Tuesday, October 20, 2009

خواجہ معین الدین چشتیByMuhammadAmirSultanChishti923016778069

خواجہ معین الدین چشتی
خواجہ حسن معین الدین چشتی اجمیرینام
630ھتاریخ پیداءش
خواجہ صاحب نے ہندوستان میں سلسلہ چشت کو ایسا پھیلایا کہ آج پاک و ہند میں چشتی سلسلے کے بزرگ ہر جگہ موجود ہیں

630ھ سیستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم جناب خواجہ سیدغیاث الدین ایک خدا رسیدہ اور صاحب اثر و دولت بزرگ تھے۔ آپ کے زمانے میں غز ترکوں نے سلجوقی بادشاہ سلطان سنجر پرحملہ کیا۔ سیتان کا حاکم سنجر کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑا۔ مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔ وہ غز ترکوں کے ہاتھ گرفتار ہوا۔ سلطان سنجر نے راہ فرار اختیار کی۔ غز ترکوں کے حملے سے سیتان میں جو تباہی وبد نظمی پھیلی اس نے خواجہ غیا ث الدین کو دلبرداشتہ کر دیا۔ وہ سیتاں کو چھوڑ کر خراسان آ گئے۔ جہاںخواجہ معین الدین کی ابتدائی نشو ونما ہوئی۔٩٤٥ ھمیں جب خواجہ معین الدین بمشکل تیرہ برس کے ہوں گے۔ انہوں نے غر ترکوں کی ہولناکیوں اور تباہیوں کا نقشہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سلطان سنجر کو غزترکوں کے مقابلے میں دوبارہ شکست ہوئی ۔ اور وہ ان کے ہاتھ گرفتار ہو گیا۔ اب سیستان کو بے دست و پا کر کے ترکوں نے جو آفت مچائی۔ خدا کی پناہ، ایک ایک کر کے تمام بڑے بڑے آدمی قتل کر دیے گئے۔ جن میں علماء، فضلائ، شیوخ اور شہر کے دولت مند لوگ شامل تھے۔ عورتوں کی عصمت دری کی ۔ مسجدوں کو ویران کیا گیا۔ ان واقعات نے خواجہ معین الدین کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ دنیا سے یکسر بیزار ہو گئے۔

١٥٥ھ میں کہ جب خواجہ معین الدین پندرہ برس کے تھے۔ آپ کے والد محترم انتقال کر گئے۔ معلوم نہیں آپ کل کتنے بہن بھائی تھے۔ مگر ترکے کی تقسیم سے پتہ چلتا ہے کو دو چار ضرور ہوں گے۔ باپ کے ترکہ سے آپ کے حصے میں ایک باغ اور چکی ملی تھی ۔ جس کو آپ نے اپنی روزی کا ذریعہ بنایا۔ یعنی آپ خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے۔ پانی پہنچاتے اور خود ہی فصل کاٹتے تھے۔ ایک روز اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اوپر سے ایک عارف کامل اور صاحب علم وعمل بزرگ کا گزر ہوا۔ آپ نے ان کی بڑی تعظیم کی۔ ایک سایہ دار درخت کے نیچے لا کے بٹھایا اور ایک تازہ انگوروں کے خوشہ سے تواضع کی۔ اور نہا یت ادب کے ساتھ دو زانو ہو کر ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ یہ بزرگ ابراہیم تندوزی تھے۔ انہوں نے ایک ہی نظر میں اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان اپنے دل میں حقیقت کو پانے کا جزبہ رکھتا ہے۔ ع ۔ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ابراہیم تندوزی کی ملاقات نے خواجہ معین الدین کے دل پر بہت گہرا اثر کیا۔ آپ نے باغ اور چکی فروخت کر کے اس کی رقم غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دی اور حق کی تلاش میں سر گرداں ہوئے۔ خواجہ خراسان سے چل کر سمر قند و بخارا آئے۔

