Tuesday, October 20, 2009

مجدد الف ثانی ابو بکر شبلیByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


الف ثانی
-1
شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانینام
971ہجر&تاریخ پیداءش

ا حمد سر ہندی کو ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد دوسرے ہزار سالہ دور کا رہبرکہا جاتا ہے

971ہجری میں سرہند میں پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں یہ مقام ایک جنگل تھا۔ جس میں شیر رہا کرتے تھے۔ جب یہاں شہر آباد کیا گیا تو اسی مناسبت سے اس کا نام ?شیر ہند?تجویز ہوا۔ جو آگے چل کر ?شیر ہند ? سے بگڑتے بگڑتے ?سر ہند ? بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سرہند میں جناب عمر فاروق کی ایک اولاد کو لا کر یہاں آباد کر دیا۔ جن سے بزرگ محترم جناب شیخ عبدالاحد فاروقی سلسلہ چشت کے ایک عالم باعمل بزرگ ، یہی بزرگ جناب شیخ احمدسرہندی مجدد الف ثانی کے والد گرامی قدر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے پائی۔ ان کے علاوہ آپ نے دیگر علمائے اسلام کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپکو کچھ ایسا ذہن عطا فرمایا تھا کہ جملہ اسلامی علوم بہ تمام و کمال سترہ برس کی عمر تک حاصل کر لیے بلکہ ان میں کمال متحبر پیدا کر لیا۔ اولاآپ نے قرآن حکیم حفظ کیا پھر فقہ ، حدیث و تفسیر و دیگر اسلامی علوم حاصل کئے غرض نہایت ہی قلیل مدت میں آپ ایک متحبر عالم دین ہو گئے۔ علوم ظاہری و باطنی میں تکمیل پانے کے بعد آپ کے والد محترم مولانا شیخ عبدالاحد فاروقی نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور اس امانت کے سونپنے کے بعد مولانا عالم جاودانی کو رحلت فرما گئے۔ والد کے انتقال کے بعد آپ حج کے ارادے سے دہلی تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر ایک بزرگ کے ہاں قیام فرمایا۔ انہوں نے ایک عارف کامل جناب خواجہ باقی باللہ نقشبندی کا آپ سے ذکر کیا۔ آپ کو ان کے فضائل سن کر ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ ان کے ہمراہ جناب خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مختصر یہ کہ دونوں ٰٰایک دوسرے سے مل کر بہت مسرور ہوئے۔ اور دونوں ان بزرگ سے آپس میں ایک دوسرے کی ملاقات کرانے کے شکر گزار تھے۔ خواجہ باللہ کا طرز عمل آپ سے نہایت مخلصانہ و مشفقانہ رہا ۔ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ یہ جناب شیخ احمد کے مرید ہیں۔ حالانکہ جناب شیخ احمد سر ہندی جناب خواجہ باقی باللہ کے مرید تھے۔ خواجہ باقی باللہ آپ کا بڑا احترام کرتے اور آپ سے دلی محبت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے آپ سے فرمایا ۔ ہم نے یہاں سرہند میں ایک بہت بڑا چراغ روشن کیا۔ اس کی روشنی یک لخت بڑھنے لگی۔ پھر ہمارے جلائے ہوئے چراغ سے بیسیوں چراغ روشن ہو گئے اور وہ چراغ تم ہو۔

دسویں صدی ہجری ، اکبر کے زمانے میں اسلام ایک ایسے دور سے دو چار تھا جس میں کفر و زندقہ نقطہ عروج پر تھا۔ ایک طرف علمائے اسلام کے آپس میں خر خشے، ایک دوسرے پر حملے ، شدید باہمی رقابتیں ، دوسری طرف ہندوستان کی زمام اقتدار اکبر جیسے بے علم و بے دین بادشاہ کے ہاتھ میں تھی۔ جسے ملک پر حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نئے مذہب کا بانی بن کر لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرنے کی خواہش تھی۔ اکبر نے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی چال چلی جسے آج ہمارے زمانے کی زبان میں ڈپلومیسی کہتے ہیں۔ وہ ہر مذہب و ملت کے شخص کی دل جوئی کرتا اور اس کے مذہب کو بر حق سمجھتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ نہایت چالاکی سے اسے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا کہ اب زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات و خیالات اور تقاضوں کے پیش نظر یہ مذہب ختم ہو گیا اب اس کی ضرورت نہیں۔ اکبر چاہتا تھا کہ ہندوستان کے تمام مذاہب کو مٹا کر ایک نیا مذہب قائم کیا جائے جس میں تمام مذاہب کے لوگ اپنا اپنا دین و مذہب ترک کر کے شامل ہوں اور اس کی سلطنت کے استحکام کا باعث بنیں۔ چنانچہ ملا ّمبارک جو اپنے زمانے کا ایک متحبر عالم تھا۔ دین کو چھوڑ کر دنیا کی طلب میں اکبر کے فاسد خیالات کا سر گرم کارکن بن گیا۔ اکبر ایسے بے علم بادشاہ نے ملاّ مبارک جیسے عا لم و فاضل انسان کی تائید پا کر ?دین الٰہی? کے نام سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھ دی۔ اور اس میں داخل ہونے والوں کے لیے ایک عہد نامہ ترتیب دیا ۔ جس کے الفاظ یہ تھے۔
?میں فلاں ابن فلاں اپنی ذاتی خواہش و رغبت اور دلی ذو ق شوق سے دین اسلام مجازی و تقلیدی کو ترک کر کے اکبر کے ?دین الٰہی ? میں داخل ہوتا ہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبے قبول کرتا ہوں۔ یعنی ترک مال، ترک جان، ترک عزت و ناموس اور ترک دین کا اقرار کرتا ہوں۔ ?
اکبر کے دین الٰہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سورج کی پرستش چار وقت لازمی قرار دی گئی۔ آگ، پانی ، درخت اور گائے وغیرہ کا پوجنا جائز ہو گیا۔ ماتھے پر قشقہ لگانا۔ گلے میں زنار پہننا ، مذہب حقہ کی علامت بن گیا۔ ان کے علاوہ داڑھی منڈوانا، غسل جنابت نہ کرنا، ختنہ کی رسم کو بیکار و باعثِ آزار سمجھ کر ترک کرنا۔ دین الٰہی کے ماننے والوں کی شناخت قرار پائی۔ غرض تمام شعائر اسلامی کو یہ کہہ کر ترک کر دیا کہ دین اسلام ایک ہزار برس گزر جانے کے بعد بالکل اسی طرح بیکار و بے مصرف ہو گیا۔ جس طرح اسلام سے پہلے کے مذاہب اپنے ہزار سال گزارنے کے بعد عضو معطل کی طرح ختم ہو گئے۔ اصل میں اکبر شروع شروع میں ایک مسلمان آدمی تھا۔ لیکن بعد میں جوں جوں ہندوو?ں سے اس کا میل جول بڑھتا گیا۔ حتٰی کہ ان کے ہاں رشتے ناطے ہونے لگے توں توں ان کے اختلاط کے اثر سے وہ ہندو مذہب کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ وہ اسلامی روایات جو اس کے بزرگوں نے قائم کی تھیں ۔ ہندوو?ں سے گہرے اختلاط کے سبب ایک ایک کر کے مٹنے لگیں۔ ایسے حالات میں ضرورت تھی کہ ایک عارف کامل اور مرد مجاہد کی جو اسلام کی مدافعت میں سینہ سپر ہو کر باطل کی قوتوں کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اپنے سینہ میں وہ عزم و جوش اور ولولہ پیدا کر کے میدان عمل میں آگے بڑھے کہ اس کی ہیبت و صولت سے قدم قدم پر کامرانی اس کی قدم بوسی کرے۔ اکبر کے عہد حکومت میں ہندو بڑی بڑی کلیدی آسامیوں پر فائز تھے۔ ہر جگہ ان کا اقتدار قائم تھا وہ بے خوف و خطر مسلمانوں کی دلآزاری کرتے۔ مسجدیں شہید کر کے وہاں مندر بناتے کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے حوائج ضروریہ سے فراغت پاتے۔ ہندوو?ں کے برت کا دن آتا ہے تو اکبر کی طرف سے تمام سخت حکم نافذ کئے جاتے کہ آج کے دن کوئی مسلمان روٹی نہ پکائے اور نہ کچھ کھائے پیئے۔ اس کے برعکس جب رمضان کا مہینہ آتا ۔ ہندو اعلانیہ کھاتے پیتے اور کھلے بندوں رمضان کے مہینے کی بے حرمتی کرتے۔ شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتے تھے۔

