Tuesday, October 20, 2009

شیخ محمد میر المعروف میاں میر صاحبBuMuhammadAmirSultanChishti923016778069


شیخ محمد میر المعروف میاں میر صاحب
شیخ محمد میر المعروف میاں میر صاحبنام
938ہجرتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپکے صلح کل اختیارنے آپ کو اس قدر جاذبیت و مقبولیت عطا کی کہ اپنے تو اپنے غیروں تک نے آپ کی غلامی کا طوق اپنے زیب گلو کیا ۔ جس کی ایک زندہ مثال امر تسر کا دربار صاحب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جناب میاں میر ہی نے سکھوں کی درخواست پر اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا
جہانگیر نے ایک خط میں آپ کو یوں لکھا ?پیر دستگیر میر ازیں نیاز مند درگاہِ الٰہی جہانگیر?

ولادت:۔ 938ہجری یا 957ہجری میں سہوان (سندھ) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم قاضی سائیں دتہ فاروقی تمام سندھ میں نہایت معزز و ممتاز بزرگ شمار کےے جاتے تھے۔ تحفتہ الکرام میں لکھ ہے کہ قاضی سائیں دتہ حضرت عمر فاروق کی اولاد سے تھے۔ اور اپنے وقت کے ممتاز و متحبر علمائے اسلام میں سے تھے۔ آپ کا اسم گرامی شیخ محمد میر تھا مگر میا ں میر کے نام سے شہرت پائی۔ آپ کی والدہ ایک صاحب علم و عمل خاتون تھیں۔آپ نے انہیں سلسلہ قادریہ کے سلوک سے روشناس کرایا اور تعلیم دی اس کے بعد آپ قادری سلسلے کے ایک نامور بزرگ جناب شیخ سیوستانی کے مرید ہو گئے۔ آپ ایک طویل عرصے تک جناب شیخ کی خدمت میں حاضر رہے۔ جب آپ کی عمر پچیس برس کی ہوئی تو آپ جناب شیخ کی اجازت سے لاہور آ گئے۔ یہ اکبر کی حکومت کا زمانہ تھا۔ ان دنوں لاہور میں جناب مولانا سعد اللہ درس قرآن فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان کے درس میں شامل ہو گئے۔ اور ان سے خوب استفادہ کیا۔ ان کے علاوہ چند سال مفتی عبدالسلام لاہوری سے بھی اکتساب علم کیا۔


تکمیل علوم ظاہری و باطنی کے بعد آپ نے خلق خدا کی اصلاح و تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا۔ جس سے تھوڑی ہی مدت میں تمام لاہور میں آپ کی شہرت پھیل گئی۔ آپ کو نام و نمود اور شہرت سے چونکہ سخت نفرت تھی اس لیے چند روز کے لیے لاہور سے عازم سر ہند ہو گئے۔ ایک سال سرہند میں قیام کرنے کے بعد آپ لاہور میں واپس تشریف لے آئے۔ اور پھر آخر عمر تک یہیں رہے۔ جس مقام پر آپ نے قیام کیا۔ اسے محلہ باغبان کہتے ہیں جسے ان دنوں خانپورہ بھی کہتے ہیں ۔آپ نے سرہند سے واپس آ کر درس و تدریس کا سلسلہ پھر سے جاری کیا اور ایسے شاگردوں کی تعداد تیار کی جنہوں نے اسلام پھیلانے میں بڑا نمایاں کام کیا۔ آپ اپنے مریدوں اور شاگردوں پر خاص توجہ فرماتے۔ ان کی اصلاح فکر اور تہذیب نفس کو مقدم جانتے تھے۔ اور یہ کام چونکہ بڑا سخت ہے ۔ اس لیے آپ کسی کو اپنا مرید نہیں بناتے تھے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ جو شخص آپ کو ملنے کے لیے حاضر ہوتا۔ آپ اس سے بڑی خوش خلقی اور خنداں پیشانی سے پیش آتے ۔ اور ان کے حال پر اتنی شفقت فرماتے کہ اسے اس کا سو فیصدی پورا یقین ہو جاتا۔ کہ آپ صرف میرے حال پر ہی کرم فرماتے ہیں۔ لیکن اپنے مریدوں کے احوال پر خاص کر کڑی نظر رکھتے۔ ان سے اگر کوئی خلاف شریعت کام ہو جاتا تو انہیں سختی سے منع کرتے۔ اور آئیندہ کے لیے تنبیہہ فرما دیتے۔ ایک مرتبہ آپ کے مرید و خلیفہ ملاّ خواجہ بہاری نے آپ کی خدمت میں ایک واقعہ عرض کیا۔ بہاری نے کہا ایک روز کچھ لوگ میرے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک مکان گر جانے کے آثار پیدا ہوئے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ فوراً باہر چلے جاو?۔ سب لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ لیکن میں وہیں جم کے بیٹھا رہا۔ اور با آواز بلند کلمہ طیب پڑھتا رہا۔ حتٰی کہ چھت گری اور دو لکڑیاں آپس میں اس طرح ملیں جن کے درمیان میں سلامتی کے ساتھ بیٹھا ہوا ورد کر رہا تھا۔ جب آپ نے یہ واقعہ سنا تو آپ نے خواجہ بہاری سے کہا۔ ہائے مرتبہ ہائے مرتبہ۔ آپ نے خواجہ بہاری سے کہا کیا تم نے کلمہ طیب کو بلند آواز سے اس لیے پڑھا کہ لوگوں کے دل میں تمہاری درویشی کی قدروقیمت پیدا ہو جائے۔ اور لوگ تمہارے بارے میں یہ کہیں کہ کتنا بڑا درویش ہے کہ مرتے وقت بھی خدا کو یاد کرتا رہا۔ تمہیں چاہیے تھا کہ بلند آواز سے پڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پڑھتے۔


