Tuesday, October 20, 2009

ابوالقاسم جنید بغدادی مخدوم داتا گنج بخش علی ہجویریفرید الدین مسعود گنج شکر


ابوالقاسم جنید بغدادینام
وجھ شھرت
آپ کے حکیمانہ و صوفیانہ اقوال اہلِ ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ شیخ ابو جعفرعدّاد کہتے ہیںکہ اگر عقل بہ شکل انسان ہوتی تو جنید کی صورت میں آتی

کسی نے سری سقطی سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے

ولادت: بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا اسی رعایت سے بغدادی کہلائے جناب مخدوم علی ہجویری نے آپ کا نام واسم گرامی کشف المحجوب میں اس طرح تحریر کیا ہے۔ شیخ المشایخ، اہلِ طریقت، امام الائمہ شریعت، ابوالقاسم جنید بغدادی ۔جناب جنید کی کنیت ابوالقاسم۔ لقب سیّدالطائفہ۔ طائوس العلماء قواریری و زجاج ہے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کے والد محترم آبگینہ فروش تھے۔ اسی رعایت سے آپ کو قواریری وزجاج کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ جناب سفیان ثوری کے تلامذہ کے شاگرد تھے۔ اور اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے مرید تھے۔ آپ کی عظمت کا اندازہ کچھ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کے ماموں سے دریافت کیا کہ کو ئی مرید آپ کی نظر میں کیا ایسا بھی ہے جو مرتبہ و مقام میں اپنے مرشد سے بڑھ گیا ہو؟آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ وہ جنید ہے۔ شیخ ابو جعفرعدّاد کہتے کہ اگر عقل بہ شکل انسان ہوتی تو جنید کی صورت میں آتی آپ کے حکیمانہ و صوفیانہ اقوال اہلِ ایمان کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے سن ولادت کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطہ عروج پر تھے اور ماموںرشید کی مشاغل دینی و علمی سے والہیت کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے با کمال علماءو فضلاءجمع تھے۔

آ پ ابھی سات ہی برس کے تھے کہ اپنے ماموں جناب شیخ سری سقطی کے ساتھ حج کو گئے۔ جناب سری سقطی کے ساتھ ان کے بہت سے درویش بھی تھے۔ راستے میں ان سے دین کے مسائل پر بات چیت ہوتی آپ کے درویش باری باری اپنی معلومات اور عقل کے مطابق اظہار خیال کرتے ایک روز ان سے شکر کی تعریف پوچھی گئی سب نے اپنی اپنی سمجھ کے موافق جواب پیش کیا۔ مگر نکتہ کی بات کوئی نہ کہہ سکا سری سقطی نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا بیٹا تم بتائو؟ آپ نے کہا اللہ پاک کی نعمتوں کو پا کر اس کی نافرمانی نہ کرنا بس یہی شکر ہے۔ جناب جنید بغدادی کی تعلیم و تربیت آپ کے ماموں سری سقطی ہی کے التفات خصوصی کا نتیجہ ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ فقرو سلوک کے منازل طے کرنے کے ساتھ آپ ایک زبردست عالم دین اور فقیہہ بھی بنیں چنانچہ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ آپ بیس برس ہی کی عمر میں جناب ابو ثوری کے حلقے میں بیٹھ کر فتوے لکھنے لگے۔ ایک مرتبہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آ پ کچھ پریشان ہیں۔ پوچھا ماموں جان خیریت تو ہے۔ فرمایا ہاں خیریت ہے۔ آج ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا۔ پوچھتا تھا کہ توبہ کی کیا تعریف ہے؟ آپ نے جواباً عرض کیا توبہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں کو بالکل محو کر دے۔

بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اوّل اوّل آپ وعظ کہتے ہوئے جھجکتے تھے۔ مگر جب آپ کو خواب میں محمد رسول اللہ ? کی زیارت ہوئی تو ان کے ارشاد پر آپ نے وعظ کہنا شروع کیا۔ اس عرصے میں آپ کے ماموں جناب شیخ سری انتقال کر چکے تھے۔ مگر جناب مخدوم علی ہجویری نے اس واقعہ کو جناب سری سقطی کی حیات ہی کے زمانے کا واقعہ لکھا ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ لوگوں نے جناب جنید بغدادی سے عرض کیا کہ اللہ تعالی نے آ پ کو شیریں و نکتہ آفریں زبان عطا فرمائی ہے ۔آپ کا بیان درد و سوز سے پرہوتاہے۔ آپ وعظ فرمایا کیجیے آپ نے کہا جب تک میرے شیخ و بزرگ ماموں زندہ ہیں ان کی زندگی میں وعظ کہنا میرے نزدیک خلافِ ادب ہے۔ اسی دوران میں ایک روز جنابِ محمدّرسول اللہکی آپ کو زیارت نصیب ہوئی آپ نے فرمایا اے جنید ، خدا کی مخلوق کو ضرور
وعظ سنایا کرو۔ کیونکہ اللہ میاں نے تمہارے وعظ کو مسلمانوںکی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا ہے۔ جب آ پ بیدار ہوئے تو دل میں خیال آیا کہ اب میرا مرتبہ شیخ سری سے بڑھ گیا ہے جبھی تو جناب محمدّرسول اللہنے مجھے وعظ کہنے کا حکم دیا ہے۔ جب صبح ہوئی تو آپ کے ماموں نے آپ کے پاس ایک درویش کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اب تو جناب محمدّرسول اللہنے بھی تمہیں حکم دیا ہے اس لیے اب اس کی تعمیل کرنا تم پر فرض ہے جناب جنید نے فرمایا کہ میرے دل میں جناب ماموں پر برتری پانے کا جو خیال آیا تھا وہ یک لخت نکل گیا۔

جناب جنید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے دل میں شیطان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی چنانچہ ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی آتے ہوئے دکھائی دیا جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اس کو دیکھ کر سخت نفرت ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟اس نے کہا میں وہی ہوں جسے تم دیکھنا چاہتے تھے تب میں نے اس سے پوچھا ، اے گستاخ تجھے کس بات نے روکا کہ تو آدم کو سجدہ نہ کرے۔ وہ کہنے لگا اے جنید تم جیسے موحد کے دل میں یہ خیال کیونکر پیدا ہوا؟ کہ میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کروں مجھے اس کا جواب سن کر کوئی جواب نہ بن پڑا بہت حیران ہوا قریب تھا کہ میرا ایمان متزلزل ہو جائے مجھے غیب سے ندا آئی اے جنید اس سے کہ دے کہ تو بالکل جھوٹا ہے اگر تو اللہ میاں کی ذات پر بھروسہ اور اس کے اختیارات پر ایمان رکھتا تو کبھی حکم عدولی نہ کرتا پس شیطان نے میرے دل کی آواز سن لی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ جناب جنید بغدادی کے مزاج میں حلم اور بردباری قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھری تھی طبیعت میں سنجیدگی ، متانت و شفقت آپ کا خاص جوہر تھا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ علماءاور صوفیاءدونوں گروہوں میں نہایت معزز و محترم تھے ہر چند بعض شرپسند طبا ئع نے آپ سے حسد کیا اور آپ کو تکالیف پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ میاں کی نصرت و تائید ایزدی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کے زہدوتقوے کو توڑنے کے لیے ایک مرتبہ شرپسندوںنے آپ کے پاس ایک نازنین، حو روش پری تمثال عورت کو بھیجا ۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نہایت انکسار و عجز کے ساتھ گڑ گڑا کر استدعا کی کہ آپ مجھے اپنی صحبت میں رکھ لیجئے اور اللہ اللہ کرنا سکھا دیجئے آپ اس کی باتوں کو سر جھکائے بغور سنتے رہے اور اس کے بعد اللہ کہہ کر ایک آہ جو کھینچی تو وہ تڑپ کر گری اور گرتے ہی دم نکل گیا۔

معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کی آو از اثر سے خالی نہیں جاتی اللہ اپنے بندوں کی ہر طریقے سے مدد کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں اللہ جلد یا بدیر ضرور انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک عورت روتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ میرا بیٹا کہیں کھو گیا ہے دعا فرمایئے کہ وہ مل جائے تو آپ نے فرمایا جا بی بی جا صبر کر وہ عورت چلی گئی مگر تھوڑی دیر کے بعدپھر حاضر ہوئی اور دعا کے لئے عرض کیا آپ نے اسے پھر یہی جواب دیا چنانچہ وہ چلی گئی لیکن مامتا کی ماری ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھ سکی وہ تیسری مرتبہ پھر حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ اب میرا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا۔ اب مجھ میں صبر کی طاقت نہیں رہی آپ دعا فرمائیں آپ نے فرمایا اب بی بی اگر یہی بات ہے تو جا گھر چلی جا سمجھ لے کہ اللہ میاں کے فضل و کرم سے تیرا بیٹا گھر آ گیا چنانچہ وہ عورت گھر چلی گئی اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا سچ مچ آ گیا وہ فوراًاس کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لوگوں نے اس واقعہ پر بڑا تعجب کیا آپ نے جواب میں قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی َ ?ومن یجیب المضطر اذ ادعاہ و یکشف السوئ? فرمایا کہ جب اس عورت میں ضبط کی طاقت نہ رہی تو کیا وجہ تھی کہ اللہ میاں اس کی نہ سنتا اور دعا قبول نہ کرتا۔
تصوف کا علمی دور
آپ کا زمانہ تیسری ھجری کا وہ علمی دور ہے جس میں تصوف نے ایک جداگانہ مسلک کی حیثیت پائی۔ آپ ہی کے زمانے میں علم تصوف پر تالیفات و تصنیفا ت کا آغاز ہوا۔تذکرةالاولیاءمیں خواجہ فریدالدین عطار لکھتے ہیں کہ ?کسے کہ علم اشارت منتشر کرد جنید بغدادی بود? یعنی جس شخص نے سب سے پہلے علم اشارہ کی اشاعت کی وہ جنید بغدادی تھے۔ علم کے بارے میں بھی آپ ہی کے زمانے میں کہا گیا کہ علم کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری دوسرے باطنی۔ ظاہری سے مراد شریعت اور باطنی سے مراد طریقت ۔ اسی زمانے میں یہ رائے بھی قائم کی گئی کہ باطنی علوم سب سے پہلے جنابِ محمدّ رسول اللہ سے جنابِ علی کرم اللہ وجہ، نے حاصل کئے پھر ان سے جناب خواجہ حسن بصری نے پھر ان سے دیگر تمام بزرگان دین سے یکے بعد دیگرے سینہ بہ سینہ حاصل کرتے چلے آئے اسی مناسبت سے علم تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علم سفینہ نہیں بلکہ علم سینہ ہے۔ کہا گیا کہ شریعت سے انسان حقیقت کو پاتا ہے اور طریقت سے اسے معرفت حق حاصل ہوتی ہے۔ گویا شر یعت،طریقت، حقیقت و معرفت ہی وہ عناصر چہارگانہ ہیں جو قدیم صوفیائے کرام کے تصوف کو صوفیائے متاخرین سے علیحدہ کرتے ہیں یہی وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے عالموں اور صوفیوں کے درمیان ایک مستقل نزاع شروع ہوا علمائے کرام اور صوفیا کرام دو علیحدہ گروہ بن گئے ۔

سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی اس سلسلے کے پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر کہ شریعت اور طریقت اسلام کی دو مختلف راہیں نہیں بلکہ ایک ہی تعلیم کے دو پہلو ہیں اس تنازع کو ختم کرنے کی کو شش فرمائی ہے۔ تصوف کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔ ہر برے اخلاق سے علیحدہ رہنا اور اچھے اخلاق اختیار کرنا تصوف ہے۔ تصوف کا علم کتاب و سنت سے باہر نہیں جس نے قرآن مجید نہیں پڑھا اور حدیث نہیں لکھی وہ تصوف میں بات کرنے کا اہل نہیں۔اہلِ تصوف کا سب سے بڑا سرمایہ فقر ہے۔ فقر تمام شکلوں سے دل کو خالی کر دینے کا نام ہے۔ وہ اہلِ فقر سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں ۔ اے فقراءتم اللہ میاںکی معیت ہی سے پہچانے جاتے ہو۔ اور اسی سبب سے تمہاری عزت کی جاتی ہے۔ پس تم جب اللہ تعالیٰ کےساتھ خلوت میں ہوتے ہو تو غور کرو تمہارا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کتنا مضبوط اور کس قدر استوار ہے۔ صاحبِ کشف المحجوب اس عبارت کی تشریح فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادینے فرمایا اے درویشو خلق خدا تمہیں درویش کہتی اور تمہارا حق ادا کرتی ہے تمہیں بھی غور کرنا چاہیے کہ تم درویشی کی راہ کے تقاضے کیونکر پورے کرتے ہو۔ اور اگر پورے نہیں کرتے اور خلق خدا تمہیں کسی دوسرے نام سے پکارے تو اس حل میں تمہیں بھی ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تم بھی اپنے دعوے میں انصاف و راستبازی سے کام نہیں لے رہے۔ وہ شخص جو اپنے دعوے کے خلاف چلے اس کی مثال اس طبیب جیسی ہے جو فن طبابت کے بلند و بانگ دعوے کر کے بیماروں کو اپنے پاس بلاتا ہے لیکن فن طبابت سے بالکل نا واقف ہے۔ اس طرح بیماروں کی بیماریاں گھٹنے کی بجائے بڑھتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ خود بیمار پڑ جائے تو اپنا بھی علاج نہ کر سکے اور وہ دوسروں کے پاس جانے پر مجبور ہو۔ قدیم صوفیاءکا دور جن بزرگانِ دین کے نام سے عبارت ہے ان میں سیّدالطائفہ جناب جنید بغدادی کا اسم گرامی سر فہرست ہے آپ کے علاوہ اس دور کے جن دوسرے بزرگوں نے بھی شہرت پائی ان میں جناب جنید بغدادی کے خلیفہ و مرید شیخ ابو بکر شبلی، ابو علی ثفقی، شیخ سہیل بن عبداللہ تستری، شیخ علی رودباری، شیخ ابو بکر طمستانی، با یزید بسطامی ، ابو بکر شفاف، حسین نوری ، سری سقطی ، اسماعیل بن نجید،ابو عثمان جری ، وغیرہ شیوخِ عظام کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

اللہ اور اللہ کے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرنا ہاتھ پیر ہلا کر حق حلال کی روزی کمانا۔ بلا امتیاز و تخصیص تمام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا ۔ ظاہرو باطن ایک ہونا۔ اور اعمال میں اخلاص کا پیدا کرنا صوفیائے قدیم کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ مختصراً یہ کہ تابعین و تبع تابعین کے دور کو قدیم صوفیاءکا دور کہا جاتا ہے مگر جن صوفیوں نے تصوف کے نام پر اپنے آپ کو علم وعمل سے بیگانہ کر لیا در حقیقت انہوں نے اولیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ۔ تصوف کے بارے میںابو بکر طمستانی کہتے ہیں : راستہ کھلا ہوا ہے اور کتاب و سنت ہمارے سامنے موجود ہے۔
بایزید بسطامی کہتے ہیں: اگر کسی شخص کو دیکھو کہ اسے اتنی کرامتیں دی گئی ہیں کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس سے دھوکہ نہ کھائو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ وہ امرونہی اور حدود شریعت میں کیسا ہے؟
ابو بکر شفاف کہتے ہیں: جس نے ظاہرو امرو نہی کے حدود کا خیال نہیں رکھا وہ دل کے مشاہدہ باطنی سے محروم رہا۔
حسین نوری کہتے ہیں: اگر ایک شخص کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اسے علم شریعت کی حد سے نکال دیتی ہے تو اس کے قریب نہ جائو۔ اور اگر ایک شخص کو دیکھو کہ وہ ایک ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور ظاہری احکام کی پابندی اس کی شہادت نہیں دیتی تو اس کے دین پر تہمت لگائو۔
سری سقطی کہتے ہیں: جس شخص نے ایسی باطنی حقیقت کا دعویٰ کیا جس کی تردید شریعت کے ظاہری حکم سے ہوتی ہے اس نے غلطی کی ۔
اسمعٰیل نجید کہتے ہیں: امرونہی پر صبر کرنا تصوف ہے۔
جناب جنیدمر ض الموت میں بھی تکیہ پر منہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ ان کے منہ پر ورم تھا کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا ایسی حالت میں بھی نماز نہیں چھوڑی جا سکتی آپ نے فرمایا نماز ہی کے ذریعے سے خدا تک پہنچا ہوں اس لیے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا اور اس کے چند گھنٹے بعد آپ مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔ آپ نے دارالفنا سے دارالبقا کی طرف298ھ میں کوچ کیا۔ وجدو سماع کی محفلوں کا رواج بھی آپ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ لیکن آپ اور دوسرے تمام صوفیائے قدیم ان محفلوں سے کلّی اجتناب کرتے رہے۔ محدث ابن جنیدی نے لکھا ہے کہ شروع شروع قوالی میں صرف زاہدانہ اشعار و قصائد تھے۔ متاخرین صوفیاءکے دور میں عاشقانہ اشعار اور گانے کا رواج ہوا جناب جنید بغدادی فرماتے ہیں ?کہ جب تم کسی مرید کو سماع میں مشغول دیکھو تو یقین کر لو کہ اس میں لہو و لعب کا کچھ حصہ باقی رو گیا ہے ?۔ حسین نوری کہتے ہیں جب ? تم مرید کو دیکھو کہ وہ قصائد سن رہا ہے اور راحت طلبی کی طرف مائل ہے تب اس سے بھلای کی توقع نہ رکھو? فریدالدین عطارنے تذکرةالاولیاءمیں لکھا ہے کہ اگرچہ تصوف کی عام اشاعت جناب جنید بغدادی ہی سے ہوئی ہے لیکن آپ کالباس(پشیمنہ) صوفیاءکی بجائے عا لموں کا تھا۔ جناب مخدوم علی ہجویری کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جناب جنید بغدادی کے نزدیک تصوف کی بنیاد8خصلتوں پر ہے اوّل سخاوت، (جناب ابراہیم کی) دوم رضا (اسماعیل کی) سوم صبر(جناب ایوب صابرکا)چہارم اشارہ( جناب زکریا کا) پنجم غربت(جناب یحیٰ کی)ششم سیاحت(جناب عیسٰی کی)ہفتم اون کا لباس(جناب موسٰی کا) ہشتم فقر(جناب حضرت محمدّر سول اللہ کا)یعنی آٹھ خصلتیں جن سے ان پیغمبران اولوالعزم کی سنّت پوری ہوتی ہے تصوف کی بنیاد ہیں۔