یہاں آپ نے قرآن حکیم حفظ کیا تفسیر ، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم دین میں تکمیل حاصل کی۔ اور اس کے بعد نیشا پور کے ایک قصبے ہارون میں ا گئے۔ یہاں ایک خدا رسیدہ صاحب علم و تقوے ٰ بزرگ شیخ عثمان ہارون تشریف رکھتے تھے اور ایک خلق خدا ان کے فیوض علمی سے فیض پا رہی تھی۔ خواجہ معین الدین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہو گئے۔ شیخ عثمان ہارونی تصوف میں چشتی سلسلے کے بزرگ تھے۔ ان کی طریقت کا سلسلہ یوں ہے۔ کہ عثمان ہارونی چشتی جناب شیخ زندنی چشتی کے مرید تھے۔ زندنی جناب خواجہ مودود چشتی کے مرید تھے۔ مودود چشتی خواجہ ناصر الدین چشتی کے مرید تھے۔ جناب ناصر چشتی ، خواجہ محمد اسحاق بانیءسلسلہ چشت کے مرید تھے۔ خواجہ محمد اسحاق چونکہ خراسان کے اطراف میں چشت نامی ایک گائوں کے رہنے والے تھے اسی مناسبت سے چشتی کہلائے اور ان سے آگے جو ارادت مندی کا سلسلہ چلا یعنی جن بزرگوں نے ان کے ہاتھ پر بعیت کی انہیں چشتی کہا گیا ۔ ہر چند جناب اسحاق شام کے رہنے والے تھے مگر ایک مدت سے یہاں آ رہے تھے اور یہاں برسوں رہ کر اپنے فیوض باطنی سے لوگوں کو فیض پہنچایا اور یہیں مدفون ہوئے اس لیے انہیں چشتی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تصوف کے کئی ایک سلسلے خواجہ حسن بصری کے واسطے سے جناب علی کرم اللہ وجہ?? تک پہنچتے ہیں۔ چنانچہ چشتی سلسلہ کا شجرہ طریقت ملاحظہ کریں۔

خواجہ محمد اسحاق بانیءسلسلہ چشت، خواجہ ممشا د علی دینوری کے مرید تھے۔ دینوری خواجہ ہبیرہ بصری کے مرید تھے۔ بصری خواجہ حزیفہ مرعشی کے مرید تھے۔ مرعشی حضرت سلطان ابراہیم ادھم کے مرید تھے۔ ادھم حضرت فضیل بن عیاض کے مرید تھے۔ فضیل بن عیاض عبدالواحد زید کے مرید تھے۔ زید حبیب عجمی کے مرید تھے۔ عجمی جناب خواجہ حسن بصری کے مرید تھے۔ ا ور حسن بصری جناب علی کرم اللہ وجہ? کے شاگرد اور مرید تھے۔ پاک وہند میں سلسلہ چشت جناب خواجہ معین الدین چشتی سے پھیلا۔ یہاں نیچے جا کر چشتی سلسلے کی دو شاخیں ہو جاتی ہیں۔ ایک چشتیہ نظامیہ ، اور دوسرے چشتیہ صابریہ۔ خواجہ معین الدین اپنے پیرومرشد سے خرقہ درویشی و سند ولایت حاصل کرنے کے بعد ٣٦٥ھ کے آخر میں بغداد آئے۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ خواجہ معین الدین بغداد میں جناب سید عبد القادر جیلانی سے ملے۔ لیکن یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جیلانی ماہ ربیع الاول کے آخر میں عالم جاودانی کو سدھار چکے تھے۔ لکھا ہے کہ آپ نے شیخ یوسف ہمدانی سے ملاقات کی۔ مگر ہمدانی کا زمانہ بھی بہت پہلے کا ہے۔ وہ جناب عبدالقادر جیلانی کے ابتدائی زمانے میں ہو چکے تھے۔ اس لیے یہ بیان بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ کہ خواجہ کی ہمدانی سے ملاقات ہوئی۔ بغداد میں جن بزرگوں نے خواجہ معین الدین چشتی سے اکتساب کیا اور ان سے فیض اٹھا یا ان میں جناب شیخ دائود کرمانی اور شیخ الشیوخ جناب شہاب الدین عمر سہر وردیکے نام نمایاں ہیں۔