آپ کی بات صرف مریدوں تک ہی محدود نہ تھی ۔ بلکہ خود بھی ایسا کرتے۔ چنانچہ آپ کو تمام عمر کسی شخص نے کبھی ہاتھ میں تسبیح لیے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو حجرے کا دروازہ بند کئے بیٹھے رہتے۔ اور ذکر خدا میں مشغول رہتے۔ یہی سبب ہے کہ آپ سندھ سے لاہور تشریف لانے کے بعد بھی چالیس برس تک لاہور کے لوگوں میں گمنام رہے۔ عبادت و ریاضت اور مجاہدے سے انسان کی طبیعت ضبط نفس کو پا لیتی ہے۔ اور انسان میں جب یہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی روحانیت کا یہ لازمہ ہے کہ وہ مخالف کی تمام قوتوں کو مسخر کر لیتی ہے۔ پھر دنیا کی محبت اور کسی حاکم کی قوت نہ اسے اپنا غلام بنا سکتی ہے نہ اسے جیت سکتی ہے۔ سیر ت نگاروں نے لکھا ہے کہ اکثر بڑے بڑے امراءو وزراءاور بادشاہ جو آپ کے معتقد تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور بڑی بھاری بھاری رقمیں بطور نزرانہ پیش کرتے آپ فرماتے تم مجھے دنیا کا فقیر سمجھ کر یہ نذرانے لائے ہو۔ جاو? اسے لے جا کر مستحق لوگوں میں تقسیم کر دو میں دنیا کا فقیر نہیں اللہ کا ہوں۔ دارا لشکوہ نے لکھا ہے کہ میں نے کسی اللہ والے کو دنیا کو اتنا حقیر سمجھنے والا نہیں دیکھا جیسا کہ اپ تھے۔


جہانگیر نے تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ لاہور میں سندھ کے رہنے والے شیخ محمد نام کے ایک عالم باعمل اور نہایت فاضل و قابل بزرگ رہتے ہیں توّکل اور گوشہ عزلت ان کا شعار ہے۔ تو مجھے ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اور میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ لیکن بوجہ چند میرے لیے لاہور پہنچنا دشوار ہو گیا۔ ناچار میں نے ان کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا۔ اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ چنانچہ آپ میری درخواست پر دہلی تشریف لائے۔ اور ایک طویل عرصے تک مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع میسر آیا۔ اور بہت سے حقائق ومعارف ہاتھ آئے ۔ میں نے ہر چند ان کی خدمت میں کچھ ہدیے اور نذرانے پیش کرنے کی کوشش کی ۔ مگر ان کی شان فقر کو دیکھ کر اظہار کرنے کی جرا?ت نہ ہوئی۔ اس ملاقات پر جہانگیر نے آخر میں آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ میرے لیے کوئی خدمت ارشاد فرمائیں کسی چیز کی خواہش کریں۔ آپ نے فرمایا بس تم سے خواہش یہ ہے کہ اب مجھے رخصت کرو ۔ چنانچہ جہانگیر نے آپ کو نہایت ادب وا حترام کے ساتھ رخصت کیا۔ اور آپ لاہور واپس تشریف لے آئے۔