شطحیات: ایسے الفاظ و کلمات جو بعض اوقات حدود شریعت سے متجاوزہو جاتے ہیں تصوف کی اصطلاح میں ?شطحیات?کہلاتے ہیں۔ جناب جنید بغدادی کے زمانے میں شطحیات عام تھے مگر آپ نے ان کلمات کے ادا کرنے والوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی لکھا ہے ایک مرتبہ آپ کی خانقاہ میں ایک فقیر کالی گدڑی پہنے ہوئے آیا۔ آپ نے اس کی ماتم داری و سیاہ پوشی کا سبب پوچھا۔ اس نے کہا میرے خدا کی وفات ہو گئی۔ اس پر آپ نے اسے تین مرتبہ خانقاہ سے باہر نکل جانے کا حکم دیا لیکن فقیر نے اس طرح توضیح و تشریح کر کے جناب جنید کے غیض و غضب سے رہائی پائی کہا کہ میرا نفس مظہر خدا ہے میں نے اسے قتل کر دیا ہے اس لیے اب اس کا ماتم دار ہوں۔
منصور حلاج کے نعرہ اناا لحق کا قصّہ آ پکے زمانے کا سب سے زیادہ مشہور واقعہ ہے۔ مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ عین ممکن ہے کہ علامہ جوزی کی یہ رائے غلط نہیں کہ منصور نے سیدھے راستے چھوڑ کر گمراہی کی راہ اختیار کی اور بالآخر جناب جنید بغدادی ہی کو منصور کے قتل کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرنی پڑی۔

مخدوم علی ہجویری
: 2
مخدوم داتا گنج بخش علی ہجویرینام
400ہجر&تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ نے سب سے پہلے تصوف کے موضوع پر شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب لکھی کشف المحجوب جس پائے کی کتاب ہے جناب نظام الدین دھلوی محبوب ا لٰہی کے اس قول سے اس کا ایک اندازہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں ? جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ کشف المحجوب کو اپنا مرشد بنا لے۔ ?