بغداد سے پھر خواجہ نے ہمدان کی راہ لی۔ یہاں ٹھہرے کچھ دن قیام کر کے اور بزرگان دین کے فیوض باطنی سے فائدہ اٹھا کر پھر تبریز آگئے۔ یہاں شیخ ابو سعید تبریزی سے ملے۔ شیخ تبریزی بڑے خدا رسیدہ اور عارف کامل بزرگ تھے۔ شیخ نظام دین محبوب الٰہی جیسے بلند مرتبہ بزرگ ان کی پارسائی و علمی فضیلت کے معترف تھے۔ تبریز کے بعد جناب خواجہ اصفہان گئے۔ یہاں جناب خواجہ بختیار کاکی کو آپ سے ملنے کا موقع ملا۔ جناب کاکی آپ کے مرید ہو گئے۔ اصفہان سے چلے تو خرقان پہنچے پھر استر آباد آئے اور یہاں کے مشہور بزرگ جناب شیخ ناصرالدین استر آبادی کے فیوضات باطنی سے استفادہ کیا۔ غرض یہ کہ سیاحت میں استر آباد کے بعد ہرات، سبزوار، حصار، بلخ اور غزنین پہنچے۔ غزنین علم و فضل کا مرکز تھا ۔ مگر ان دنوں سلطان محمود غزنوی کی اولاد کی حالت بہت پتلی تھی اور غوری خاندان کا ستارہ اقبال چمک رہا تھا مولانا عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں کہ آپ ٣٦٥ھمیں وارد بغداد ہوئے اور ٨٥٥ھ یا ٠٦٥ھ میں غزنین پہنچے۔ بات کا پتہ نہیں چلتا۔ ٣٦٥ھ میں تو بغداد گئے، پھر وہاں سے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے غزنین کیسے پہنچ گئے۔ بہر کیف جناب خواجہ غزنین میں ضرور پہنچے۔ علاءاور حسین غوری نے ان دنوں غزنوی خاندان کے بادشاہ ناصر الدین شاہ کے عہد میں غزنین کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ لیکن دو ہی برس گذرنے پائے تھے کہ ناصرالدین کے انتقال کے بعد حسین غوری کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد حسین غوری کا بیٹا سیف الدین محمد غوری تخت پر بیٹھا۔ بیس برس کا سن بھرپور جوانی مگر شعور پختہ نہیں تھا۔ سلطنت کو وسیع کرنے کے خیال سے وہ ایک لشکر جرار لے کر ترکان غز کے استیصال کے لیے اٹھا۔ لیکن ایک موقع پر غزوں کو اکیلا ہاتھ آگیا۔ اور انہوں نے موقع پا کر مار ڈالا۔