اس کے بعد جہانگیر نے آپ سے باقاعدہ خط و کتابت جاری رکھی۔ اکثر خود اپنے ہاتھ سے خط لکھتا اور آپ کے مقام و منصب اور ادب وا احترام کو ملحوظ رکھتا۔ ایک خط میں آپ کو یوں لکھا ?پیر دستگیر میر ازیں نیاز مند درگاہِ الٰہی جہانگیر? جہانگیر کےبعد جب شاہجہاں تخت حکومت پر بیٹھا اس نے بھی اپنے والد کی طرح بلکہ جہانگیر سے کچھ زیادہی آپ کی قدرو منزلت کی۔ وہ دو مرتبہ آپ کی خدمت میں لاہور حاضر ہوا اور بحوالہ دارالشکوہ دونوں مرتبہ اپنے باپ کے ہمراہ آیا۔ دارالشکوہ لکھتا ہے کہ جب شاہجہاں آپ کے حجرے میں داخل ہوا تو آپ نے سب سے پہلی بات جو شاہجہاں سے کہی وہ یہ تھی کہ عادل و منصف بادشاہ کو اپنی رعیت و سلطنت کی خبر گیری کرتے رہنا چاہئے۔ اور تمام قوتوں کو مملکت کے آباد و خوش حال کرنے کے لیے صرف کرنا چاہئے۔ کیونکہ رعیت اگر خوش حال اور ملک آباد ہے تو فوج میں اطمینان اور خزانے میں دولت کے انبار لگے رہیں گے۔ دارالشکوہ لکھتا ہے کہ بیس برس کی عمر میں ایک مرتبہ مجھے ایک ایسا مرض لاحق ہوا کہ بچنے کی امید نہ رہی۔ جب تمام طبیب عاجز آ گئے۔ کسی کی دوا کار گر نہ ہوئی تو شاہجہاں مجھے آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا کہ میرا یہ بیٹا کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفا کے لیے دعا فرمائیں آپ نے یہ سن کر دعا فرمائی ۔ اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مٹی کا وہ پیالہ جس میں خود پانی پیا کرتے تھے۔ پانی سے بھر کر مجھے دیا۔ جسے میں نے پی لیا۔ قدرت خدا کہ چند ہی روز میں بیماری بالکل ہی جاتی رہی۔ اور میں تندرست ہو گیا۔


علامہ اقبال نے اسرارورموز میں آپکی شان فقر سے متعلق ایک واقعہ نظم کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ شہنشاہ ہند آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ایک عرصے سے میں دکن کی مہم میں مصروف ہوں لیکن مہم سر ہونے میں نہیں آتی۔ آپ نے یہ سن کر خاموشی اختیار کی۔ اتفاق سے اسی وقت ایک مرید آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور چاندی کے چند سکےّ آپ کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا۔ میں نے انہیںبڑی محنت و مشقت کے ساتھ جائز طور پر کمایا ہے ۔ آپ انہیں بطور نذرانہ قبول فرما لیں۔ آپ نے فرمایا۔ یہ سکے شہنشاہ ہند کو دے دو جو باوجود بادشاہ ہونے کے اب بھی فقیر و گدا ہے۔ اگرچہ اس کی حکومت چاند سورج اور ستاروں پر ہے لیکن پھر بھی حرص و ہوس میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کو مفلس خیال کرتا ہے۔ دنیا بھر کی دولت میسر آنے کے باوجود اس کی نیت نہیں بھری ۔ وہ دوسروں کے دستر خوان پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اور حرص و ہوس کی بھوک نے اسے تمام جہان کو ہڑپ کرنے پر آمادہ کیا ہوا ہے۔ اس کی اس ناداری و ضرورت مندی سے خلق خدا سخت پریشان ہے۔ اس کی سطوت اہل دنیا کی دشمن ہے۔ اس کا کارواں نوعِ انسانی کا رہزن ہے۔ اس کی فکر خام نے لوٹ مار و قتل و غارت گری کا نام تسخیر رکھا ہے۔ خود اس کا لشکر اور اس کے غنیم کا لشکر اس کی بھوک کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ شاید اسے معلوم نہیں کہ فقیر کی بھوک کی آگ تو اسی کی حد تک محدود رہتی ہے ۔ لیکن بادشاہ کی بھوک کی آگ ملک وملت سب کو فنا کرد یتی ہے۔ اور شاید اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ جو شخص غیروں کے لیے تلوار اٹھاتا ہے ہو خود اپنے سینے میں خنجر گھونپتا ہے۔


جناب میاں میر کتاب و سنت پر عمل کرتے اور حدود شریعت سے قطعاً باہر نہیں جاتے تھے۔ آپ کے اوصاف حمیدہ و اخلاق حسنہ کے بارے میں دارالشکوہ نے لکھا کہ اگر یہ چیزیں با شکل انسان ہوتیں توجناب میاں میر ہوتے۔ آپ کا لباس ہمیشہ سادہ اور بہت معمولی قیمت کا ہوتا تھا۔ آپ سر پر پگڑی اور ایک موٹے کپڑے کا کرتہ پہنا کرتے تھے۔مگر صفائی اور پاکیزگی کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جب کبھی کپڑے میلے ہو جاتے انہیں دریا پر لے جاتے اور خود اپنے ہاتھ ہی سے دھوتے ۔ مریدین اور معتقدین کو بھی یہی تاکید فرمایا کرتے کہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ ہی سے کرنا چاہیے۔ اور لباسوں میںمعلوم نہیں ہوتا کہ وہ امیر ہے یا غریب ۔ خرقہ جو صوفیوں کا خاص لباس ہے آپ نے اس کے پہننے کا مطلق رواج نہیں دیا۔ آپ نے تمام عمر کچھ ایسی گوشہ? نشینی و گمنامی پسند فرمائی کہ باوجود اتنے بڑے عالم و فاضل اور صاحب فضل و کمال ہونے کے اپنی کوئی تصنیف نہیں چھوڑی ۔ آپ کے مضامین کی ندرت کو دیکھ کر بڑے بڑے علماءوفضلاءعش عش کر اٹھتے۔ اور نہایت عالمانہ انداز سے مسائل کو ایک ثانہ کی مہلت میں یوں حل کر کے رکھ دیتے کہ بڑے بڑے علماءدنگ رہ جاتے۔ لیکن اگر کوئی شخص آپ کے مضامین کو قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ۔ آپ اسے منع فرما دیتے تھے۔ آپ کے مریدوں کی تعداد بے شمار ہے۔ آپ قادری سلسلے کے بزرگ ہیں ۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے خلفاءسے فرمایا کہ دیکھو تم دوسروںکی دیکھا دیکھی کہیں میری ہڈیاں نہ بیچنے لگنا۔ اور میری قبر پر دوسروں کی طرح دکان نہ کھول لینا۔


آپ آخر عمر میں اسہال کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔ پانچ دن تک بیمار پڑے رہے۔ 7ربیع الاول 1054ہجری میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ نے وفات اسی محلہ خان پور میں اپنے حجرے میں پائی۔ جس میںآخر تک آپ بیٹھے رہے۔ اور وہیں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزار اورنگزیب عالم گیر نے تیار کروایا تھا۔ مگر اس کے مسالے کا اہتمام پہلے سے دارالشکوہ نے کیا تھا۔ مگر اسے موت سے مہلت نہیں ملی۔ کہ حکومت کے جھگڑوں میں قتل ہو گیا۔

میاں میر مسلک:۔ہندستان میں قادر ی سلسلے کا آغازسلطان سکندر لودھی کے زمانے میں جناب سید محمد غوث نے کیا جن کا سلسلہ نسب نوواسطوں سے جناب شیخ سید عبدالقادرجیلانی تک پہنچتا ہے۔ جناب سید محمد غوث 4128ہجری میں ملتان کے قریب روچھ نام کے ایک مقام پر آ کر مقیم ہوئے۔ اسلام کی تبلیغ شروع کی اور تصوف کے قادری سلسلے کو فروغ دیا ۔ اس زمانے میں وحدت الوجود کے خیالات مسلمانوں میں عام تھے جن کا آگے چل کر نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوو?ں اور مسلمانوں کے خیالات کو یکجا کر کے بھگتی کے نام سے ایک مذہبی تحریک جاری ہوئی جس کے بانی بھگت کبیر کہے جاتے ہیں۔ جو 1440ہجری میں پیدا ہوئے۔
جس زمانے میں جناب مجدد الف ثانی کی عالم گیر شخصیت قادری سلسلے کی راہ سے بالکل ہٹ کر قادریوں کے نظریہ وحدت الوجود کے خلاف اپنے مشہور نظریہ توحید شہودی کو پھیلا رہی تھی۔ اور تصوف میں ان کا سلسلہ نقشبند ی ہندوستان کے کونے کونے میں فروغ پا رہا تھا۔ جناب میاں میر صاحب جنہوں نے قادری سلسلے کی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سے پائی۔ لاہور میں اکیلے تن تنہا سب سے الگ تھلگ بیٹھ کر قادری سلسلے کو ترقی دے رہے تھے۔ اگرچہ میاں میر صاحب وحدت الوجود کے قائل تھے ہر چند یہ نظریہ مغل بادشاہوں کے مزاج کے موافق تھا۔ جہانگیر ، شاہجہاں اور دارالشکوہ آپکے مرید تھے اور آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ لیکن اس سے یہ رائے قائم کرنا کہ چونکہ میاں میر صاحب وحدت الوجود کے قائل تھے اور یہ نظریہ مغلوں کے مزاج سلطنت کے لیے نہایت مفید تھا اس لیے وہ آپ کے ارادت مند و عقیدت کیش تھے۔ سرا سر بے انصافی ہے درحقیقت یہ نتیجہ آپ کے صلح کل مشرب اختیار کرنے کا تھا ? جس نے آپ کو اس قدر جاذبیت و مقبولیت عطا کی کہ اپنے تو اپنے غیروں تک نے آپ کی غلامی کا طوق اپنے زیب گلو کیا ۔ جس کی ایک زندہ مثال امر تسر کا دربار صاحب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جناب میاں میر ہی نے سکھوں کی درخواست پر اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ جیسا کہ ایک مرتبہ جہانگیر نے آپ کو آگرے تشریف لانے کی دعوت دی آپ چلے تو گئے۔ لیکن جہانگیر کے پاس پہنچ کر اس کے سامنے حسب معمول پندو نصائخ کے دفتر کھولے۔ اور جہانگیر نے جب مطمئن ہو کر آپ سے عرض کیا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ارشاد فرمائیں آپ نے فرمایابس تمھارے لائق ایک ہی خدمت ہے کہ ہم فقیروں کو آئندہ اپنے پاس بلانے کی زحمت نہ دو۔

شہزادہ دارالشکوہ اپنی کتاب سفینتہ الاولیاءمیں لکھتا ہے کہ جناب میاں میر طریقت کے لحاظ سے اپنے زمانے کے جنید تھے۔ کسی کو آسانی سے اپنی ارادت مندی کے حلقے میں داخل نہیں کرتے تھے۔ اور جب کسی کو اپنا مرید بنا لیتے اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے۔ آپ کی عادت یہ تھی کہ اپنے مریدوں کو مرید کہنے کی بجائے دوست کہتے۔ جب کسی کو بلانا ہوتا تو فرماتے جاو? ہمارے فلاں دوست کو بلا لاو?۔ اور وقت کے حاکموں اور بادشاہوں سے کسی صورت میں بھی نذر و نیاز
یا ہدیے اور تحفے قبول نہیں کرتے تھے ۔ آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے۔
شرط اول در طریق عاشقی دانی کہ چیست
ترک کردن ہر دو عالم راو?پشت پازون

No comments:

Post a Comment