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

ولادت400ہجری میں غزنی میں پیدا ہوئے آ پ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان اور آپ کا نام نامی علی ہے۔ آ پ کے گھر کے لوگ پہلے غزنی کے ایک قصبے ہجویر میں رہتے تھے ۔ پھر ہجویر کے قریب ہی ایک اور قصبے جلّاب میں آ گئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی چنانچہ آپ اسی مناسبت سے ہجویری و جلاّبی کہلائے۔ آ پ نجیب الطرفین حسنی سیّد ہیں۔ نسب نامہ یوں ہے۔ علی بن عثمان بن علی بن عبدالرحمان بن عبد اللہ بن ابی الحسن بن حسن بن زید بن جناب امام شہید حسن بن حضرت علی

گویا نو واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ فقہی مسلک کے اعتبار سے آپ کو جناب امام اعظم ابو حنیفہ سے بہت محبت تھی مسلک طریقت کے لحاظ سے آ پ سیّد الطائفہ جنید بغدادی کے پیرو تھے۔ آ پ کے مرشد جناب خواجہ ابو الفضلی ختلی غزنوی سلسلہ جنیدیہ کے بزرگ تھے ۔ جناب ختلی حضرت علی خضر مکی کے مرید تھے مکی جناب شیخ شبلی کے مرید تھے ۔ شبلی جناب جنید بغدادی کے مرید تھے۔ جنید بغدادی ، جناب شیخ سری سقطی کے مرید تھے ۔ سقطی جناب شیخ معروف کرخی کے مرید تھے کرخی جناب خواجہ حسن بصری کے اور خواجہ حسن حضرت علی کرم اللہ وجہ، کے مرید و شاگرد تھے گویا اس لحاظ سے آ پ کو جناب علی سے دوہری مناسبت ہے۔ آ پکی تعلیم کے متعلق کچھ تفصیل سے معلوم نہیں کہ آپ نے کن کن بزرگوں کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا البتہ آپ کی تصنیفات کے مطالعہ سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ علوم دین، فقہ، تفسیر و حدیث میں تبحر کامل رکھتے تھے۔ کہتے ہیں شیخ بزرگ نام کے ایک ولی سے آپ کی ملاقات ہوئی اس وقت مشکل سے آ پکی عمر بارہ سال کی ہو گی شیخ بزرگ نے آپ سے علم تصوف پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جب ان کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اپنی لکھی ہوئی کتاب لا کر ان کی خدمت میں پیش کی اور طالب دعا ہوئے۔ شیخ بزرگ نے فرمایا اے علی مستقبل میں تمہارا نام مطلع تصوف پر سورج کی طرح چمکے گا چنانچہ ان کی یہ پیشنگوئی حرف بحرف صحیح نکلی۔ جناب ہجویری نے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے لیے شام ، عراق، بغداد، پارس، کرمان، خراسان، مادرالنہر،اور ترکستان کا سفر کیا۔ وہاں کے علماءو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لکھا ہے کہ جن بزرگوں سے آپ نے اکتساب کیا ان کی تعداد تین سو سے اوپر ہے۔ مگر جن دو ایک بزرگوں کی روح پرور صحبتوں سے با لخصوص فائدہ اٹھایا ان کا ذکر آپ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں کیا ہے ان میں سے ایک جناب ابوالقاسم تشیری دوسرے جناب ابوالقاسم گرگانی اور تیسرے جناب شیخ ابو سعید ابو الخیر کی ذات گرامی ہے آپ تکمیل علوم ظاہری و باطنی کے بعد431ہجری میں لاہور تشریف لائے اور یہاںآ پ نے علوم دین اور اشاعت اسلامی کا ایک ایسا چشمئہ فیض جاری کیا جس سے چھوٹے بڑے ادنیٰ و اعلیٰ سبھی سیراب و فیضیاب ہوئے۔

ورود لاہور: لاہور میں آپ کی آمد سے پہلے پنجاب کی سیاسی حالت کیا تھی؟اس سے متعلق جاننے کے لیے ہمیں امیر سبکتگین شاہ غزنی کی فتوحات کے سلسلے پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔ جس کا مقصد بظاہر ہندوستان کو فتح کر کے سلطنت غزنہ کی توسیع دکھائی دیتا ہے لیکن بباطن وہ شوق جہاد تھا جسے لیکر امیر سبکتگین بار بار یہاں آتا تھا۔ 367ہجری میں سبکتگین جب اہل ہند سے جہاد کرنے کے لیے جان نثاران اسلام کو لے کر نکلا اس نے ہندوستان کے متعد د قلعے فتح کر لیے اور ظلمت کدہ ہند میں اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے اکثر جگہوں پر مسجدیں تعمیر کروا کر واپس آگےا۔اس زمانے میں راجہ جے پال کی حدود سلطنت لاہور سے ملتان اور کشمیر سے پشاور تک تھے جب اس نے دیکھا کہ امیر سبکتگین نے اس کے بہت سے قلعے اور ملحقہ علاقے فتح کر لیے ہیں تو اس کو سخت فکر ہوئی چنانچہ اب اس نے اپنی پوری قوت کے ساتھ امیر سبکتگین سے لڑنے کی ٹھان لی اور جب امیر کو اس برہمن زادے کے ارادے کا علم ہوا تو وہ بھی ایک لشکر جرار لے کر پشاور کو چل پڑا۔ لمغان جو کابل اور پشاور کے درمیان واقع تھا اس کے میدان میں دونوں لشکر صف آرا ہوئے گھمسان کا رن پڑا فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی بھی اس لڑائی میں اپنے باپ کے ساتھ شریک تھا اس نے باوجود نہایت کم سن ہونے کے تلوار کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔

اب راجہ جے پال نے امیر سبکتگین کے حضور میں صلح کی درخواست پیش کی ہر چند سلطان محمود غزنوی نے اس کی مخا لفت کی اور کہا کہ یہ برہمن زادہ دھو کہ دے رہا ہے تا ہم امیر سبکتگین ایک بادشاہ کی حیثیت سے رضا مند ہو گیا چنانچہ یہ طے ہو اجے پال ایک لاکھ درہم اور پچاس ہاتھی نذرانے کے پیش کرے۔ اگرچہ جے پال نے صلح کی اس شرط کو بظاہر منظور کر لیا لیکن ببا طن اس کی نیت خراب تھی چنانچہ اس نے مذکورہ شرط کے پورا کرنے کے بہانے سے حکومت کے ایک معتبر رکن دولت کو امیر سبکتگین کے پاس رہن رکھ کر دارالسلطنت کی راہ لی۔ مگر مسلمانوں کی ایک جما عت جسے وہ نذرانے کی مذکورہ رقم ادا کرنے کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا بٹھنڈہ پہنچ کر اسے قید کرلیا اور سبکتگین کو جب اس واقع کی اطلاع ملی تو وہ نہایت غضبناک ہو کر اسے بد عہدی کی سزا دنے کے لیے ہندوستان کی طرف پھر چل پڑا۔ اور جے پال نے ہندوستان کے تمام راجوں مہاراجوں کو لکھ کر بھیجاکہ تمہاری آزادی سخت خطرے میں ہے مسلمانوں کی ہلاکت خیزیو ں کا ایک شدید طوفان ہندوستان کی جانب چلا آ رہا ہے۔ اگر اس وقت تم نے میری مدد کے لیے فوجیں نہ بھیجیں تو ہم سب مٹ جائیں گے چنانچہ ہندوستان کے تمام راجاوئں نے باوجود جے پال سے ذاتی اختلا فا ت اور دشمنی رکھنے کے امیر سبکتگین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے لشکر بھیج دیے کہتے ہیں جے پال کے جھنڈے تلے امیر سبکتگین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لاکھ ہندوستانی سورمائوں کا لشکر جمع ہو گیا۔

اب ایک طرف تو عالم یہ تھا کہ جدھر نگاہ اٹھتی انسانی سروں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا اور دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ امیر کے پاس چند ہزار افغانی سپاہیوں کے سواا ور کچھ نہ تھا مگر امیر کی ہمت کی داد دیجئے اس نے حوصلہ نہیں ہارا اس نے کمال حکمت عملی سے کام لے کر اپنے لشکر کے پانچ پانچ سو کے دستے بنائے اور انہیں باری باری یکے بعد دیگرے دشمن کے مقابلے پر بھیجنے شر وع کیے۔ قدرت خدا مسلمانوں کے استقلال نے چند ہی دنوں میں جے پال کی فوجوں کے حوصلے پست کر دیے یہاں تک کہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے لگیں یہ دیکھ کر مسلمانوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور مولی گاجر کی طرح کاٹنا شروع کر دیا مختصر یہ کہ مسلمان پنجاب کے بہت سے حصوں پر قابض ہو گئے۔ 387ہجری میں امیر سبکتگین کے انتقال کے بعد اس کا فرزند ارجمند سلطان محمود امیر بنا تمام دنیا جانتی ہے کہ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اگرچہ اسکی بت شکنی نے ہندوئو ں کے معتقدات با طلہ پر زبردست ضربیں لگائیں اس نے سومنات کے شہرہ آفاق مندر کی اینٹ سے انیٹ بجا دی ہندوستان کی تمام بڑی بڑی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے غرض کہ جس نے اس کے سامنے سر اٹھایا اس نے اسے کچل کے رکھ دیا یہ سب کچھ درست بجا یقیناً وہ ایک قابل تقلید اور ستائش کے لائق مسلمان بادشاہ تھا مگر ظمت کدہ ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے سے قاصر رہا۔ سلطان نے لاہور کو فتح کیا جس کے سبب پنجاب محمود کی سلطنت میں باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا لیکن محمود نے اقامت اختیار نہیں کی بلکہ اپنا ایک گورنر چھوڑ کر غزنی واپس چلا گیا لاہور کے پہلے گورنر کے بارے میں اختلاف ہے بعض نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا گورنرسلطان کا بیٹا امیر مجدود تھا بعض کہتے ہیں نہیں سلطان کا مقرب خاص غلام ایاز تھا جو لوگ امیر مجدود کو لاہور کا گورنر بناتے ہیں وہ ایاز کو اس کا اتالیق ٹھہراتے ہیں۔