ان دنوں اکبر کا دارالحکومت بجائے دہلی کے آگرہ ہوتا تھا اور اس زمانے میں آگرہ کا نام اکبر آباد تھا۔ جناب شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہند سے آگرے کو روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے بڑی دلیری و بے باکی سے اکبر کے درباریوں سے فرمایا۔
?اے لوگو ?؛تمہارا بادشاہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے پھر گیا ہے اور اللہ کے دین سے باغی ہو گیا ہے۔ جاو? اسے میری طرف سے جا کر کہہ دو کہ دنیا کی یہ دولت و حشمت اور تخت و تاج سب فانی ہیں وہ توبہ کر کے خدا اور اس کے رسول کے دین میں داخل ہو جائے اور ان کی اطاعت کرے ورنہ اللہ کے غضب کا انتظار کرے۔ ?
درباریوں نے آپ کا پیغام لیا اور اکبر کو پہنچا دیا۔ لیکن اکبر نے سنی ان سنی کر دی اور مطلق پرواہ نہ کی۔ بلکہ الٹا آپ کو مباحثہ کا چیلنج کر دیا۔ جسے آپ نے فوراً قبو ل کر لیا۔ دنیا کو دین پر ترجیح دینے والے علماءاکبر کی طرف تھے۔ دنیا کو دین پر قربان کرنے والے چند بوریہ نشین اصحاب آپ کے ساتھ۔ مباحثہ کا انتظام ہو چکا تھا مگر کارکنانِ قضا و قدر کو منظور نہیں تھا کہ اکبر ایسے بے علم و بے دین بادشاہ کے دربار میں جناب محمد رسول اللہ کے دین پر مر مٹنے والوں کی رسوائی ہو۔ ابھی مباحثہ کا آغاز ہونے بھی نہ پایا تھا کہ ہوا کا ایک سخت طوفان آیا اور تمام دربار اکبری تہ و بالا ہو گیا۔ خیموں کی چوبیں اتنے زور سے اکھڑیں کہ ہزار کو ششوں کے باوجود پھر انہیں سنبھالانہ جا سکا۔ قدرت خدا کہ اکبر اور اس کے تمام ساتھی تو زخمی ہو گئے۔ لیکن جناب شیخ اور ان کے درویشوں میں سے کسی کو ایک خراش تک نہ پہنچی۔ مورخین کہتے ہیں کہ انہی زخموں کی وجہ سے جو مباحثہ کے دن خیموں کی چوبوں سے اکبر کو آئے اکبر کی موت واقع ہوئی۔ نیز لکھا ہے کہ مرنے سے پہلے وہ اپنے عقائد سے تائب ہوا اور بستر مرگ پر نئے سرے سے اسلام قبول کر کے دنیا سے گیا۔

اکبر کے مرنے کے بعد اب آپ کا دوسرا محاذ ان دنیا پرستوں کے خلاف قائم ہوا۔ جن کی خوشامد، چاپلوسی اور بے جا تعریف سے اکبر عقلِ سلیم سے محروم ہو کر دین الہٰی کے قائم کرنے کا مدعی ہوا۔ ان لوگوں میں علماءفضلاءبھی شامل ہیں اور وہ لوگ بھی شریک تھے جن کے اغراض محض سیاسی تھے۔ اب ہندوستان کے تخت پر تو شہنشاہ نورالدین جہانگیر تھا اور حکم اس کی ملکہ نورجہاں کا چلتا تھا۔ جہانگیر خود کہا کرتا تھا۔ ?ہم نے ایک سیر شراب اور آدھ سیر گوشت کے عوض سلطنت نورجہاں کو دے دی۔?
اللہ کے جن بندوں کو آداب محمدی آتے ہیں وہ آداب شاہی کی کبھی پرواہ نہیں کرتے۔ ایک طرف ہندوستان کا طاقتور بادشاہ اکبر، دوسری طرف اکبر کی حکومت سے ٹکر لینے والا اللہ کا وہ نیک بندہ جو بظاہر ایک بوریہ نشین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ معرکہ لوگوں کی نگاہ میں بڑی اہمیت حاصل کر گیا۔ حکومت کے بڑے بڑے اراکین سے معمولی سے معمولی آدمی تک سب کے دلوں میں آپ کی حق گوئی و بے باکی نے آپ کی شخصی عظمت ، عملی فضیلت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی روحانی قوت کا رعب و جلال بٹھا دیا۔ ایک خلق خدا آپکے حلقہ ارادت مندی میں داخل ہو گئی۔ دنیا پرست لوگوں کا وہ گروہ جس نے دین کے عا لموں کا لبادہ پہن کر بادشاہ کی مصاحبت و رفاقت اختیار کی۔ آپ کی دن پر دن بڑھتی ہوئی مقبولیت کو اپنے لیے سخت مہلک محسوس کیا۔ چنانچہ وہ آپ سے حسد کرنے اور آپ کے اثرو نفوذ کو کم کرنے کے لیے آپ کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلانے لگے۔ حتیٰ کہ آپ کے مکتوبات کی تحریف کر کے انہیں لوگوں میں پھیلانا شروع کیا۔ان بد باطن لوگوں کی کاروائیوں نے یہاں تک اثر کیا کہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی ایسے بزرگ ان کی باتوں میں آ گئے ۔ اور انہوں نے آپ کے خلاف کتابیں لکھیں اور آپ کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ جس کا انہیں بعد میں عمر بھر قلق رہا۔

حاسدوں نے آپ کے خلاف جہانگیر کے کان بھرنے کے لیے نورجہاں کو آلہ کار بنایا۔ نورجہاں چونکہ اپنے بھائی آصف جاہ کو ولی عہد سلطنت بنائے جانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور یہ لوگ اس کی تائید میں تھے۔ اس لیے اس آرزو کی تکمیل کے لیے اس سے جہاں تک بن پڑا۔ اس نے جہانگیر کو آپکے خلاف خوب اکسایا۔ آخر چند غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر جہانگیر نے آپ کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ تشریف لے گئے ۔ وہاں چند سوال و جواب ہوئے۔ آپ کے طرز کلام میں چونکہ کوئی ایسی بات پیدا نہ ہوئی جو قابل مواخذہ ہوتی۔ لہٰذا سلامتی کے ساتھ واپس آ گئے۔ بد باطن لوگوں نے دیکھا کہ ان کا پہلا وار ناکام گیا۔ اب انہوں نے دوسرا حربہ یہ اختیار کیا کہ جہانگیر کی نظروں سے وہ کتابیں گزاریں جو غلط فہمیوں میںپڑ کر شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے آپ کے خلاف لکھی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کر کے جہانگیر سے کہا کہ یہ شخص آپ کی حکومت کے لیے سخت خطرناک ہے۔ سجدئہ تعظیم جو اکبر بادشاہ کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ یہ اس کے خلاف اپنا فتویٰ دے چکا ہے۔ اس کے پاس اس وقت کم و بیش دو ہزار سوار ہیں۔ جو کسی وقت بھی آپ کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔ حاسدوں نے سوچا کہ یہ ہماری چال دوہرا اثر دکھائے گی۔ کہ اگر آپ نے بادشاہ کو سجدہ نہ کیا تو بادشاہ کے عتاب میں آجائیں گے اور اگر کر دیا تو اپنے مریدین سے جائیں گے۔ ان کے دلوں میں آپ کی فضیلت و عظمت مطلق باقی نہ رہے گی۔ جہانگیر کو مذہب کے معاملے میں حکومت زیادہ پیاری تھی۔ وہ یہ باتیں سن کر تلملا اٹھا ۔ اس نے فوراً آپ کو ربار میں حاضر کیے جانے کا حکم دیا۔ آپ دربار میں تشریف لے گئے۔ لیکن سجدہ شاہی جس کا وہ طالب تھا۔ قطعاًادا نہ کیا۔ اس پر جہانگیر غضب ناک ہوا۔ آپ نے جہانگیر سے بڑی دلیری کے ساتھ پوچھا۔ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ اپنے لیے سجدہ تعظیم ؟ اللہ کا بندہ کبھی غیر کا بندہ نہیں ہو سکتا۔ جو حاکموں کے حاکم کی بارگاہ میں سر جھکائے وہ کبھی کسی چھوٹے اور مٹ جانے والے حاکم کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا۔ بھلا میں اپنے ہی جیسے ایک مجبور و بے بس انسان کو سجدہ کروں۔ ہر گز نہیں ۔ کیونکہ سجدہ خدا کے سوا کسی کو جائز نہیں۔

جہانگیر آپ کے یہ کلمات سن کر آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا۔ کہ کوئی شخص اتنی دلیری، بے باکی اور جرا?ت سے گفتگو کرے گا۔ اس نے فوراً آپ کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا۔ ? اللہ اکبر ? حکم قتل پا کر آپ کے چہرے پر مطلق کسی پر یشانی اور خوف و ہراس کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔ نہایت استقلال اور حوصلے کے ساتھ کھڑے رہے۔ مگر اس خدا کی حکمت دیکھئے۔ کہ تھوری ہی دیر میں جہانگیر نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور بجائے قتل کے قید کیے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ قید کر دیے گئے اس کے علاوہ جہانگیر کے حکم سے آپ کا گھر بھی لوٹا گیا۔ یہ وقت اصل میں وہ تھا کہ جس کی پیشن گوئی آپکے قیدہونے سے بہت پہلے اپنے درویشوں مریدوں اور معتقدوں سے کر چکے تھے۔ آپ کے قید کیے جانے کی اطلاع پا کر سب سے پہلے شاہجہاں نے آپ سے رجوع کیا۔ اس نے اپنے خاص الخاص دو معتمد افضل خان اور خواجہ عبدالرحمان کو آپ کی خدمت میں بھیجا اور فقہ کی وہ کتابیں جن میں سجدہ تعظیمی کی اباحت بیان کی گئی تھی۔ ہمراہ بھیجیں اور کہلا بھیجا کہ اگر آپ بادشاہ سے ملاقات کے وقت سجدہ تعظیمی کر لیں تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کو مطلق کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔آپ نے شاہجہاں کے پیغام میں اسے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ ہر چند جان بچانے کے لیے یہ بھی جائز ہے۔ لیکن عزیمت اسی میں ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے۔ جہانگیر نے حکومت کے بڑے بڑے اراکین کو آپ کے قید کئے جانے سے پہلے ہی مختلف علاقوں کے گورنر بنا کر ادھر ادھر بھیج دیا تھا۔ مصلحت اس کے نزدیک یہ تھی کہ آپ کے اوپر گرفت کرنے میں اسے آسانی رہے۔ لیکن جب ان گورنروں کو آپ کی گرفتاری کا علم ہوا تو سب نے آپس میں ایکا کر کے جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی حتیٰ کہ مہابت خان، مرتضیٰ خان، تربیت خان ، سید صدر جہاں، اسلام خان، خان جہاںلودھی ، حیات خان، دریا خان، غرض یہ کہ آپ کے تمام معتقدین جہانگیر کے مقابلے کو نکل ا ئے۔

