Tuesday, October 20, 2009

شاہ ابوالمعالی شاہ ولی اللہ محدث دہلویByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


شاہ ابوالمعالی
سید خیر الدین شاہنام
960ہجر&تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
ر آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔

شیخ عبدالحق دہلوی ایسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔

شاہ ابوالمعالی:۔جناب میاں میرکے علاوہ قادری سلسلے کو فروغ دینے والی ایک شخصیت آپ ہی کے زمانے میں ایک اور بھی تھی۔ یہ جناب شیخ شاہ ابو المعالی قادری تھے۔ آپ کا اصل نام سید خیر الدین شاہ تھا۔960ہجری میں پیدا ہوئے ۔ سید موسیٰ گیلانی کے ایک مشہر پیر بھائی داو?د شیر گڑھی کے جانشین تھے۔ آپ نے لاہور میں شاہ ابوالمعالی کے نام سے شہرت پائی ۔آپ بیرہ ضلع سرگودہا کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں۔ دارالشکوہ نے لکھا ہے کہ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ قادری سلسلے میں آپ کو شیخ داو?د کرمانی سے نسبت تھی۔ حد یقتہ الاولیاءمیںلکھا ہے کہ شیخ داو?د کرمانی شیر گڑھی کے حقیقی بھائی سید رحمت اللہ کے بیٹے ہیں۔ سید رحمت اللہ بن میر سید فتح اللہ کرمانی تین بھائی تھے۔ ایک شیخ داو?د کرمانی دوسرے سید جلال الدین کرمانی تیسرے یہی سید رحمت اللہ کرمانی جو شاہ ابوالمعالی قادری کے والد گرامی قدر ہیں۔

شاہ ابوالمعالی اپنے پیرو مرشد روشن ضمیر محترم جناب شیخ داو?د شیر گڑھی کی خدمت میں تیس برس رہ کر لاہور تشریف لائے۔ اور سلسلہ رشدوہدایت کا آغاز کیا۔ نیز کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق جب شیر گڑھ سے لاہور کا سفر اختیار کیا تو راستے میں جہاں جہا ں آپ ٹھہرے وہاں مسافروں کی سہولت کے لیے جا بجا کنوئیں، باغیچے، اور پختہ تالاب بنواتے چلے گئے۔ اسی پر قیاس کر لیجئے کہ جو لوگ منزل سلوک شاہ صاحب کی رہنمائی میں طے کرتے تھے۔ شاہ صاحب انہیں منزل مقصود پر پہنچانے پر کتنا اچھا اور پیار ا اہتمام نہ کرتے ہونگے۔ شاہ صاحب ایک شاعر بھی تھے۔ غربتی اور معالی آپ کا تخلص تھا۔ عربی اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ جن میں اکثر صوفیانہ خیالات ہی کا اظہار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے جناب سید عبدالقادر جیلانی کی منقبت میں رسالہ غوثیہ اور آپ کی کرامات کے موضوع پر تحفہ قادریہ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا نیز حلیہ سروردوعالم،گلدستہ باغ ارم، مونس جاں ، اور زعفران زار یہ کتابیں بھی آپ کی یادگار ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا ایک قلمی نسخہ?ہشت محفل? کے نام سے پنجاب یو نیورسٹی لاہور کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے ۔ جسے آپ کے صاحبزادے جناب محمد باقر نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے میں شاہ صاحب کے ملفوظات جمع کئے گئے ہیں۔

شاہ جی کس پائے کے بزرگ تھے ۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ایسے بزرگ آپ سے دلی ارادت رکھتے تھے۔ اور باطنی تسکین کے لیے اکثر آپ کی توجہ دستگیری و رہنمائی کے طالب رہتے تھے۔ اور صرف یہی نہیں کہ جناب شیخ آپ کی سطوت روحانی ہی کے قائل تھے۔ بلکہ اپنے تصنیف و تالیف کے مشغلے میں بھی اکثر آپ کی ہدایت اور مفید مشوروں کے محتاج رہتے تھے۔ مثلاً جناب شیخ نے فتوح الغیب کی شرح آپ ہی کے اصرار پر تحریر کی ۔ شرح مشکوٰة کی تالیف میں بھی آپ نے کافی ترغیب دی۔ اور طرزنگارش کے بارے میں بھی اکثر مفید مشورے اور ہدایات دیں فرمایا کہ مشکوٰة کی شرح میں جا بجا اشعار ہونے چاہیں۔ جس سے انداز بیاں دلچسپ اور عبارت نہایت مو?ثر ثابت ہو۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کے بارے میں تمام سیرت نگار اور مو?رخین اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان میں حدیث کے علم کو ایک باقاعدہ اور منظم صورت میں سب سے پہلے آپ ہی نے عام کیا اور آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔

لمعات جو مشکوٰة کی شرح ہے جناب شیخ محدّث دہلوی نے چھ سال کی محنت شاقہ کے بعد مکمل کی۔ اس کے علاوہ فارسی زبان میں جناب محمد رسول اللہ کی سیرت پر مدارج النبوت کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی? جذب القلوب فی دیار المحبوب ?کے عنوان سے ?مدینة النبی ?کی تاریخ لکھی۔ جناب شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی غنیتہ الطالبین کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اور آپ کے کلام بلاغت نظام بعنوان فتوح الغیب کی شرح لکھی ۔ علاوہ ازیں اخبار الاخیار کے نام سے بزرگان دین و اولیائے کرام کے سوانح خاص کر جناب عبدالقادر جیلانی کی زندگی کے حالات بالتفصیل تحریر کئے۔ نیز دارالشکوہ کی فرمائش پر جناب سید عبدالقادر جیلانی کی قدیمی اور مستند سوانح حیات کا زیدة الآثار کے نام سے خلاصہ پیش کیا۔ قیاس کیجئے کہ شیخ عبدالحق دہلوی ایسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔ وہ شیخ کس پائے کا مرشد روحانی ہو گا۔ شیخ محدث نے وہ ایک خط جو اپنے فرزند شیخ نور الحق کے نام لکھا تھا۔ اس کے مندرجات سے جناب شیخ کے مرشد کامل شاہ ابوالمعالی قادری کے مر تبت کا ایک اندازہ ہوتا ہے۔ اس خط میں آپ نے اپنے سفر لاہور کی تفصیل تحریر کی ہے۔ اور جناب شاہ ابوالمعالی کی توجہ و التفات کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ کہ وہ ان کی تالیفات و تصنیفات کی تعریف کر کے ان کا دل بڑھاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنے جلال کے شان بھی دکھا تے ہیں۔ ان کے آنے جانے پر سخت پابندیاں لگا دیتے ہیں۔ شیخ محدّث ان کی زیارت کے لیے دہلی سے لاہور آنا چاہتے ہیں تو یہ سختی سے ان کو روک دیتے ہیں۔

سفینةالاولیاءکے مترجم نے جناب شاہ ابوالمعالی کا سن ولادت920ہجری لکھا ہے۔ جو سہو کتابت ہے اور سال وفات1024ہجری تحریر فرمایا ہے۔ جو صحیح ہے ۔ ہم نے دارالشکوہ کی ?سفینة اولیاء? کا فارسی نسخہ دیکھا ہے۔ جس میں تاریخ ولادت 960ہجری لکھا ہے۔ اور تاریخ وفات1024ہجری درج ہے۔ مفتی غلام سرور نے اپنی کتاب حدیقة الاولیائ۔ میں بھی سنین لکھتے ہیں۔ مفتی صاحب نے جناب شاہ ابوالمعالی کی ولادت اور وفات کی منظوم تاریخیں پیش کی ہیں ۔جناب شیخ محدث اور شاہ ابوالمعالی کے مختصراً سوانح ہم نے جملہ معترضہ کے طور پر پیش کیے ہیں ۔ جن دنوں شہنشاہ جہانگیر کشمیر میں تھا ۔ حاسدوں اور شر پسندوں نے شیخ محدث اور مرزا حسام الدین کے خلاف اس کے کان بھرے ۔ جہانگیر نے فوراً ان دونوں کو حاضر ہونے کا حکم بھیجا۔ چنانچہ جب شیخ محدث جہانگیر کے حکم کی تعمیل کے لیے دہلی سے چلے تو سب سے پہلے جناب میاں میر کی خدمت میں لاہور پہنچے اور پریشانی کا اظہار کیا۔ حضرت میاں میر نے فرمایا تمہیں یوں ہی پریشانی ہو گئی۔ اطمینان رکھو کچھ نہیں ہو گا۔ نہ تمہیں کشمیر جانا پڑے گا نہ تمہارے بیٹے کو کابل ۔شیخ حسام الدین بھی دہلی ہی میں رہیں گے اور تم لوگ بھی وہیں خوش و خرم رہو گے ۔ قدرت خدا اس واقعہ کو ابھی دو چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جہانگیر کا انتقال ہو گیا۔

