا کہ اگر وہ نہ آئیں گے تو میں زبردستی بلاو?ں گا بہتر یہ ہے کہ وہ اس مہینے کے فلاں دن مجھ سے ملاقات کریں۔ آپ کو اطلاع ہوئی تو فرمایا میں اپنی ذاتی رائے بدل سکتا ہوں۔ لیکن بزرگوں کے طریقے کو نہیں بدل سکتا۔

قدرت خدا کہ جب وہ مقررہ دن آیا تو یکایک شورو غل ہوا کہ سلطان قطب الدین مارا گیا۔ قطب الدین اپنے ایک حسین و جمیل نو خیز غلام خسرو پر ہزار جان سے فدا تھا۔ اس نے اپنی حکومت قائم کرنے کی آرزہو میں موقع پا کر قتل کر دیا اور ہزار ستوں کی چت پر اس کا سر کاٹ کر نہا یت ذلت و حقارت سے نیچے پھینک دیا۔ خسرو خاں ایک نو مسلم رعایا کا ہندو بچہ تھا۔ اس کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ کہ وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ خلجیوں کے بعد تغلقوں کا دور آیا۔ غیاث الدین تغلق خسرو کو ٹھکانے لگانے کے بعد امور سلطنت کی طرف متوجہ ہوا۔ اراکین حکومت نے اسے ایک مذہبی مجلس قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی جس میں دین کے مسائل پر آپس میں تبادلہ خیالات ہو ا کرے۔ چنانچہ یہ مجلس قائم ہوئی اور اس میں سب سے پہلے سماع کا مسئلہ پیش ہوا اور جناب نظام الدین کو دعوت دی گئی۔ آپ اس مجلس میں تشریف لے گئے اور اس مسئلہ پر ایک ایسی مدلل اور پر مغز تقریر فرمائی۔ کہ شرارت کرنے والوں کے تمام ارادوں پر پانی پھر گیا۔ با دشاہ بے حد خفیف ہوا اور شرمندہ ہو کر بنگالہ کی مہم پر چلا گیا۔ ایک مدت کے بعد جب وہ مہم سے فراغت پا کر دہلی کی طرف روانہ ہوا تو اس نے آپ کو یہ کہلا بھیجا کہ میرے دہلی پہنچنے سے پہلے پہلے شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔ آپ نے فرمایا ?ہنوز دلی دور است? کہتے ہیں اس نے آپ کو کئی دفعہ پیغام بھیجا اور آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب اوشاد فرمایا۔ غیاث الدین تغلق کے ولی عہد نے باپ کے استیصال کے لیے بڑی بڑی دھوم دھام سے تیاریاں کیں۔ شہر کی آبادی سے دو میل کے فاصلے پر ایک چوبی محل تیار کیا۔ جب تغلق وہاں پہنچا اور اسی محل میں اس کی شاندار دعوت کی۔ تو عین اس وقت کہ جب تمام لوگ کھانا کھا چکے اور باہر آ گئے اور یہ اپنے چند مقربین کے ساتھ ابھی محل ہی کے اندر تھا۔ قدرت خدا کہ یکایک محل کی چھت گر گئی اور سلطان مع اپنے مقربین کے اس میں دب کے مر گیا۔
ت
تغلقوں کے بعد جب مغلوں کا زمانہ آیا انہوں نے آپ کی توقیر و عظمت تمام بادشاہان ہند سے زیادہ کی ان کی اکثر یہ خواہش رہی کہ آپ ان کے ہدیے اور نذرانے قبو ل فرمائیں۔ اکثر وں نے آپ کے متعلقین اور عزیزوں، رشتہ داروں کو بیچ میں ڈالا اور سفارشیں کروائیں اور کہا کہ اگر آپ اپنے لیے کچھ نہیں لیتے تو لنگر خانہ کے لیے ہی کچھ قبو ل کر لیں ۔ آپ نے مکدّر طبیعت سے کہا ہم فقیروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم جاگیر دار بنیں۔ ضرورتوں کا تو پورا کرنے والا صرف وہی کار ساز ہے اور میں نے اس پر توکل کیا ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کی اولاد نے بھی آپ کے بعد اسی نظریے پر عمل کیا۔ مغلوں نے کئی مربہ بڑی بڑی جاگیریں اور دیہات دینے چاہے لیکن انہوں نے کبھی قبول نہ کئے۔ 825ہجری میں آپ کو مرض الموت لاحق ہوا۔ آپ نے حکم دیا کہ گھر میں جو کچھ ہے وہ سب غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس کے بعد لنگر خانے کے مہتمم کو بلا کر فرمایا کہ باورچی خانے میں اس وقت جتنا بھی اناج اور غلہ محفوظ ہے وہ اسی وقت کھڑے کھڑے سب کا سب تقسیم کر دو یہاں تک کہ ایک دانہ باقی نہ رہے۔ وصال کے دنوں آپ کو بار بار غش پڑتا جب ہوش میں آتے تو یہی سوال کرتے ۔ نماز کا وقت ہوا ۔ کوئی مسافر آیا ہے۔ تو اس کی خاطر مدارت اور تواضع کرو۔ نماز کا وقت آیاہے تو مجھے بٹھاو? اور نماز پڑھاو?۔ اللہ اللہ یہ شان تھی بزرگان دین کی شرعی محا فظ ہونے کی اور یہی وہ ان بزرگوں کی کرامت ہے۔ کہ جس کے سبب آج تک ان کا نام زندہ ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت قائم ہے۔ اور یہ ان بزرگوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج چمن اسلام سر سبز و شاداب ہے۔

تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ آپ کے دستر خوان پر کئی کئی ہزار لوگ کھانا کھاتے تھے۔ مگر لوگ حیران تھے کہ اتنا روپیہ آپ کے پاس کہاں سے آتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتے کہ نذرو نیاز کی رقمیں بھی آپ اپنے پاس نہیں رکھتے۔ بلکہ اسی وقت فقیروں میں بانٹ دیتے ہیں تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہتی۔ ایک مرتبہ علاو?الدین خلجی نے آپ کی خدمت میں پانچ سو اشرفیاں پیش کیں ۔ اس وقت ایک فقیر آپ کے پاس بیٹھا تھا۔ اس نے کہا بابا اس میں سے نصف میرا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ سب تمہارا ہے اور یہ کہہ کر تمام اشرفیاں اسے دے دیں۔ مستحقین میں دولت کو تقسیم کرنا تو خیر آپ جانتے ہی تھے۔ کہ یہ انہی کا حصہ ہے مگر ایک بات ایسی بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جس سے آپ کے اخلاق حمیدہ اور عالی ظرف ہونے کا یہ ایک اندازہ ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دیتا تھا اور آپ اسے دو اشرفیاں دیتے ایک دن لوگوں نے اسے غیرت دلائی۔ تو اس نے آپ کو گالیاں دینا ترک کر دیا اور وعدہ کیا کہ میں اب آپ کی شان کی گستاخی نہیں کرونگا۔ چنانچہ جب اس روز وہ آپ کی خدمت میںگیا تو جپ رہا۔ مگر جب چلنے لگا تو اپنا وظیفہ مانگا۔ آپنے فرمایا بھائی میرا حق بھی دے دو ۔ کہتے ہیں ایک مدت کے بعد جب اس کا انتقال ہوا اور آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ اس کی قبر پر گئے۔ اور یہ دیا کی۔ اے پروردگار اس شخص کو بخش دے میں نے اس کی غلطیوں کو بخش دیا۔

آپ نے 825ہجری میں انتقال فرمایا ۔ آپ سے حسن عقیدت و ارادت مندی رکھنے والے مسلمان نظامی کہلاتے ہیں اور وہ آج ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔

تصانیف:آپ کے وہ ملفوظات جن کی حیثیت آپ کی تصنیفات کی ہے ۔یہ ہیں:۔
١۔فوائد الفوائد ٢۔افضل الفوائد ٣۔راحت المحبین

No comments:

Post a Comment