مہابت خا ن نے بادشاہان بدخشان و خراسان اور تران سے امداد لے کر جہانگیر پر لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ جہانگیر بھی اپنی فوج و سباہ لے کر مقابلے کو نکلا۔ ابھی دونوں لشکر مقابلہ پر آنے ہی کو تھے کہ جہانگیر کے لشکر سے بہت سے آدمی مہابت خان سے جا ملے۔ آخر جہانگیر اور آصف جاہ دونوں کو مہابت خان نے گرفتار کر لیا اور خطبے و سکے سے اس کا نام باہر نکال دیا۔ اس کے بعد مہابت خان نے آپ کی خدمت درخواست کی کہ ہماری خواہش ہے کہ مغل سلطنت کے تخت شاہی پر اب آپ جلوہ افروز ہوں۔ آپ نے اس کے جواب میں مہابت خان کو لکھا۔ مجھے سلطنت پانے اور حکومت کرنے کی ہر گز ہوس نہیں اور میں تمہارے اس فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا۔ میں نے جو قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں وہ کسی اور مقصد کے لئے ہیں۔ وہ مقصد جب پورا ہو جائے گا تو میں آپ سے آپ قید سے رہائی پا لوں گا۔ یہ فساد میرے مقصد میں حائل ہے بہتر ہے کہ تم بغاوت سے باز آجاو? اور فوراً اپنے بادشاہ کی اطاعت قبول کر لو ۔ میں بھی انشاءاللہ جلد ہی قید سے رہائی پا لوں گا۔ اسی اثنا میں نور جہاں کو بھی گرفتار کیا جا چکا تھا کہ جہانگیر و آصف جاہ کی گرفتاری کی اطلاع پر انہیں چھڑانے آئی تھی قریب تھا کہ مہابت خان کے غیض و غضب سے یہ تینوں اپنے کیے کی سزا پا لیتے کہ آپ کا خط آ گیا۔ مرشد کے حکم کی تعمیل کی ۔ مہابت خان جہانگیر کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ کو مرشد کے حکم سے رہا کرتا ہوں اور اس کے بعد جہانگیر کو تخت شاہی پر بٹھا کر تمام آداب شاہی بجا لایا۔

تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ آپ کامل ایک برس تک زنداں میں پڑے رہے۔ جہانگیر نے جب دیکھا کہ ان کے مریدوں نے جوش محبت میں آکر بغاوت کی اور قریب تھا کہ سلطنت مغلیہ کا چراغ گل کر دیا جاتا ?۔ ایسے حالات میں بھی آپ نے سلطنت سے کوئی دل چسپی نہیں لی۔ بلکہ انہوں نے اپنے مریدوں کو بغاوت سے روک دیا تو اس کے دل میں بد کردار لوگوں کے پیدا کیے ہوئے آپ کے خلاف شکوک و شبہات جاتے رہے اور اس نے آپ کو نہایت ادب و احترام کے ساتھ رہا کر دیا۔ جو اللہ کے ہو جاتے ہیں اللہ ان کاہوجاتا ہے۔ بھلا ان کی نگاہوں میں دنیا کی کیا قدر و قیمت رہتی ہے۔ جہانگیر نے واقعات کی روشنی میں ایک طرف آپ کی بے نفسی دیکھی تو دوسری طرف نور جہاں اور اس کے بھائی آصف جاہ کی سازشوں کو دیکھ لیا۔ جناب شیخ سرہندی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ آصف جاہ اور نورجہاںکی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس کے بعد جہانگیر کو آپ سے اتنی عقیدت پیدا ہوئی کہ کشمیر سے آتے جاتے دو مرتبہ آپ کے لنگر یا باورچی خانے سے کھانا کھاتا۔ اگرچہ کھانا سادہ ہوتا۔ لیکن وہ تعریف کئے بغیر نہ رہتا۔ کہتا۔ کہ میں نے ایسا لذیذکھانا آج تک نہیں کھایا۔تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ جہانگیر آخیر عمر میں اکثر یہ بات کہا کرتا کہ میں نے کوئی کام ایسا نہیں کیا جس سے نجا ت کی امید ہو۔ البتہ میرے پاس ایک دستاویز یہ ہے۔ کہ مجھ سے ایک روز جناب شیخ احمد سرہندی نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں لے جائے گا تو ہم تیرے بغیر ہر گز نہیں جائیں گے۔ غرض یہ تھے وہ احوال مسلمانوں اور برائے نام مسلمان حکومت کے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کے ایمان کی تجدید کرنے کا موقع دیا اور آپ کو الف ثانی کا مجدد بنا دیا۔ جیسا کہ یہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے۔ آپ نقشبندی سلسلے کے بزرگ خواجہ باقی باللہ کے مرید ہوئے۔ اس لئے آپ سے تصوف کا جو سلسلہ آگے چلا اسے مجددیہ نقشبندیہ کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جناب خواجہ بہاو?الدین نقشبندی سے شروع ہوتا ہے۔ تذکرہ نگاروں نے اس کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی ہے کہ وہ کپڑے پر نقش و نگار اور گل بوٹے نکالنے کا کام کرتے تھے۔ حق تو یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ بھی حضرت علیہی پر جا کر منتہی ہوتا ہے۔ جو لوگ اسے حضرت صدیق اکبر سے جا ملاتے ہیں وہ صرف اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ جناب امام جعفر صادق کو اپنے نانا جناب ابو بکر صدیق سے بھی انتساب حاصل ہے۔
شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی رائے۔
جناب شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی نے اپنی کتاب ?قول جمیل? میں نقشبندی طریقت کا شجرہ اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ احمد سرہندی نے خواجہ باقی بااللہ سے فیض باطنی حاصل کیا۔ جناب خواجہ نے خواجہ محمد امکنگی سے ۔ جناب امکنگی نے مولانا محمد درویش اور مولانا محمد زاہد سے جناب زاہد درویش نے خواجہ عبیداللہ احرار سے احرار نے مولانا یعقوب چرخی اور خواجہ علاو?الدین غجد وانی سے غجدوانی و چرخی نے خواجہ علاو?الدین عطار اور خواجہ محمد پارسا سے۔ پارسا و عطار نے خواجہ بہاو?الدین بانی سلسلہ نقشبندیہ سے۔ خواجہ نقشبند نے بہت سے بزرگوں کی صحبت پائی جن میں سب سے زیادہ مشور خواجہ محمد سماسی اور ان کے خلیفہ امیر سید کلال ہیں۔ خواجہ سماسی نے خواجہ علی رامتینی سے انہوں نے خواجہ محمود ابو الخیرفغنوی سے فغنوی نے عارف کریوی سے۔ کریوی نے خواجہ عبدالخالق غجدوانی سے غجدوانی نے خواجہ یوسف ہمدانی سے۔ ہمدانی نے جناب علی نارمدی سے ۔ نارمدی کے بہت سے مشائخ تھے۔ جن میں سے امام ابوالقاسم قشیری اور خواجہ ابو القاسم گرمانی خاص کر مشہور ہیں۔ گرمانی و قشیری نے جناب ابو بکر شبلی سے شبلی نے سیدالطائفہ جناب جنید بغدادی سے ۔ بغدادی نے اپنے ماموں شیخ سری سقطی سے سقطی نے معروف کرخی سے ۔ کرخی نے بہت مشائخ کے علاوہ امام علی بن موسیٰ رضا سے ۔ موسیٰ رضا نے اپنے والد امام موسٰی کاظم سے۔ جناب کاظم نے اپنے والد امام جعفر صادق سے ۔ جناب صادق نے اپنے والد امام باقر سے ۔ جناب باقر نے اپنے والد امام زین العابدین سے۔ جناب زین العابدین نے اپنے والد جناب امام حسین سے اور انہوں نے جناب علی بن ابی طالب سے ۔ علی بن ابی طالب نے جناب محمد رسول اللہ سے فیوضات باطنی حاصل کیے۔