شاہ ابوالمعالی نے پینسٹھ برس کی عمر پائی۔ شیخ عبدالحق محدث چورانوے سال دو مہینے حیات رہے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے قریب دہلی میں مدفون ہوئے۔ میاں میر صاحب نے اٹھاسی برس کی عمر میں اس دنیا سے آخرت کا سفر اختیار کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہ
2
شاہ ولی اللہ محدث دہلوینام
عیستاریخ پیداءش
وجھ شھرت
قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا

شاہ ولی اللہ ستر ویں صدی کے پہلے مسلمان مفکرلیے جنہوں نے مغربی تہذیب کو اسلام کے خطرہ سمجھا

شاہ ولی اللہ کا دور وہ تھا جب حکمت کے طور پر جانی جانیوالی اسلامی روایت پھل پھول رہی تھی اور فلسفہ ،دینیات اور تصوف کے روایتی مذہبی علوم مےں مصالحت ہو رہی تھی ۔تاہم ،ماقبل جدید دور یا کلاسیکی انداز کا نکتہ نظر مختلف فرقہ وارانہ ،سیاسی اور سماجی دباو? کے تحت اپنے ٹوٹنے کی علامتیںدکھارہا تھا ۔چنانچہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تصنیفاتی سر گرمیوں کا اصل مقصد اہم اسلامی عقلی قواعد کے نکتہ ہائے نظر کے ذریعہ اسلامی مذہبی علوم کے مطالعہ کو دوبارہ مجتمع کرنا اور اہم بنانا تھا ان عقلی قواعد مےں فقہ، تصوف اور خاص طور پر قرآن وحدیث پر غور وخوض شامل تھا۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے تقر یبا چالیس کتابیں اور رسائل مرتب کئے اور ایک مذہبی محقق اور روحانی رہنماءکا فریضہ سر انجام دیا ۔شاہ ولی اللہ کا جنم اےک کٹر مذہبی اور مشہور گھرانے میں ہوا ۔ان کے والد شاہ عبدالرحیم مشہور فقیہہ اور محقق تھے جنہوں نے دہلی میں اسلامی تعلیمات کے ادارے مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآنی تعلیمات ،عربی زبان اور نقشبندی صوفیانہ روایت سیکھنے میں رہنمائی دے کر سترہ برس کی کچی عمر میں اپنا وارث بنا دیا ۔چنانچہ 1719ءمیں باپ کی وفات پر شاہ ولی اللہ نے اپنی حیثیت سنبھالی ۔ حج کے سفر نے شاہ ولی اللہ کی سوچ پر طاقتور اثرات مرتب کئے ۔ انہوں نے مکہ اور مدینہ المنورہ کے مقدس شہروں مےں انتہائی سر کردہ اور معزز اساتذہ اور اس دور کے محققین حدیث کے ساتھ سال گزارا جنہوں نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا اور اپنے حلقہ مےں شامل کرلیا ۔ انہیںعربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ان کی اہم تصنیفات اسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ مزید برآں بہت سی تصانیف فارسی میں بھی ہےں دنیائے اسلام کے فکری مذہبی اور تہذیبی مرکز مےں گزارے ہوئے وقت نے اسلامی قانون کے معاملات میں شاہ ولی اللہ کو ایک ہمہ گیر نکتہ نظر عطاءکیا۔ اس لئے ان کی کتابوں میں زیادہ عوامی حلقے کی بجائے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی مخاطب کےاگیا۔چونکہ مکہ اساتذہ مطالعہ حدیث کی روایت میں ڈوب گئے تھے اس لئے شاہ ولی اللہ نے یہ نقطہ نظر اپنا لیا کہ رسول اللہ کے اقوال کا مطالعہ اور شرح اسلام پر چلنے کے لیے مختلف طریقوں کو متحد کرنا اور نیا بنانا لازمی ہے سعودی عرب سے واپسی کے بعد شاہ ولی اللہ نے دہلی میں اپنی عملی اور صوفیانہ سر گرمیاں جاری رکھیںاپنے والد کے قائم کردہ مدر سہ میں پڑھایا اور راہ تصوف کی پیچیدگیوں میں شاگردوں کی رہنمائی کی ۔