دوسرے سال خود ترکان غز نے پہل کی ۔ مگر ملک شاہ غوری ان کے مقابلہ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اور لاہور میں آ کر پناہ لی۔ غزوں نے شہر کو تاخت و تاراج کیا۔ خوب لوٹ کھسوٹ مچائی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ اور اس کے بعد غزنین میں اپنا ایک نائب چھوڑ کر
چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد ملک شاہ غزنین آیا۔ اس نے ترکان غز کے نائب کو وہاں سے نکالا اور غزنین پردوبارہ قبضہ کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام دل دوز واقعات جناب خواجہ معین الدین چشتی کی نگاہوں کے سامنے ہوئے۔ خواجہ نے دیکھا کہ مسلمان بے عمل ہو چکے ہیں۔ عیش پرستی و ہو س کو شی نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ اور یہی ان کی خانہ ویرانی کا سبب ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تبلیغی سر گرمیوں کو تیز کر دیا۔ اور لوگوں کے ذہن کو جہاد کی طرف پھیرا۔ غزنین کے بعد آپ نے پاک وہند کا رخ کیا۔ ان دنوں یہاں کے رہنے والوں کی جو حالت تھی وہ دنیا بھر کے جاہلوں کے مقابلہ میں سب سے بد تر تھی۔ ہندومذہب کا دور دورہ تھا۔ بت پرستی عام تھی۔ بندوں نے مالک سے رشتے توڑ کر غیروں سے جوڑ رکھے تھے۔ اورغیروں کی یہ حالت سامنے ہونے کے باوجود کہ اگر کوئی کتا بھی ٹانگ اٹھا کر ان پر پیشاب کر جائے تو وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ اس کے بعد ان کے سامنے سر جھکاتے اور انہیں استمداد کا ذریعہ جانتے تھے۔
جناب خواجہ معین الدین پاک وہند کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے لاہور میں وارد ہوئے۔ اور مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چلہ کیا۔ اس کے بعد آپ لاہور سے آگے بڑھے تو دہلی ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے۔ ان دنوں شہاب الدین غوری دہلی اور اجمیر کے راجائوںسے شکست کھا کے گیا تھا۔ اور اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے پھر سے پر تول رہا تھا۔ اس زمانے میںہندوئوں کی نگاہ میں مسلمانوں کی جو کچھ وقعت و حیثیت تھی سو وہ ظاہر ہے۔ نہا یت حقارت سے دیکھے جاتے تھے۔ اجمیر میں ان دنوں پرتھوی راج کی حکومت تھی۔ آپ نے وعظ و تلقین کا سلسلہ شروع کیا لیکن جیسا کہ قاعدہ ہے کہ اللہ والوں کے مزاج میں تلخی نہیں ہوتی وہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بڑے تحمل اور نرمی سے کام لیتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی طرز عمل اختیارکیا کہ پر تھوی راج کو آپ سے مطلق شکا یت پیدا ہوئی۔ ایک خلق خدا آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو رہی تھی۔ آپ کا علم وعمل لوگوں کی نگاہ میں اثر پیدا کر رہا تھا۔ لیکن سیاسی احوال یہ تھے کہ شاہان اسلام ہندوستان پر بار بار حملہ کر رہے تھے اور فطر تاً مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے دلوں میں بغض و عناد پیدا ہو رہا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ تمام مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنا لیا جائے۔ چنانچہ مصلحت ملکی کو سامنے رکھتے ہوئے پرتھو ی راج جناب خواجہ معین الدین چشتی کے خلاف ہو گیا۔ ایک روز پرتھوی راج نے پنے درباریوں کو مخا طب کر کے کہا یہ شخص( خواجہ)جانے لوگوں پر کیا جادو کر ارہا ہے کہ لوگ اس کے پاس کھنچے چلے آتے ہیں اور مسلمان ہو جاتے ہیں۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اسے ہمارے ملک میں آنے کا کیا حق ہے؟ کہتے ہیں یہ الفاظ کسی نے جناب خواجہ کو جا سنائے۔ آپ جوش میں آ گئے اور فرمایا وہ ہمیں یہاں سے نکالے نہ نکالے مگر ہم نے اسے نکال دیا۔ فرشتہ نے لکھا ہے شہاب الدین غوری کے مقابلہ میں پہلی جنگ میں پرتھوی راج دو لاکھ سوار لے کر پہنچا تھا۔ دوسری مرتبہ جو لڑائی ہوئی اس میں اس کے تین لاکھ سوار تھے۔ ہندوستان کے تمام راجا اس کے جھنڈے کے نیچے جمع تھے۔ جو تعداد میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہوں گے اور تین ہزار ہاتھی تھے۔ تراواڑی کے میدان میں مقابلہ ہوا۔ خوب گھمسان کا رن پڑا۔ بڑے بڑے راجائوں نے شکست کھائی اور مارے گئے۔ پرتھوی راج نے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی مگر دریائے گنگا سے آگے نہیں پہنچنے پایا تھا کہ ایک دلیر آدمی نے تعاقب کر کے گرفتار کر لیا اور شہاب الدین غوری کے حضور میں پیش کر دیا ۔ جہاں اسے ملک فنا کو روانہ کر دیا گیا اور اس طرح جناب خواجہ کی پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے دلوں میں جناب خواجہ کی شخصی عظمت اور علمی فضیلت نے پہلے سے زیادہ گھر کر لیا۔ وہ لوگ جو آپ کے دست حق پرست پر اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، مسلمان ہو گئے۔ جو لوگ اسلام کو الزام دیتے ہیں وہ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ شہاب الدین غوری نے فتح یاب ہونے کے بعد ہندوستان میں اقامت اختیار نہیں کی بلکہ وہ اجمیر آیا۔ پرتھوی راج کے بیٹے کو اپنا مطیع و باج گزار بنا کر واپس چلا گیا۔ صرف قطب الدین ایبک جو بعد میں ہندوستان کا شہنشاہ بنا اس فتح کے بعد ہندوستان میں شہاب الدین غوری کا نائب تھا اگر غوری یہاں رہتا تو آج ہندوستان کی حالت کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