شاہ ولی اللہ لکھتے کہ جناب معروف کرخی کے دوسرے مشہور شیخ ۔ شیخ داو?د طائی ہیں۔ جو فضیل، حبیب عجمی اور ذوالنون مصری کے فیضیافتہ تھے اور ان تینوں بزرگوں نے تابعین اور تبع تابعین سے بہت سے شیوخ کی صحبت و برکت سے فیض حاصل کیا۔ جناب خواجہ کو جناب علی ابن ابی طالب کے شاگرد و مرید ہونے کی سعادت میسر آئی۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں امام جعفر صادق کو اپنے نانا جناب قاسم بن ابو بکر صدیق سے بھی انتساب حاصل ہے۔ جناب قاسم نے سلمان فارسی سے فیض پایا۔ جناب فارسی نے ابوبکر صدیق سے اور ابو بکر صدیق نے جناب محمد رسول للہ سے فیض پایا۔
افکار و نظریات:۔
ابتدا میںجناب مجدد نظریہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ چنانچہ جب اسی عقیدے کی روشنی میں آپ نے ایک رباعی لکھ کر جناب خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں پیش کی تو جناب خواجہ نے اپنے بلند اقبال اور طالع مند مرید مجدد الف ثانی کو فوراً ایک خط لکھا اور سختی سے تنبیہہ کی کہ وہ ملحدانہ رباعی جو آپ نے لکھی تھی ۔ آپ نے اس میں بہت ہی نا سمجھی اور کم عقلی کی ہے۔ ایسی لغو رباعی لکھنے والا مقبول نہیں ہو سکتا اس لیے ادب کو نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بڑ ا غنی اور غیر ت مند ہے۔ مرید با سعادت نے مرشد کامل کے فرمان کو چشم بصیرت سے دیکھا اور گوش ہوش سے سنا اور مراد کو پہنچ گئے۔ چنانچہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابتداً مجھے سلوک کی تین منزلوں سے گزرنا پڑا۔ ?اولاًوجودیت? دوم ?قلیت?سوم? عبدیت? یعنی پہلے مرحلے میں جناب مجدد الف ثانی وحدت الوجو د کے قائل تھے اور کائنات میں عیفیت کا اعتراف کرتے تھے۔ دوسرے مرحلے پر پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ کائنات کا سجود تو ہے۔ لیکن وہ حقیقت مطلقہ کاظل ہے۔ یہاں دوئی کا تصور پیدا ہوا اور ان کی نگاہ میں وحدت الوجود کے مسئلے کی صداقت کھٹکنے لگی۔ پھر جب آپ عبدیت کے مقام پر پہنچے تو خداداد کائنات میں دوئی بدرجہ اتم ثابت ہو گئی اور انہوں نے مسئلہ وحدت الوجود کو باطل ثابت کر دیا۔

وحدت الوجود:۔ خدا کے سوا عالم میں کوئی اور شے ہے ہی نہیں یا جو کچھ ہے وہ ہے ہم سب۔۔۔۔۔۔ہم سب کچھ نہیں اس عقیدے یا نظریے کا نام وحدت الوجود یا ہمہ اوست ہے۔ اس عقیدے کی رو سے صوفیوں کے نزدیک یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا کے سلسلہ کائنات سے ایک الگ اور جداگانہ ذات ہونے کا خیال صحیح نہیں۔ جیسا کہ اہل ظاہر کی رائے ہے اگرچہ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کائنات سے الگ نہیں تمام صوفیائے کرام کے نزدیک تسلیم شدہ امر ہے۔ لیکن اس عقیدے کی تعبیر میں ان کے یہا ں بھی اختلاف ہے مولانا روم کہتے ہیں کہ لوہا جب آگ میں گرم کیا جاتا ہے تو وہ گرمی? آتش پکڑ کر ہمرنگ آگ بن جاتا ہے اگرچہ وہ آگ نہیں بن جاتا۔ تا ہم اس میں آگ کی تمام خاصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حتی ٰ کہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ آگ ہو گیا ۔ وجود صوفیاءکہتے ہیں کہ حدیث نبوی میں ہے۔ کہ ?خلق الآدم علیٰ صورتہ? ????یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ اسی مناسبت سے انسان میں جو مختلف صفات پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب صفات ربانی ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مظہر خدا وندی ہیں۔

صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں۔ مثلاً رحیم ۔ ستار ۔ غفار۔ قھار ۔ جبار ۔ رزاق یعنی مسمی واحد اور اسماءسے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہر اسم سے ایک ہی ذات مراد لی جاتی ہے۔ گویا اس اعتبار سے واحد مسمی کے متعدد اسماءاس کے عین ہیں اور یہ تمام اسماءاس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ صفات سے ممکنات کا ظہور ہوا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کی ہر شے کسی نہ کسی اسم کی مظہر ہے۔ اس لئے ثابت یہ ہوا ہے کہ موجودات کی ہر چیز عین ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا ظلّ اور ان کی اصل ہے۔ کائنات اس کا ظلّ اور ظلّ حقیقت میں اصل کا مظہر ہوتا ہے۔ جیسے انسان کا جب زمین پر سایہ پڑتا ہے تو بظاہر وہ ایک الگ شے معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں جو کچھ ہے انسان ہی ہے۔ اسی طرح کائنات کا وجود غیر حقیقی اور صرف خیال ہے۔ وجو د صرف خدا کا ہے۔ کائنات و کثرت صرف وحدت کے اعیان و مظاہر کی حیثیت سے دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ اس کے اپنا کوئی وجو دنہیں۔ اس لئے وجودہے وہ وحدت ہی کا ہے۔ وحدت کے اس عقیدے کی بدولت بعض اذہان اس خیال کی طرف جاتے ہیں کہ فرعون جو خدا ہونے کا مدعی ہوا۔ اس نے کیا غلط کیا اور انا الحق کی جو آواز منصور کے منہ سے نکلی اس میں کیا برائی تھی ۔ جب وحدت الوجود کے نظرئیے کی رو سے ہر شے خدا ہے تو ناحق ان لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ در حقیقت یہ مسئلہ اس قدر نازک ہے کہ اگر اس کی تعبیر میں ذرا سی بھی لغزش ہو جائے تو اس کی حدیں کفرو الحاد اور زند یقیت سے جا ملتی ہیں۔

وحدت الشہود:۔گیارہوی صدی ہجری میںجناب مجدد الف ثانی نے شیخ اکبر کے وحدت الوجود کے عقیدے کی تردید کی۔ شیخ اکبر ابن عربی کا استدلال یہ تھا کہ ذات صفات کی عین ہے۔ کائنات ، صفات کی تجلی ہے اور چونکہ صفات ۔عین ذات ہیں اس لیے کائنات بھی عین ذات ہے۔ جناب مجدد نے فرمایا۔ صفات عین ذات نہیں بلکہ زائد علی الذات ہیں۔ ا للہ تعالیٰ کا وجود اپنی ذات میں کامل ہے۔ اسے اپنی تکمیل کے لیے صفات کی احتیاج نہیں۔ صفات اس کے وجود کے تعنیات ہیں۔ وہ موجود ہے لیکن اس کا وجود خود اس کی ذات سے ہے۔ وہ سمیع ہے اپنی ذات سے وہ علیم ہے اپنی ذات سے۔ وہ بصیر ہے۔ اپنی ذات سے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی صفات ۔ عین ذات نہیں بلکہ اس کی ذات کے اظلال ہیں۔ پس مجدد صاحب کے اس نظریئے سے یہ معلوم ہوا کہ کائنات اس کی صفات کی تجلی کا نام نہیں بلکہ اس کی صفات کا ظلّ یعنی پر تو یا سایہ ہے اور ظلّ کبھی عین اصل نہیں ہوتا اور مظہر کبھی عین ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ ہے مجدد صاحب کا وہ نظریہ جسے عقیدہ وحدت الشہود کہتے ہیں۔ بقول مولانا شبلی کے وحدت الوجود اور وحدت الشہو د کے نظریے میں فرق یہ ہے کہ وحدت الوجود کے عقیدے کے لحاظ سے ہم ہر شے کو خدا کہہ سکتے ہیں ۔ جس طرح حباب اور موج کو بھی پانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن وحدت الشہود میں یہ اطلاق جائز نہیں۔ کیو نکہ جس طرح انسان کے سائے کو انسان کہنا محال ہے۔ اسی طرح اظلال صفات کو خدا نہیں کہا جا سکتا۔ مظہر کے عین ظاہر نہ ہونے کے باب میں جناب مجدد فرماتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک صاحب فن اپنے طرح طرح کے کمالات کا اظہا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ حروف واصوات ایجاد کرتا ہے۔ یہ حروف و اصوات کمالات کا آئنہ بن کر کمالات کے ظہور کا باعث بنتے ہیں لیکن ان حروف و اصوات کو جو مرایائے کمالات ہیں عین کمالات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پس یہ بات قطعی طے ہو گئی کہ اس کائنات کو صفات ذات کا مظہر تسلیم کر لینے سے بھی مظہرعین ظاہر ثابت نہیںہو سکتا۔

شیخ اکبر نے کائنات کی نفی سے وحدت کے وجود پر جو استدلال کیا ہے جناب مجدد کے نزدیک یہ بات شیخ نے مقام فنا میں کہی ہے وہ فرماتے ہیںکہ جب صوفی اس مقام سے کسی بلند تر مقام پر پہنچتا ہے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ فنا کے مقام میں محبوب کی محبت کے غلبے کے باعث ہر چیز مستور ہو جاتی ہے اور چونکہ صوفی محبوب کے علاوہ کسی کودیکھتا ہی نہیں اس لیے وہ محبوب کے سوا کسی شے کو موجود نہیں پاتا۔ اگرچہ شیخ اکبر نے اثبات باری تعالیٰ سے کائنات کی نفی پر استدلال کیا ہے تا ہم جناب مجدد کہتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کے اثبات سے کائنات کے وجود سے انکار لازم نہیں آتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص آفتاب کے وجود کا یقین رکھتا ہے تو اس یقین محکم سے یہ لازم نہیں کہ وہ آفتاب کے چمکنے پر ستاروں کو پیش نظر نہ پا کر سرے سے ان کے وجود ہی سے انکار کر دے۔ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ستارے ہیں لیکن آفتاب کے نور کی تابش سے مستور ہو گئے ہیں۔ اس لئے وہ ان کے وجود کا منکر نہیں ہو سکتا اسی طرح ذات باری تعالیٰ کے اثبات سے کائنات کی نفی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ در حقیقت وجود کائنات کی نفی کرنا تعلیمات اسلام کے یکسر خلاف اور منشائے وحی الٰہی کے بالکل برعکس ہے۔ مجدد صاحب فرماتے ہیں۔ کہ اگر کائنات کا وجود نہ ہو تو جملہ اوامرو نواہی سب کے سب عبث و بیکار ٹھہرتے ہیں ۔ ان کا پھر کوئی معنی و مقصد سمجھ میںنہیں آتا اور تمام عقائد باطل ہو جاتے ہیں غرض عذاب و ثواب۔ جزاو? سزا۔ اجر و گناہ دین و دنیا۔ عقبی و آخرت یہ تمام باتیں بے معنی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر کائنات کا واقعی کوئی وجود نہیں تو پھر خدا نے کس شے کو بنایا۔ اس کی وہ کیا مخلوق ہے جس کا وہ خالق ٹھہرا۔ ؟پس یہ ماننا پڑے گا کہ کائنات کا وجود ہے۔

آیت قرآنی (ترجمہ)کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اس سے شیخ اکبر نے قربت کو جو ? عینیت ? قرار دیا ہے۔ مجدد صاحب نے اس سے بھی اختلاف کیا ہے۔ آپ کے نزدیک قربت کو عینیت خیال کرنا صحیح نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب اس کی کیفیت کا فہم و ادراک ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارے دماغ اور ذہن اس کے مفہوم کا تعین کس طرح کر سکتے ہیں اور قربت کو کیونکر عینیت قرار دے سکتے ہیں ۔ نیز اس حدیث نبوی کے بارے میں (ترجمہ)کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ مجدد صاحب کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مجسمہ ہے یا انسان عین خالق ہے بلکہ اس سے کہنا یہ ہے کہ ?روح ربانی? کی طرح ?روح انسانی? بھی لامکانی ہے اور اسی اعتبار سے دونوں میں مشاہبت ہے۔ بصورت دیگر خالق و مخلوق میں قطعاً کوئی عینیت نہیں ہو سکتی مجدد صاحب فرماتے ہیں۔ ایک مکڑی جو بڑے حزم و احتیاط سے اپنا جالا بناتی ہے۔ ا س ذات سے کیونکر عینیت کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ جو پلک چھپکنے میں زمین و آسمان کو درہم برہم کر سکتی ہے۔ مجدد صاحب کے نزدیک ?من عرف نفسہ فقد عر ف ربہ ? سے بھی انسان کا عین خدا ہونا ثابت نہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ معرفت نفس کا مقصد یہ ہے ک کسی شخص کے اپنے نقائص و محاسن اس کی ذا تی کوششوں سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل و کرم سے حاصل ہوتے ہیں۔ تمام کمالات و محاسن کا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سر چشمہ ہے اور صرف اسی نقطہ نظر سے معر فت نفس اللہ کی ذات کی معرفت کا ذریعہ قرار پا سکتی ہے۔

سلسلہ نقشبندیہ کی خصو صیات:۔نقشبندی سلسلہ جسے ہندوستان میں خواجہ باقی باللہ نے قائم کیا اور ان کے بعد آپ کے مرید یگانہ روزگار جناب مجدد الف ثانی نے اسے ترقی دی یہ سلسلہ اسلام کی شریعت کے عین مطابق ہے۔ تصوف کے دوسرے سلسلوں کی طرح اس میں شریعت اسلامی سے مطلقاً کوئی آزادی نہیں۔ مثلاًسجدہ تعظیمی ۔ قبروں پر روشنی ، غلاف اور چادر ڈالنا، پیروں کے قدم چومنا، مرید عورتوں کا اپنے پیروں سے بے پردہ رہنا غرض اس قسم کی تمام باتوں کی قطعاً اجازت نہیں۔ نقشبندی سلسلے میں یہ تمام باتیں شریعت اسلام کے با لکل خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ چلہ کشی، ذکر با الجہر اور سماع با لمز امیر وغیرہ مراسم اختیار کرنے بھی مناسب نہیں سمجھے جاتے۔ نقشبندیوں کو صحابہ کرام کی سے زندگی ۔ انہی کی طرح بودوباش ، وضع قطع اور معاشرت اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور نقشبندی سلسلے میں صحابہ کرام تمام اولیائے عظام سے افضل مانے جاتے ہیں ۔ المختصر شریعت اسلام کی تمام و کمال پیروی کرنا اس مسلک کی بنیاد اولین ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں جناب مجدد صاحب فرماتے ہیں۔ بعض درویشوں پر مجھے تعجب ہوتا ہے۔ کہ وہ شریعت کی مخالفت پر جرا?ت کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت وہ شے ہے کہ اگر جناب عیسیٰ و موسیٰ بھی ہمارے پیغمبرجناب محمد رسول اللہ کے بعد ہوتے تو وہ بھی اس شریعت کے تابع ہوتے۔ نقشبندی سلسلہ جناب مجدد کی مساعی سے ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گیا اور ہندوستان سے باہر بھی نقشبندی سلسلے کے مراکز قائم ہوئے جنہیں آپ کے بے شمار خلفاءو مریدین نے آپ کے بعد اپنی کوششوں سے مضبوط و مستحکم کیا۔

جناب مجدد مکتوبات کے آئنہ میں:۔ردّ بدعت ، مخالفت شیعت اور احیائے اسلام یہ تین موضوع جناب مجدد کی تمام تر مساعی کا ماحصل ہیں۔ آپ کے مکتو بات کے مضامین انہی تین امور پر مشتمل ہیں۔ وہ لوگ جو گوشہ تنہائی میں تسبیح لئے بیٹھے تھے۔ جن کو دنیا کے کاموں سے مطلق کوئی سروکار نہ تھا۔ جن کو صرف گوشہ عافیت ہی میں بھلائی نظر آتی تھی۔ جناب مجدد نے انہیں دلیر کیا۔ ان کی ہمت بندھائی اور ان سے کہا کہ یہ وقت نہیں ہے کسی کونے یا گوشے میں جا کر بیٹھ رہنے کا۔ یاد خدا کرنا ہے تو میدان عمل میں آو? تسبیح کے دانے بکھرے ہوئے ہیں انہیں قوت عمل سے پرونے کی ضرورت ہے۔ اٹھو اور خدا کی راہ میں جہاد کرو کہ اس وقت یہ جہاد ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے کفر کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگر وقت پر اس کی مدافعت نہ کی گئی تو یاد رکھو کہ تم دنیا سے مٹ جاو? گے اور کہیں تمہارا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ جناب مجدد کے حساس دل پر خلاف اسلام واقعات کا بڑا اثر تھا۔ اس لیے وہ صرف بادشاہ کے مخالف نہ تھے بلکہ غیر مسلموں سے بھی سخت نفرت کرتے تھے اور جزبہ انتقام ہر وقت ان کو بے چین کئے رکھتا تھا۔ اگرچہ اکبر کا دور ختم ہو چکا تھا۔ جملہ معترضہ کے طور پر اکبر کے بارے میں یہ بات مکرر سمجھئے کہ وہ کفر سے تائب ہو کر مرا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے مرتے وقت کلمہ شہادت دہرایا۔ سورة یٰسین پڑھوا کر سنی غرض اکبر کے بعد شہنشاہ جہانگیر کا دور حکومت شروع ہوا اور جہانگیر بھی کون؟ اکبر کا وہ بیٹا جو اکبر کے دین الٰہی کو پھیلانے اور اس کے ممدو مدگار بننے والے ابو الفضل ایسے لوگوں کا سخت مخالف بلکہ جانی دشمن تھا اور وہ جہانگیر جسے خواجہ باقی باللہ کے رکن السلطنت نواب مرتضیٰ خان شیخ فرید ایسے بااثر مرید نے صرف اس شرط پر اپنی ذات کا اعتماد بہم پہنچایا اور اس کی تخت نشینی کا اہتمام کیا تھا کہ وہ اسلام کی شریعت کے خلاف نہ چلے گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہندوو?ں کی ناشائستہ اور دلآزار حرکتیں دن پر دن پڑھتی چلی جا رہی تھیں۔ جناب مجدد کے حساس دل پر ان اخلاق سوز و نا شائستہ حرکات کا گہرا اثر تھا۔ ان تمام باتوں کے سبب نہ صرف بادشاہ کے خلاف تھے بلکہ ان کو ہندوو?ں سے بھی سخت نفرت تھی۔ یہاں تک کہ ہندوو?ں سے انتقام لینے کا جذبہ انہیں ہر وقت بے چین کئے رکھتا تھا۔ چنانچہ شیخ فرید کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔ کفار بے تحاشہ مسجدوں کو شہید کر کے وہاں مندر بنا رہے ہیں۔ تھانیسر میں حوض کر کھیت کے درمیان ایک مسجد اور ایک بزرگ کا مقبرہ تھا۔ اسے گرا کر اس کی جگہ بڑا بھاری مندر تعمیر کرایا ہے۔ اس کے علاوہ کفار اپنی رسموں کو کھلم کھلا ادا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان کی شرارتوں اور مخالفتوں کے سبب اکثر اسلامی احکام کے بجا لانے سے قاصر ہیں ایکا دشی کے دن ہندو کھانا ترک کر دیتے ہیں کہ اسلامی شہروں میں بھی کوئی مسلمان اس روز روٹی نہ کھائے اور نہ بیچے اور ماہ رمضان المبارک میں ہندو برملا نان و طعام پکاتے اور بیچتے ہیں۔ مگر اسلام کے مغلوب ہونے کے باعث انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ ہائے افسوس بادشاہ وقت ہم میں سے ہو اور پھر ہم فقیروں کا اس طرح خستہ اور خراب حال ہو۔

ایک خط میں انہی کے نام یوں لکھتے ہیں۔ پس اسلام کی عزت کفر اور کافروں کی ذلت میں ہے۔ جس نے کافرںکو عزیز رکھا۔ پس اس نے اسلام کو خوار کیا۔ کفار کے عزیز رکھنے سے فقط تعظیم کرنا اور بلند بٹھانا ہی مراد نہیں۔ بلکہ اپنی مجلسوں میں جگہ دینا۔ ان کی ہم نشینی کرنا اور ان کے ساتھ گفتگو کرنا ۔ سب اعزاز میں داخل ہے ۔ کتوں کی طرح ان کو دور کرنا چاہئے اور اگر دنیا وی غرض ان سے کوئی ہو اور بغیر انکے حاصل نہ ہوتی ہو تو پھر بھی بے اعتباری کے طریق کو مدّنظر رکھ کر ضرورت کے مطابق ان سے میل جول رکھنا چاہئے اور کمال اسلام تو یہ ہے کہ اس دنیاوی غرض سے بھی درگزر کریں اور ان کی طرف نہ جائیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی عزت ۔ کفر اور کافروں کی ذلت میں ہے۔ جزیہ سے مقصود کافروں کی خواری اور ان کی اہانت ہے جس قدر اہل کفر کی عزت ہو۔ اسی قدر اسلام کی ذلت ہوتی ہے اس سر تشتہ کو اچھی طرح سے نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ اکثر لوگوں نے اس سرتشتہ کو گم کر دیا ہے۔ اور دین کو برباد کیا ہے۔ شیخ فرید کانگڑہ کی فتح پر مامور تھے۔ اس علاقہ میں ہندوو?ں کا ایک بہت بڑا تیرتھ تھا۔ جس میںپرانی مورتی تھی۔ جناب مجدد چاہتے تھے ۔ کہ شیخ فرید اس کے توڑنے کی سعادت حاصل کریں چنانچہ لکھتے ہیں? ان بد بختوں اور ان کے جھوٹے خداو?ں کی تحقیر و توہین میں بہت کوشش کرنی چاہیے اور ظاہر و باطن میں جس قدر ہو سکے ان لوگوں کی بربادی و تباہی کا سامان پیدا کرنا چاہئے اور اس تراشیدہ و نا تراشیدہ بت کی ہر طرح سے اہانت کرنی چائے۔ امید ہے کہ بعض کوتاہیاں جو آپ سے وقوع میں آئی ہیں اس سے ا ن کی تلافی اور کفارہ ادا ہو جائے ۔بدن کی کمزوری اور سردی کی شدت مانع ہے ورنہ فقیرخود حاضر خدمت ہو کر اس امر کی ترغیب دیتا اور اس تقریب سے اس پتھرپر تھوکتا اور اسے اپنی سعادت کا سرمایہ جانتا۔

جناب مجدد مذکورہ بالا خیالات کی روشنی میں بظاہر ایک متشدد و متعصب شخصیت نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ ایسے نہیں تھے۔ چنانچہ اس خیال کے تحت وہ مرزا جعفر بیگ کے خط کے جواب میںلکھتے ہیں۔ ? میرے مخدوم جب کفار قریش نے اپنی کمال بدنصیبی سے اہل اسلام کی ہجو اور برائی میں مبالغہ کیا۔ تو جناب محمد رسول اللہ نے اسلام کے شاعروں کو حکم دیا کہ وہ کفار نگونسار کی ہجو کریں ۔ اس خط کے بیان سے یہ بات بالکل واضع ہو جاتی ہے کہ جناب مجدد الف ثانی کا یہ نقطہ نظر ہندوو?ں کے خلاف ان کی جارحانہ کاروائیوں کے باعث قائم ہوا۔ اصل میں اکبر نے ہندوو?ں کی جو تالیف قلوب کی یعنی انہیں جزیہ معاف کر دیا اور انہیں خوش کرنے کے لیے مسلمانوں پر گائے کی قربانی دینا خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس سے ہندوو?ں میںہندو مذہب کے احیاءکی تحریک زور پکڑ گئی۔ قریب تھا کہ ہندو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے کہ عین وقت پر جناب مجدد مقابلے پر آ گئے اور انہوں نے طرح طرح کی صعوبتیں اور قیدو بند کی مشقتیں اٹھا کر مسلمانوں کو برکشتگی سے بچا لیا۔ ورنہ اکبر کے ملحدانہ خیالا ت کا سہار الے کر ہندو تو چاہتے ہی یہی تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اسلام سے بر گشتہ کرنے میںکامیاب ہوجائیں۔ دراصل ہندوو?ں نے جہاں تک ظلم و تعدی سے ہو سکا اس سے کام لے کر ہندوستان کی ان قوموں کو اسلام سے پھیرنے کی بھر پور کوشش کی جوبزرگان دین کی ستو دہ صفات اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے زیر اثر اسلام قبول کر چکی تھیں اور جہاں بس نہ چلا وہاں اسلام کو ضعف پہنچانے کے لیے انہوں نے بھی اسی پالیسی کو اختیار کیا۔ جیسے ان سے کہیں پہلے وہ عجمی اختیار کر چکے تھے جو صرف ہنگامی حالات کے تحت مسلمان ہو گئے تھے۔ مگر دل سے اسلام کی بھلائی نہیں چاہتے تھے بلکہ اندر ہی اندر اسلام کی جڑیں کھو کھلی کرنے میں لگے رہے چنانچہ اسی پالیسی کے تحت ہر دے رام ایک ہندو نے جناب مجدد کی خدمت میں دو خط لکھے تھے۔ جس میں اس نے صوفیائے اسلام سے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اصل میں رحمان اور رام ایک ہی ذات کے دو نام ہیں مگر جناب مجدد ہر دے رام کے ان خطوں سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے۔ فوراً اس کے خبث باطن کو تاڑ گئے۔ چنانچہ آپ نے اس کے خطوں کے جواب میں ایک نہایت تہدید آمیز خط ارسال کیا۔ جس میںآ پ نے تحریر فرمایا تھا۔ کہ?رام اور کرشن جو ہندوو?ں کے معبود ہیں اللہ تعالیٰ کی کمینہ مخلوقا ت میںسے ہیں اورماں باپ سے پیدا ہوئے۔ رام جسرتھ کا بیٹھا تھا۔ لکشمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا۔ جب رام اپنی بیوی کو نگاہ میںنہ رکھ سکا تو پھر وہ دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ عقل دور اندیش سے کام لینا چاہئے اور ایک دوسرے کی دیکھادیکھی پر نہ چلنا چاہئے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ کہ تمام عالمین کے پیدا کرنے والے کو رام یاکرشن کے نام سے یاد کیا جائے ۔ رام و رحمان کو ایک جاننا سخت نادانی ہے ۔ جو شخص رحمان و رام کو ایک ہی ذات کے دو نام خیال کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی عظیم الشان بادشاہ کو ?کمینہ خاکروب? کے نام سے یاد کر لے۔

خالق کبھی مخلوق کے ساتھ ایک نہیں ہوتا اور چوں بے چوں کے ساتھ متحد نہیں ہوتا۔ اس خط کے مضمون سے یہ بات قطعی واضع ہو گئی کہ جناب مجدد کے زمانے میں اکبر کے ملحدانہ خیالات کی بدولت ہندوستان کے مسلمانوںکی حیثیت کیا تھی وہ کن احوال سے دو چار تھے اور کس دو ر سے گزر رہے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصر ت و حمایت کا سامان پیدا کیا اور اس الحاد و زندقہ سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے اپنے ایک بندے احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کو قوت حق اور استقامت دین عطا کر کے باطل کی قوتوں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔

اسلام کے تصوف پر ہندوستانی خیالات نے جس قدر گہرا اثر ڈالا تھا اور اکبر کے ملحدانہ خیالات نے ہندوو?ں کو جتنا بے باک اور اسلام کی دشمنی میں تیز کر دیا تھا۔ جناب مجدد الف ثانی نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پا کر ان سب قباحتوں کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا۔ بنا بریں جناب ا حمد سر ہندی کو ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد دوسرے ہزار سالہ دور کا رہبر کہنا اور اسلام کی تعلیمات کی تجدید کرنے والا کہنا یعنی مجدد الف ثانی تسلیم کرنا حق بجانب ہے۔2

ابو بکر شبلی
ابو بکر بن دلف حجدر شبلینام
788ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
جناب جنید بغدادی نے آ پکے مزاج سے گورنری کی بو باس نکالنے اور طبیعت میں عجزو انکسار پیدا کرنے کے لیے آ پکو بھیک مانگنے پر مقرر کیا۔ چنانچہ آپ روزانہ بھیک مانگنے جاتے اور جو کچھ لوگوں سے میسر آتا اسے لا کر فقراءو مساکین میں تقسیم کر دیتے مگر خود بھوکے رہتے
مجاہدات کے دوران آپ اس لیے اپنی آنکھوں میں نمک بھر لیتے تھے کہ نیند کا غلبہ نہ ہو سکے

ابوبکر بن دلف حجدر شبلی بعضوں نے جعفر بن یونس لکھاہے۔ ? ولادت?247ہجری سامرہ علاقہ عراق میں پیدا ہوئے اور شبلہ میں پرورش پائی ۔ اسی مناسبت سے آپ شبلی کہلاتے ہیں۔ شبلہ ایک گائوں کا نام ہے جو سمر قند سے آگے شہر اسروشنہ کے اطراف میں واقعہ تھا آپ کے خاندان کے افراد کسی زمانے میں عراق سے نکل کر یہاں آباد ہو گئے تھے۔ آپ نسلاًمصری تھے کہ ترکی اس کے بارے میں اختلاف ہے ۔ کسی نے آپ کو ترکی الا صل سمجھا ہے کسی نے خراسانی لکھا ہے اور کسی کے نزدیک آپ مصری تھے۔ آ پ کے والد ایک صاحب اثروثروت سردار تھے۔ آپ کے خاندان میں چونکہ دنیاوی وجاحت کے سوا کوئی علمی فضیلت نہیں تھی اس لیے آپ کی تعلیم کے بارے میں کچھ ٹھیک معلوم نہیں کہ کہاں پائی۔ اور کن کن بزرگوں سے اکتساب علم کیا البتہ اتنا ضرور علم ہے کہ آپ کا خاندان فقہ مالکی پر عمل کرتا تھا۔ ا ور آپ نے تیس برس تک فقہ پڑھی ۔ موطا امام مالک آپ کو زبانی یاد تھی۔

شبلی نے تعلیم سے فراغت پا کر شاہی ملازمت اختیار کر لی اور اپنے خاندان کی فوجی خدمات کے صلے میں نہاوند کے گورنر بنائے گئے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ عباسی خلیفہ المعتضد با اللہ کے جشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں تمام بغداد نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ تمام ملکوں کے گورنر خلیفہ کے سامنے باادب ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ سوئے اتفاق سے ایک گورنر کو چھینک آ گئی اور ناک سے رطوبت بہنے لگی کوئی رومال پاس نہیں تھا۔ ناک پاک کر لی۔ خلیفہ نے گورنر کی اس حرکت کو دیکھ لیا۔ فوراً عتاب ہوا۔ گورنری جاتی رہی۔ خلعت چھین کر سخت بے عزت کر کے دربار سے نکال دیا۔ شبلی نے اس معاملے کو دیکھ کر اپنے دل میں خیال کیا کہ جس شخص نے شاہی خلعت کی توقیر نہ کی اس کا تو یہ انجام ہو مگر جو شخص حاکم الحاکمین کی خلعت کا احترام نہ کرے اور آداب خداوندی اس کے پیش نظر نہ ہو اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس واقعہ نے آپ کے دل پر کچھ اس طرح اثر کیا کہ گورنری کو لات مار کر فقیر ہو گئے۔ مگر کس کے فقیر ہوئے لوگوں کے در کے ، نہیں، اللہ کے گھر کے اللہ کی محبت کے۔

اب شبلی کی حالت یہ تھی کہ جس شخص کے منہ سے اللہ کا لفظ نکل جاتا اس کا منہ اشرفیوں سے بھر دیتے۔ پھر ایک وقت ان کی مجزوبیت کا ایسا آیا کہ ننگی تلوار لے کر پھرا کرتے اور کہتے جو شخص خدا کا نام زبان پر لائے گا اس کا سر قلم کر دوں گا۔ لوگوں کو ان سے خوف آتا تھا۔ مگر ہمت کر کے ایک دن ایک شخص نے پوچھ ہی لیا کہ آپ اللہ کا نام لینے والوں کو قتل کرنے کے کیوں درپے ہیں؟فرمایا لوگ عادت پڑ جانے کے سبب اللہ کہتے ہیں ورنہ ان کے دلوں میں ارادہ اور خلوص نہیں رہا۔ ایک روز اللہ سے دعا کی اے پروردگار مجھے دو عالم عطا کر دے تا کہ میں ان کو نوالہ بنا کر کسی یہودی کے منہ میں رکھ دوں مجھے تیری محبت کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ لکھا ہے کہ فقیری اختیار کرنے کے بعد جب آپ کسی صاحب نظر کی تلاش کرتے ہوئے جناب جنید بغدادی کی خدمت میں پہنچے تو بغدادی نے آپ کو اپنی صحبت میں اس شرط پر لینا قبول کیا۔ کہ آپ شدید سے شدید مجاہدے ، ریاضتیں کریں گے اور ان سے مطلق نہیں گھبرائیں گے۔ کہتے ہیں جناب جنید بغدادی نے آ پکے مزاج سے گورنری کی بو باس نکالنے اور طبیعت میں عجزو انکسار پیدا کرنے کے لیے آ پکو بھیک مانگنے پر مقرر کیا۔ چنانچہ آپ روزانہ بھیک مانگنے جاتے اور جو کچھ لوگوں سے میسر آتا اسے لا کر فقراءو مساکین میں تقسیم کر دیتے مگر خود بھوکے رہتے۔ لکھا ہے کہ بھیک مانگنے میںآپ کو بڑی دشواری پیش آتی ۔ لوگ سمجھتے کہ آپ محتاج و بے کس نہیں ہیں اس لیے کچھ نہ دیتے مگر پھر بھی جوں توں کر کے مرشد کی تعمیل میں آپ کو کچھ نہ کچھ لانا ہی پڑتا۔ ایک روز آپ سے جناب جنید نے پوچھا ۔ شبلی کہو اب تمہارے نفس کا کیا مرتبہ ہے؟ عرض کیا اب اپنے آپ کو تمام لوگوں سے ادنے درجہ پر پاتا ہوں ۔ یہ سن کر حضرت جنید نے فرمایا اب تمہارے ایمان کی تکمیل ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے غیبی ندا سنی کہ اسم ذات کےساتھ کب تک وابستہ رہے گا۔ اگر طلب صادق ہے تو مسمی کی جستجوکر یہ ندا سن کر عشق الہی میں ایسے مستغرق ہوئے کہ دریائے دجلہ میں چھلانگ لگا دی لیکن ایک موج نے پھر کنارے پر پھینک دیا۔ اس کے بعد اکثر مہلک و مہیب مقامات پر پہنچ کر خود کو ہلاک کرنے کی سعی کرتے رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے محبو ب بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے اس لیے کسی جگہ بھی کوئی گزند نہیں پہنچتی اور ہر روز ذوق و شوق میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ آپ اکثر چیخ چیخ کر فرماتے کہ تعجب ہے اس شخص پر جو نہ پانی میں غرق ہو سکا اور نہ آگ میں جل سکا۔ نہ درندوں نے پھاڑ ا اور نہ پہاڑ سے گر کر ہلاک ہو سکا۔ پھر آپ نے یہ ندا سنی کہ جو مقبول الہی ہوتا ہے اس کو خدا کے سوا دوسرا کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ آپ کے احوال یہاں تک پہنچ گئے کہ لوگوں نے دس مرتبہ زنجیروں میں جکڑا مگر آپ کو سکون میسر نہ آ سکا۔ پھر آپ کو پاگل تصور کر کے پاگل خانے بھیج دیا گیا اور ہر شخص آپ کو دیوانہ کہنے لگا۔

ایک مرتبہ عید کے دن سیاہ لباس میں ملبوس تھے اور وجد کا عالم تھا۔ لوگوں نے سیاہ لباس پہننے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ماتم میں سیاہ لباس پہنا ہے کیونکہ پوری مخلوق خدا سے غافل ہو چکی ہے ۔ ابتداءمیں آپ سیاہ لباس ہی استعمال فرماتے تھے۔ لیکن تائب ہونے کے بعد مرقع پہننا شروع کر دیا تھا۔ مجاہدات کے دوران آپ اس لیے اپنی آنکھوں میں نمک بھر لیتے تھے کہ نیند کا غلبہ نہ ہو سکے۔ ایک مرتبہ چمٹی لے کر آپ نے اپنا گوشت نوچنا شروع کر دیا ۔ تو حضرت جنید نے اس کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ جو حقائق مجھ پر منکشف ہوتے ہیں اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لیے یہ عمل کر رہا ہوں تا کہ ایک لمحہ کے لیے سکون مل سکے۔ آپ اپنے معمول کے مطابق تہہ خانے میں عبادت کرتے تھے ا ور لکڑیوں کا گٹھا اپنے ہمراہ لے جاتے کہ جب عبادت سے ذرا بھی غفلت ہوتی تو ایک لکڑی نکال کر خود کو زودو کوب کریں حتیٰ کہ ایک ایک کر کے تمام لکڑیاں ختم ہو جاتیں اور بعد میں آپ اپنے جسم کو دیواروں سے ٹکراتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری پوری زندگی اسی خواہش میں گزر گئی کہ کاش ایک لمحہ کے لیے خدا تعالیٰ سے مجھے ایسی خلوت نصیب ہو جاتی کہ میرا وجود باقی نہ رہتا اور چالیس سال سے یہ تمنا ہے کہ کاش ایک لمحہ لئے خدا کو جان اور پہچان سکتا۔ کاش میں پہاڑوں میں اس طرح روپوش ہو جاتا کہ نہ تو مخلوق مجھ کو دیکھ سکتی اور نہ میرے احوال سے با خبر ہوتی ، پھر فرمایا کہ میں خود کو یہودیوں سے بھی زیادہ ذلیل تصور کرتا ہوں کیونکہ میں نفس و دنیا اور ابلیس و خواہشات کی بلائوں میں گرفتار ہوں اور مجھے تین مصیبتیں یہ بھی لاحق ہیں کہ میرے قلب سے اللہ تعالیٰ دور ہو گیا ہے۔ دوم ،میرے قلب میں باطل جا گزیں ہو گیا ہے۔ سوم ، میر ا نفس ایسا کافر بن گیا ہے کہ اس کو مصائب دور کرنے کا تصور تک نہیں آتا۔ پھر فرمایا کہ دنیا محبت کا اور آخرت نعمت کا مکان ہے۔ لیکن اس دونوں سے قلب بہتر ہے کیونکہ یہ معرفت الہیٰ کا مکان ہے ۔ جب آپ کے مراتب میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو آپ نے وعظ گوئی کو اپنا مشغلہ بنا لیا اور اس میں لوگوں کے سامنے حقیقت کا اظہار بھی کرنا شروع کر دیا جس پر حضرت جنید نے فرمایا کہ ہم نے جن چیزوں کو زمین میں مدفون کر رکھا تھا، تم انہیں بر سر منبر عوام کے سامنے بیان کرتے ہو۔ آپ نے جواب دیا کہ جن حقائق کا میں اظہار کرتا ہوں ۔ وہ لوگوں کے ذہنوں سے بالا تر ہیں۔ کیونکہ میری باتیں حق کی جانب سے ہوتی ہیں اور حق ہی کی جانب لوٹ جاتی ہیں اور اس وقت شبلی کا وجود درمیان میں نہیں ہوتا۔ حضرت جنید نے فرمایا کہ گو تمہارا قو ل درست ہے پھر بھی تمہارے لیے اس قسم کی چیزیں بیان کرنی مناسب نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دین و دنیا طلب کرنے والوں کے لیے ہماری مجلس نشینی حرام ہے۔ آپ کے ہاتھ پر توبہ کرنے والا جب طریقت کا طلب گار ہوتا تو آپ حکم دیتے کہ صحرا میں جا کر توکل اختیار کرو اور بغیر زاد ِ راہ اور سواری کے حج کے سفرپر چلے جائو۔ اسی وقت تمہیں توکل و تجرد حاصل ہو گا اور جب ان دونوں مجاہدات سے فراغت پا لو اس وقت میرے پاس آنا کہ ابھی تمہارے اندر میری صحبت کی صلاحیت نہیں ہے۔ آپ اکثر تائب ہونے والوں کو اپنے اصحاب کے ہمراہ بغیر زاد راہ اور سواری کے صحرا میں بھیج دیا کرتے تھے اور جب لوگ یہ کہتے کہ آپ تو مخلوق کی ہلاکت کے درپے ہیں تو آپ جواب دیتے کہ میری نیت ہر گز یہ نہیں، لیکن جو لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کا مقصد میری صحبت نہیں ہوتا بلکہ وہ معرفت الہیٰ کے متمنی ہوتے ہیں۔ اگر وہ مصاحبت کے خواہاں ہوں تو اگرچہ بت پرستی کے مرتکب کہلائے جائیں گے۔ لہذا ان کے واسطے یہی بہتر ہے کہ اپنی حالت پر قائم رہیں کیونکہ فاسق موحد رہبانیت پسند زاہد سے افضل ہے۔ اسی وجہ سے میں اپنے پاس آنے والوں کو خدا کا راستہ بتا دیتا ہوں۔ اس میں اگر وہ ہلاک بھی ہو جائیں جب بھی اپنے مقصد سے محروم نہیں رہیں گے۔ اگر سفر کی صعوبتیں حاصل کر لیں گے تو انہیں وہ مقام حاصل ہو جائے گا جو دس سالہ مجاہدات سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ ہم آپ کو غیر اطمینانی حالت میں دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو آپ خدا کے ساتھ نہیں یا خدا آپ کے ساتھ نہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر میں اس کے ساتھ ہوتا تو میں ہوتا لیکن میں تو اس کی ذات میں گم ہو گیا ہوں، پھر فرمایا کہ میںہمیشہ اس خیال سے خوش ہوتا رہا کہ مجھے خدا کا مشاہدہ و انس حاصل ہے لیکن اب محسوس ہو اکہ انس تو صرف اپنے ہی ہم جنس سے ہو سکتا ہے۔

حضرت جنید نے پوچھا کہ جب تمہیں ذکر الہی میں صدق حاصل نہیں تو تم کس طرح اس کو یاد کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ میں مجازی اعتبار سے جب اس کو بکثرت یاد کرتا ہوں تو ایک مرتبہ وہ بھی مجھے حقیقت کے ساتھ یاد کر لیتا ہے۔ حضرت جنید یہ جملہ سن کر نعرے لگاتے ہوئے بیہوش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ بارگاہ الہی سے کبھی تو خلعت عطا کیا جاتا ہے اور کبھی تازیانہ۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ دنیا ذکر و شغل کے لیے ہے اور عقبی احوال کے لیے ، لہذا راحت کس جگہ مل سکتی ہے؟فرمایا کہ دنیا کے ذکر و شغل سے بے نیاز ہو جائو تا کہ احوا ل آخرت سے نجات حاصل ہو جائے۔ ایک دن آپ کوعالم وجد میں مضطرب دیکھ کر حضرت جنید نے کہا کہ اگر تم اپنے امور خدا کے سپرد کر دو تو تمہیں سکون مل سکتا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس وقت سکون مل سکتا ہے جب اللہ تعالی میرے امور میرے اوپر چھوڑ دے۔ یہ سن کر حضرت جنید نے فرمایا کہ شبلی کی تلوار سے خون ٹپکتا ہے۔ آپ نے کسی کو ?یا رب? کہتے سن کر فرمایا کہ تو کب تک یہ جملہ کہتا رہے گا جبکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت عبدی عبدی فرماتا رہتا ہے۔ لہذا اس کی بات سن لے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو عبدی عبدی ہی سن کر یا رب یا رب کہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تو تیرے لیے یہ جملہ کہنا جائز ہے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ میری گردن میں آسمان کا طوق اور پائوں میں زمین کی بیڑی ڈال دے اور ساری دنیا بھی دشمن ہو جائے جب بھی میں اس سے منہ نہیں پھیر سکتا۔

وفات کے وقت جب آپکی نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تو ناقابل بیان حد تک بیقرار ہو کر لوگوں سے راکھ طلب کر کے اپنے سر پر ڈالتے رہے لوگوں نے بیقراری کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس وقت مجھے ابلیس پر رشک آ رہا ہے اور آتش رشک میرے تمام جسم کو بھسم کئے دے رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو خلعت لعنت سے نوازا۔ لیکن مجھ تشنہ کو خدا نے وہ خلعت کیوں نہیں عطا ءفرمایا۔ لعنت کیاخلعت شیطان کے لیے مخصوص ہے لیکن اس کا عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی خلعت کا مستحق ابلیس کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے۔ لیکن پھر عالم اضطراب میں فرمایا کہ اس وقت کرم کی ایک ہوا چل رہی ہے اور دوسری قہر کی۔ جن پر کرم کی ہوا چلی ان کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ اور جن پر قہر کی ہوا چلی وہ لوگ راستے ہی میں رہ گئے۔ اور اس قسم کے حجابات ان کے سامنے آ گئے کہ وہ منزل تک نہ پہنچ سکے مجھے یہ اضطراب ہے کہ میرے اوپر کون سی ہوا چلنے والی ہے۔ انتقال کے وقت سے قبل ہی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آ پہنچی تو آپ نے اس جماعت کے قصد کو محسوس کر کے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ زندہ ہی کی نماز پڑھنے چلے آئے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ? لا الہ الااللہ?تو فرمایا جب غیر ہی نہیں ہے تو نفی کس کی کروں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ شریعت کا حکم ہے، کہ ایسے وقت میں کلمہ پڑھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ سلطان فرما رہا ہے کہ میں رشوت قبول نہیں کروں گا۔ اس کے بعد کسی نے با آواز بلند کلمہ ?لاالہ الا اللہ ? کہنے کی تلقین کی تو فرمایا کہ میں اپنے محبوب سے مل گیا۔ یہ فرما کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

No comments:

Post a Comment