انہوں نے اپنی اہم کتاب حجتہ البالغہ حج سے واپسی پر لکھی تھی ۔ دو جلدوں پر مشتمل کتاب میں انہوں نے کل علم کائنات کا جائزہ پیش کیا ۔پہلی جلد میں وہ تخلیق کا بنیادی مقصد انسانی نفسیات کی قوت ((Potentiality انسانی سوچ اور اعمال کی بلند تر اہمیت ،لسانی سماجی وسیاسی نظاموں کی ترقی اور سب سے آخر میں مذہبی مکاشفہ اور اس کی شرح پیش کرتے ہیں ۔جلد دوم میں وہ اسلامی قانونی ہدایات کے زیادہ گہرے روحانی پہلو و?ں کی تفہیم پیدا کرنے کے لئے اپنا طریقہ کار مخصوص احادیث پر لاگو کرتے ہیں۔ اسلام کی اندرونی اوربیرونی جہتوں کو واضح اورہم آہنگ کرنے کے اس کارنامے کی وجہ سے عماما عظیم مفکر اور صوفی الغزالی (وفات1111ئ)کے ساتھ ان کاموازنہ کیا جاتاہے ۔ان کا ما بعدالطبیعاتی نظام بھی الغزالی اور ابن عربی (وفات 1940ئ)دونوں کی فلسفیانہ صوفی روایت سے زبردست متاثر ہے ? جنہوں نے معنی کے مثالی درجے کے افلاطونی تصور کو اس دنیا کے وقوعات کے ساتھ جوڑا حقیقت کی خالصتامادی جہتوں کے درمیان رابطہ نظر آنے والی ایک مائع سی تہہ ?اعیان کی دنیا ?کہلاتا ہے ۔شاہ ولی اﷲنے اسے وہ تعلیم خیال کیاجس میں مذہبی استعارے مخصوص مذہبی ہدایات میں اپنی جوڑ بندی سے قبل تشکےل دیے گئے تھے۔ ان مخصوص مذہبی ہدایات کی پیروی کرنے کا اصل مطلب ان کی بےرونی وقوعات کی مخصوص مثالوں کی بجائے اس بلند تر سطح پر تلاش کرتا چاہیے۔ اس نکتہ نظر پر عمل کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ نے ایک نظریہ استعاریت اور معنی و اطلاقیت کی ٹھوس تاریخی صورت حال میں اس کے ظہور کی توضیح کی جس کے مطابق استعارے ایک طرف سے اپنی افادیت رکھتے ہیں ۔اخذ کر دہ نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون (شرع) پر عوامی سطح پر عملدر آمد کرنا چاہیے تاکہ اس کے اندرونی روحانی مفادات کا حصول ہو سکے ۔


اپنے نظریہ مذہبی مکاشفہ مےں وہ اسلام کو ایک ہمہ گیرمذہب خیال کرتے ہےں جس نے ساتویں صدی کے عرب مےں حضرت محمد کے دوران ٹھوس صورت اختیار کی تھی ۔چنانچہ اس صورت مےں دین (جو تمام افراد کے مزاج مےں رچا بسا ہے ) کے مثالی تصور اور اسلام کی خصوصی تاریخی صورت کی تمام وقتوں مےں اطلاقیت کے دعوی کے درمیان کچھ تفاوت موجود ہے ۔ان کے نظام بنی نوع انسان مذہبی قوانین کے محض مجہول تاثرپذیر ہی نہےں ۔ اخلاقی اور روحانی ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کی جدوجہدمیں حصہ لینے کے قابل ہیں کیونکہ بعد از موت بھی ان میں بیشتر مزید انسانی سماجی و روحانی نشوونما کی رہنمائی کرنے کے کام میں حصہ لینے کے لئے ?مجلس اولٰی ?کے فرشتوں میں شامل ہوں گے ۔ اگرچہ عربی سے فارسی میں قرآن پاک کا ترجمہ شاہ ولی اﷲ نے پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا (جیسا کے کچھ کہتے ہیں )لےکن یہ اس اعتبار سے تاریخ ساز ہے کہ اس میں شاہ ولی اﷲ نے ایک تو حد سے ادبی اور دوسرے محض کتاب کا لب لباب پیش کرنے والے سابق تراجم کے مابین حیران کن توازن قائم کیا۔ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں میں قیام کے دوران قانون اور حدیث میں شاہ ولی کی باقاعدہ تربیت نے انہیں مالک ابن انس (وفات 796ئ) مکتبہ کے حدیث سے متعلق طریقہ کار اور الشافعی (وفات819ئ)قانونی مکتبہ کے نظری آلات کا حمایتی بنا دیا ۔جنوبی ایشیاءکے زیادہ تر مسلمانوں کی طرح انہوں نے خود حنفی قانون کی پیروی کی ۔اس قسم کی انتخابیت تطبیق کہلاتی تھی :یعنی مطا بقت میں سے متفاوت عناصر کو عیاں کرنا ۔ قانون اور حدیث پر ان کی کچھ تصنیفات نظریہ اور شرح کا تکنیکی معائنہ ہیں جبکہ دیگر میں وہ چار بڑے سنی مکاتب قانون کے درمیان عدم اتفاقات کے تاریخی ماخذوں پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اختلافات تک لیجانے والے عناصر کو ان کی ترقی کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے اسلامی قانون سازی کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن و حدیث کی تفسیر کرنے پر اہل افراد کی قابلیت کے بارے مےں ان کا نکتہ نظر مکمل طور پر انقلابی نہیں بلکہ وہ اہل فقیہہ کی جانب سے اجہتاد کی ایک مخصوص حدتک اجازت دیتے ہیں ۔


تصوف پر عمل کرنے سے متعلق شاہ ولی اﷲکا نکتہ نظر انتخابی اور اصلاحی دونوں طرح کا تھا دیگر اسلامی اصولوں کی طرح صوفی طریقہ کار اور نظریہ سے متعلق ان کا رویہ یہ تھا کہ ہر صوفیانہ سلسلہ اپنی اپنی بے مثال تاریخ اور توانائیاں رکھتا ہے ۔روحانیت کے متمنی کو ایسے صوفیانہ عناصر پر عمل کرنے کی تربیت دینی چاہیے جو اسی کی اپنی خلقی فظرت سے انتہائی ہم آہنگی رکھتے ہوں ،چاہے وہ عناصر استغراقی ،دین دار انہ یا پھر فکری ہوں ۔ شاہ ولی اﷲ نے اپنے دور کے اہم صوفی سلسلوں کی رہنمائی کا دعویٰ کیا اور ان مےںسے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونے کی بجائے خود اپنے قسم کا انتخابی طریقہ کار قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی ،جو پھل پھول نہ سکا ۔ تصوف پر اصول کی ایک مختلف شکل کے طور پر اصرار نسل بعد نسل کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کی کچھ اولادوں نے صوفی عناصر کو تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ اسلامی اعتقاد اور چلن کے بنیادی عناصر کو زیادہ روحانی بنا جا سکے ۔مثلا اعلی تربیت کے اےک اعلی اسلامی ادارے دیوبند مدرسہ کی بنیاد ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز (وفات 1823ئ) کے پیروکاروں نے رکھی ۔ ہندوستان مےں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت میں تبدیلی کے دورمیں رہتے اور مغلیہ سلطنت مےں انتشار اور اس کے بعد استعاری دور کے نکتہ آغاز پر مدو جزر کا تجربہ کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ پرانی اسلامی اصلاحی تحریکوں کے مخصوص رجحانات کی بطورمثال پیروی کرتے نظر آتے ہےں ۔تاہم سعودی عرب کے وہابیوں کے برخلاف انہوں نے محترم مسلمان اولیاءکے طریقہ کار کو رد نہ کیا ور اس بات پر اعتقاد رکھا کہ محمد رسول اﷲ کے ساتھ ساتھ وہ بھی اےک متواتر روحانی رابطہ رکھتے تھے جو کسی بھی عقیدت مند کے لئے قابل رسائی ہے ۔


ےہ امر باعث دلچسپی ہے کہ آج مسلمان جنوبی ایشیاءمیں اہم مذہبی تحریکیں شاہ ولی اﷲ کو اپنا فکری جدا مجد مانتی ہیں ۔زیادہ تر صوفی مخالف نکتہ نظر رکھنے والے دیگر جنوبی ایشیائی مسلمان ۔۔۔۔مثلااہلحدیث ۔۔۔اور حتی کہ مولانا مودودی کے پیروکار بھی اسلامی قانون کی بنیاد کی طرف شاہ ولی اﷲ کی رجعت اور خارجی اثرات کی سیاسی تردید کرنے پر انہیں اصلاحی عقائد کا نقیب سمجھتے ہیں ۔اسلامی جدت پسندوںنے شاہ ولی اﷲمیں ایک ایسا مفکر دیکھا جس نے مخالف قانونی اور نظریاتی فرقوں کو قرےب لاتے، اجہتاد کی بات کرتے ہوئے اور مذہبی روایت کی کتابی ہدایات مےں مخفی جذبہ کی تلاش کرتے ہوئے اپنے دور کے بحران کا جواب دیا ۔انہوں نے 1763میں وفات پائی

No comments:

Post a Comment