ہندوستان میں اسلام پھیلا تو انہی خواجہ معین الدین چشتی جیسے بریہ نشینوں کے طفیل پھیلا ہے۔ ہر چند شاہان اسلام خواہ کتنے ہی عمدہ مسلمان کیوں نہ ہوں۔ لیکن ان کے بارے میں یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے سرکاری طور پر اسلام کی تبلیغ کی یا عیسائیوں کی طرح مشینری اسکول اور کالج قائم کیے۔ یہ صرف اولیائے کرا م ہی کی کوششوں کا حصہ ہے کہ آج پاک و ہند کے بام و در اسلام کے نام سے آشنا ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی کے بیان میں ایک بات خاص ذکر کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ جناب سید حسن مشہدی جنہیں خنگ سوار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قطب الدین ایبک نائب ہند کی طرف سے اجمیر کے داروغہ مقرر کے گئے۔ خنگ سوار نہایت نیک نفس ، پاک باطن اور پابند صوم و صلوٰة بزرگ تھے۔ لیکن باوجود اثنا عشری شیعہ ہونے کے جناب خواجہ کے ممدو معاون تھے ۔ حالانکہ جناب خواجہ شیعہ نہیں تھے۔ لیکن ان کے طرز عمل اور حسنِ اخلاق نے انہیں اپنا ایسا گرویدہ بنایا کہ خنگ سوار ہر قدم پر خواجہ کے ساتھ رہے۔ جس سے اسلام کی اشاعت کرنے اور خلق خدا کی خدمت کرنے میں بڑی مددملی۔ خواجہ معین الدین چشتی نے ہندوستان میں سلسلہ چشت کو ایسا پھیلایا کہ آج پاک و ہند میں چشتی سلسلے کے بزرگ ہر جگہ موجود ہیں ۔ اور ان کے لاکھوں مریدین ہیں۔

سیرت العارفین میں لکھا ہے۔ آپ نے ستانوے برس کی عمر میں وفات پائی۔ تاریخ وفات 6 رجب المرجب 336ھ ہے۔ آپ اجمیر میں فوت ہوئے۔ اور یہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔ آپ کی تصنیفات کے بارے میں لکھا ہے اگرچہ آپ نے کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی البتہ آپ کے ملفوظات کو جمع کر کے مختلف کتابیں مرتب کر لی گئیں ۔ جن میں سے ایک ?دلیل العارفین? ہے۔ جسے آپ کے خلیفہ و مرید جناب بختیار کاکی نے مرتب کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment