کسی نے سری سقطی سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے
ولادت: بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا اسی رعایت سے بغدادی کہلائے جناب مخدوم علی ہجویری نے آپ کا نام واسم گرامی کشف المحجوب میں اس طرح تحریر کیا ہے۔ شیخ المشایخ، اہلِ طریقت، امام الائمہ شریعت، ابوالقاسم جنید بغدادی ۔جناب جنید کی کنیت ابوالقاسم۔ لقب سیّدالطائفہ۔ طائوس العلماء قواریری و زجاج ہے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کے والد محترم آبگینہ فروش تھے۔ اسی رعایت سے آپ کو قواریری وزجاج کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ جناب سفیان ثوری کے تلامذہ کے شاگرد تھے۔ اور اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے مرید تھے۔ آپ کی عظمت کا اندازہ کچھ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کے ماموں سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے۔ شیخ ابو جعفرعدّاد کہتے کہ اگر عقل بہ شکل انسان ہوتی تو جنید کی صورت میں آتی آپ کے حکیمانہ و صوفیانہ اقوال اہلِ ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے سن ولادت کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطہ عروج پر تھے اور ماموںرشید کی مشاغل دینی و علمی سے والہیت کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے با کمال علماءو فضلاءجمع تھے۔
آ پ ابھی سات ہی برس کے تھے کہ اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے ساتھ حج کو گئے۔ جناب سری سقطی کے ساتھ ان کے بہت سے درویش بھی تھے۔ راستے میں ان سے دین کے مسائل پر بات چیت ہوتی آپ کے درویش باری باری اپنی معلومات اور عقل کے مطابق اظہار خیال کرتے ایک روز ان سے شکر کی تعریف پوچھی گئی سب نے اپنی اپنی سمجھ کے موافق جواب پیش کیا۔ مگر نکتہ کی بات کوئی نہ کہہ سکا سری سقطی نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا بیٹا تم بتائو؟ آپ نے کہا اللہ پاک کی نعمتوں کو پا کر اس کی نافرمانی نہ کرنا بس یہی شکر ہے۔ جناب جنید بغدادی کی تعلیم و تربیت آپ کے ماموں سری سقطی ہی کے التفات خصوصی کا نتیجہ ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ فقرو سلوک کے منازل طے کرنے کے ساتھ آپ ایک زبردست عالم دین اور فقیہہ بھی بنیں چنانچہ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ آپ بیس برس ہی کی عمر میں جناب ابو ثوری کے حلقے میں بیٹھ کر فتوے لکھنے لگے۔ ایک مرتبہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آ پ کچھ پریشان ہیں۔ پوچھا ماموں جان خیریت تو ہے۔ فرمایا ہاں خیریت ہے۔ آج ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا۔ پوچھتا تھا کہ توبہ کی کیا تعریف ہے؟ آپ نے جواباً عرض کیا توبہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں کو بالکل محو کر دے۔
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اوّل اوّل آپ وعظ کہتے ہوئے جھجکتے تھے۔ مگر جب آپ کو خواب میں محمد رسول اللہ ? کی زیارت ہوئی تو ان کے ارشاد پر آپ نے وعظ کہنا شروع کیا۔ اس عرصے میں آپ کے ماموں جناب شیخ سری انتقال کر چکے تھے۔ مگر جناب مخدوم علی ہجویری نے اس واقعہ کو جناب سری سقطی کی حیات ہی کے زمانے کا واقعہ لکھا ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ لوگوں نے جناب جنید بغدادی سے عرض کیا کہ اللہ تعالی نے آ پ کو شیریں و نکتہ آفریں زبان عطا فرمائی ہے ۔آپ کا بیان درد و سوز سے پرہوتاہے۔ آپ وعظ فرمایا کیجیے آپ نے کہا جب تک میرے شیخ و بزرگ ماموں زندہ ہیں ان کی زندگی میں وعظ کہنا میرے نزدیک خلافِ ادب ہے۔ اسی دوران میں ایک روز جنابِ محمدّرسول اللہکی آپ کو زیارت نصیب ہوئی آپ نے فرمایا اے جنید ، خدا کی مخلوق کو ضرور وعظ سنایا کرو۔ کیونکہ اللہ میاں نے تمہارے وعظ کو مسلمانوںکی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا ہے۔ جب آ پ بیدار ہوئے تو دل میں خیال آیا کہ اب میرا مرتبہ شیخ سری سے بڑھ گیا ہے جبھی تو جناب محمدّرسول اللہنے مجھے وعظ کہنے کا حکم دیا ہے۔ جب صبح ہوئی تو آپ کے ماموں نے آپ کے پاس ایک درویش کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اب تو جناب محمدّرسول اللہنے بھی تمہیں حکم دیا ہے اس لیے اب اس کی تعمیل کرنا تم پر فرض ہے جناب جنید نے فرمایا کہ میرے دل میں جناب ماموں پر برتری پانے کا جو خیال آیا تھا وہ یک لخت نکل گیا۔
جناب جنید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے دل میں شیطان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی چنانچہ ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی آتے ہوئے دکھائی دیا جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اس کو دیکھ کر سخت نفرت ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟اس نے کہا میں وہی ہوں جسے تم دیکھنا چاہتے تھے تب میں نے اس سے پوچھا ، اے گستاخ تجھے کس بات نے روکا کہ تو آدم کو سجدہ نہ کرے۔ وہ کہنے لگا اے جنید تم جیسے موحد کے دل میں یہ خیال کیونکر پیدا ہوا؟ کہ میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کروں مجھے اس کا جواب سن کر کوئی جواب نہ بن پڑا بہت حیران ہوا قریب تھا کہ میرا ایمان متزلزل ہو جائے مجھے غیب سے ندا آئی اے جنید اس سے کہ دے کہ تو بالکل جھوٹا ہے اگر تو اللہ میاں کی ذات پر بھروسہ اور اس کے اختیارات پر ایمان رکھتا تو کبھی حکم عدولی نہ کرتا پس شیطان نے میرے دل کی آواز سن لی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ جناب جنید بغدادی کے مزاج میں حلم اور بردباری قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھری تھی طبیعت میں سنجیدگی ، متانت و شفقت آپ کا خاص جوہر تھا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ علماءاور صوفیاءدونوں گروہوں میں نہایت معزز و محترم تھے ہر چند بعض شرپسند طبا ئع نے آپ سے حسد کیا اور آپ کو تکالیف پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ میاں کی نصرت و تائید ایزدی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کے زہدوتقوے کو توڑنے کے لیے ایک مرتبہ شرپسندوںنے آپ کے پاس ایک نازنین، حو روش پری تمثال عورت کو بھیجا ۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نہایت انکسار و عجز کے ساتھ گڑ گڑا کر استدعا کی کہ آپ مجھے اپنی صحبت میں رکھ لیجئے اور اللہ اللہ کرنا سکھا دیجئے آپ اس کی باتوں کو سر جھکائے بغور سنتے رہے اور اس کے بعد اللہ کہہ کر ایک آہ جو کھینچی تو وہ تڑپ کر گری اور گرتے ہی دم نکل گیا۔
معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کی آو از اثر سے خالی نہیں جاتی اللہ اپنے بندوں کی ہر طریقے سے مدد کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں اللہ جلد یا بدیر ضرور انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک عورت روتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ میرا بیٹا کہیں کھو گیا ہے دعا فرمایئے کہ وہ مل جائے تو آپ نے فرمایا جا بی بی جا صبر کر وہ عورت چلی گئی مگر تھوڑی دیر کے بعدپھر حاضر ہوئی اور دعا کے لئے عرض کیا آپ نے اسے پھر یہی جواب دیا چنانچہ وہ چلی گئی لیکن مامتا کی ماری ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھ سکی وہ تیسری مرتبہ پھر حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ اب میرا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا۔ اب مجھ میں صبر کی طاقت نہیں رہی آپ دعا فرمائیں آپ نے فرمایا اب بی بی اگر یہی بات ہے تو جا گھر چلی جا سمجھ لے کہ اللہ میاں کے فضل و کرم سے تیرا بیٹا گھر آ گیا چنانچہ وہ عورت گھر چلی گئی اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا سچ مچ آ گیا وہ فوراًاس کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لوگوں نے اس واقعہ پر بڑا تعجب کیا آپ نے جواب میں قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی َ ?ومن یجیب المضطر اذ ادعاہ و یکشف السوئ? فرمایا کہ جب اس عورت میں ضبط کی طاقت نہ رہی تو کیا وجہ تھی کہ اللہ میاں اس کی نہ سنتا اور دعا قبول نہ کرتا۔ تصوف کا علمی دور آپ کا زمانہ تیسری ھجری کا وہ علمی دور ہے جس میں تصوف نے ایک جداگانہ مسلک کی حیثیت پائی۔ آپ ہی کے زمانے میں علم تصوف پر تالیفات و تصنیفا ت کا آغاز ہوا۔تذکرةالاولیاءمیں خواجہ فریدالدین عطار لکھتے ہیں کہ ?کسے کہ علم اشارت منتشر کرد جنید بغدادی بود? یعنی جس شخص نے سب سے پہلے علم اشارہ کی اشاعت کی وہ جنید بغدادی تھے۔ علم کے بارے میں بھی آپ ہی کے زمانے میں کہا گیا کہ علم کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری دوسرے باطنی۔ ظاہری سے مراد شریعت اور باطنی سے مراد طریقت ۔ اسی زمانے میں یہ رائے بھی قائم کی گئی کہ باطنی علوم سب سے پہلے جنابِ محمدّ رسول اللہ سے جنابِ علی کرم اللہ وجہ، نے حاصل کئے پھر ان سے جناب خواجہ حسن بصری نے پھر ان سے دیگر تمام بزرگان دین سے یکے بعد دیگرے سینہ بہ سینہ حاصل کرتے چلے آئے اسی مناسبت سے علم تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علم سفینہ نہیں بلکہ علم سینہ ہے۔ کہا گیا کہ شریعت سے انسان حقیقت کو پاتا ہے اور طریقت سے اسے معرفت حق حاصل ہوتی ہے۔ گویا شر یعت،طریقت، حقیقت و معرفت ہی وہ عناصر چہارگانہ ہیں جو قدیم صوفیائے کرام کے تصوف کو صوفیائے متاخرین سے علیحدہ کرتے ہیں یہی وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے عالموں اور صوفیوں کے درمیان ایک مستقل نزاع شروع ہوا علمائے کرام اور صوفیا کرام دو علیحدہ گروہ بن گئے ۔
سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی اس سلسلے کے پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر کہ شریعت اور طریقت اسلام کی دو مختلف راہیں نہیں بلکہ ایک ہی تعلیم کے دو پہلو ہیں اس تنازع کو ختم کرنے کی کو شش فرمائی ہے۔ تصوف کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔ ہر برے اخلاق سے علیحدہ رہنا اور اچھے اخلاق اختیار کرنا تصوف ہے۔ تصوف کا علم کتاب و سنت سے باہر نہیں جس نے قرآن مجید نہیں پڑھا اور حدیث نہیں لکھی وہ تصوف میں بات کرنے کا اہل نہیں۔اہلِ تصوف کا سب سے بڑا سرمایہ فقر ہے۔ فقر تمام شکلوں سے دل کو خالی کر دینے کا نام ہے۔ وہ اہلِ فقر سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں ۔ اے فقراءتم اللہ میاںکی معیت ہی سے پہچانے جاتے ہو۔ اور اسی سبب سے تمہاری عزت کی جاتی ہے۔ پس تم جب اللہ تعالیٰ کےساتھ خلوت میں ہوتے ہو تو غور کرو تمہارا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کتنا مضبوط اور کس قدر استوار ہے۔ صاحبِ کشف المحجوب اس عبارت کی تشریح فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادینے فرمایا اے درویشو خلق خدا تمہیں درویش کہتی اور تمہارا حق ادا کرتی ہے تمہیں بھی غور کرنا چاہیے کہ تم درویشی کی راہ کے تقاضے کیونکر پورے کرتے ہو۔ اور اگر پورے نہیں کرتے اور خلق خدا تمہیں کسی دوسرے نام سے پکارے تو اس حل میں تمہیں بھی ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تم بھی اپنے دعوے میں انصاف و راستبازی سے کام نہیں لے رہے۔ وہ شخص جو اپنے دعوے کے خلاف چلے اس کی مثال اس طبیب جیسی ہے جو فن طبابت کے بلند و بانگ دعوے کر کے بیماروں کو اپنے پاس بلاتا ہے لیکن فن طبابت سے بالکل نا واقف ہے۔ اس طرح بیماروں کی بیماریاں گھٹنے کی بجائے بڑھتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ خود بیمار پڑ جائے تو اپنا بھی علاج نہ کر سکے اور وہ دوسروں کے پاس جانے پر مجبور ہو۔ قدیم صوفیاءکا دور جن بزرگانِ دین کے نام سے عبارت ہے ان میں سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی کا اسم گرامی سر فہرست ہے آپ کے علاوہ اس دور کے جن دوسرے بزرگوں نے بھی شہرت پائی ان میں جناب جنید بغدادی کے خلیفہ و مرید شیخ ابو بکر شبلی، ابو علی ثفقی، شیخ سہیل بن عبداللہ تستری، شیخ علی رودباری، شیخ ابو بکر طمستانی، با یزید بسطامی ، ابو بکر شفاف، حسین نوری ، سری سقطی ، اسماعیل بن نجید،ابو عثمان جری ، وغیرہ شیوخِ عظام کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
اللہ اور اللہ کے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرنا ہاتھ پیر ہلا کر حق حلال کی روزی کمانا۔ بلا امتیاز و تخصیص تمام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا ۔ ظاہرو باطن ایک ہونا۔ اور اعمال میں اخلاص کا پیدا کرنا صوفیائے قدیم کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ مختصراً یہ کہ تابعین و تبع تابعین کے دور کو قدیم صوفیاءکا دور کہا جاتا ہے مگر جن صوفیوں نے تصوف کے نام پر اپنے آپ کو علم وعمل سے بیگانہ کر لیا در حقیقت انہوں نے اولیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ۔ تصوف کے بارے میںابو بکر طمستانی کہتے ہیں : راستہ کھلا ہوا ہے اور کتاب و سنت ہمارے سامنے موجود ہے۔ بایزید بسطامی کہتے ہیں: اگر کسی شخص کو دیکھو کہ اسے اتنی کرامتیں دی گئی ہیں کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس سے دھوکہ نہ کھائو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ وہ امرونہی اور حدود شریعت میں کیسا ہے؟ ابو بکر شفاف کہتے ہیں: جس نے ظاہرو امرو نہی کے حدود کا خیال نہیں رکھا وہ دل کے مشاہدہ باطنی سے محروم رہا۔ حسین نوری کہتے ہیں: اگر ایک شخص کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اسے علم شریعت کی حد سے نکال دیتی ہے تو اس کے قریب نہ جائو۔ اور اگر ایک شخص کو دیکھو کہ وہ ایک ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور ظاہری احکام کی پابندی اس کی شہادت نہیں دیتی تو اس کے دین پر تہمت لگائو۔ سری سقطی کہتے ہیں: جس شخص نے ایسی باطنی حقیقت کا دعویٰ کیا جس کی تردید شریعت کے ظاہری حکم سے ہوتی ہے اس نے غلطی کی ۔ اسمعٰیل نجید کہتے ہیں: امرونہی پر صبر کرنا تصوف ہے۔ جناب جنیدمر ض الموت میں بھی تکیہ پر منہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ ان کے منہ پر ورم تھا کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا ایسی حالت میں بھی نماز نہیں چھوڑی جا سکتی آپ نے فرمایا نماز ہی کے ذریعے سے خدا تک پہنچا ہوں اس لیے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا اور اس کے چند گھنٹے بعد آپ مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔ آپ نے دارالفنا سے دارالبقا کی طرف298ھ میں کوچ کیا۔ وجدو سماع کی محفلوں کا رواج بھی آپ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ لیکن آپ اور دوسرے تمام صوفیائے قدیم ان محفلوں سے کلّی اجتناب کرتے رہے۔ محدث ابن جنیدی نے لکھا ہے کہ شروع شروع قوالی میں صرف زاہدانہ اشعار و قصائد تھے۔ متاخرین صوفیاءکے دور میں عاشقانہ اشعار اور گانے کا رواج ہوا جناب جنید بغدادی فرماتے ہیں ?کہ جب تم کسی مرید کو سماع میں مشغول دیکھو تو یقین کر لو کہ اس میں لہو و لعب کا کچھ حصہ باقی رو گیا ہے ?۔ حسین نوری کہتے ہیں جب ? تم مرید کو دیکھو کہ وہ قصائد سن رہا ہے اور راحت طلبی کی طرف مائل ہے تب اس سے بھلای کی توقع نہ رکھو? فریدالدین عطارنے تذکرةالاولیاءمیں لکھا ہے کہ اگرچہ تصوف کی عام اشاعت جناب جنید بغدادی ہی سے ہوئی ہے لیکن آپ کالباس(پشیمنہ) صوفیاءکی بجائے عا لموں کا تھا۔ جناب مخدوم علی ہجویری کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادی کے نزدیک تصوف کی بنیاد8خصلتوں پر ہے اوّل سخاوت، (جناب ابراہیم کی) دوم رضا (اسماعیل کی) سوم صبر(جناب ایوب صابرکا)چہارم اشارہ( جناب زکریا کا) پنجم غربت(جناب یحیٰ کی)ششم سیاحت(جناب عیسٰی کی)ہفتم اون کا لباس(جناب موسٰی کا) ہشتم فقر(جناب حضرت محمدّر سول اللہ کا)یعنی آٹھ خصلتیں جن سے ان پیغمبران اولوالعزم کی سنّت پوری ہوتی ہے تصوف کی بنیاد ہیں۔
شطحیات: ایسے الفاظ و کلمات جو بعض اوقات حدود شریعت سے متجاوزہو جاتے ہیں تصوف کی اصطلاح میں ?شطحیات?کہلاتے ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے زمانے میں شطحیات عام تھے مگر آپ نے ان کلمات کے ادا کرنے والوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی لکھا ہے ایک مرتبہ آپ کی خانقاہ میں ایک فقیر کالی گدڑی پہنے ہوئے آیا۔ آپ نے اس کی ماتم داری و سیاہ پوشی کا سبب پوچھا۔ اس نے کہا میرے خدا کی وفات ہو گئی۔ اس پر آپ نے اسے تین مرتبہ خانقاہ سے باہر نکل جانے کا حکم دیا لیکن فقیر نے اس طرح توضیح و تشریح کر کے جناب جنید کے غیض و غضب سے رہائی پائی کہا کہ میرا نفس مظہر خدا ہے میں نے اسے قتل کر دیا ہے اس لیے اب اس کا ماتم دار ہوں۔ منصور حلاج کے نعرہ اناا لحق کا قصّہ آ پکے زمانے کا سب سے زیادہ مشہور واقعہ ہے۔ مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ عین ممکن ہے کہ علامہ جوزی کی یہ رائے غلط نہیں کہ منصور نے سیدھے راستے چھوڑ کر گمراہی کی راہ اختیار کی اور بالآخر جناب جنید بغدادی ہی کو منصور کے قتل کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرنی پڑی۔ |
No comments:
Post a Comment