14ربیع الا ول 421ہجری میں سلطان نے رحلت پائی اس کے بعد سلطان کا بیٹا مسند نشین ہوا۔430 ہجری میں امیر مسعود باغیوں کی گوشمالی کے لیے ہنوستان آیا اس نے آ کر ہانسی اور سونی پت کے قلعے فتح کیے اور پھر فتح و کامرانی کے ڈنکے بجاتا ہوا غزنی واپس چلا گیا۔ گویا تسخیر قلوب اہل ہند کا کام ابھی تک باقی تھا جو امیر سبکتگین کی تیغ آبدار سے ہو سکا نہ سلطان کی شمشیر جوھروار کر سکی اور نہ اس کے فرزند امیر مسعود ہی کی تلوار برّاں سے ہو سکا سچ تو یہ ہے کہ دل کی سلطنت پر قبضہ پانا کسی بادشاہ کے بس کا روگ نہیں کوئی بادشاہ کیسا ہی جری اور کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو دلوں پر فتح نہیں پا سکتا۔دل و دماغ کی تسخیر کے لیے روحانی قوت کی ضرورت ہے اور یہ قوت صرف انہی کے حصہ میں آتی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کے ذکر اور اسکی یاد سے دماغ کو پاکیزہ اور دل کو آباد کرتے ہیں روح ایک لطیف شے ہے جن بزرگوں کو روحانی لطافتیں حاصل ہو جاتی ہیں وہ اپنے آپ کو دنیاوی کثافتوں اور جسمانی لذتوںسے آلودہ نہیں کرتے۔بعض نا عاقبت اندیش بزرگان دین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ظلمت کدہ ہند میں ان کی آمد شاہان اسلام کے ایما پر سیاسی اغراض و مصالح پر مبنی تھی۔ لیکن بزرگان دین کے سوانح حیات میں جب تر ک لذا ئذ دینوی پر ہم پہنچتے ہیں تو شرط انصاف یہ ہے کہ پھر ان کے اخلاص اور نیت پر شبہ کرنے کی مطلق کوئی گنجائش نہیں رہتی یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ دین اسلام کی محبت اور جناب محمد ر سول اللہ کی الفت ہی وہ سرمایہ حیات ہے جسے لے کر بزرگان دین ظلمت کدہ ہند میں روشنی پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً آتے رہے ۔جناب شیخ ہجویری سے پہلے جناب شیخ اسمٰعیل اور شاہ حسین زنجانی لاہور میں تشریف لا چکے تھے۔ اب جناب شیخ ہجویری کی آمد ہو رہی ہے۔ سلطان محمود نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ان کی نوعیت فتوحات کی ہے اور ایک سلطان ہی پر کیا موقوف جتنے شاہان اسلام نے ہندوستان کو اپنی تلوار و شجا عت کے جوہر دکھائے ان میں سے کسی ایک نے بھی ظلمت کدئہ ہند میں عیسا ئیوںکی طر ح مشنری سکول اور کالج قائم کرنے یاسلام کی تعلیمات پھیلانے کی باقاعدہ کوشش نہیںکی ۔

ظاہر ہے ایسے حالات میں ہندوستان کی مذہبی معاشی اور سیاسی حالت کا کیا نقشہ ہو گا۔ جب آپ علوم ظاہری و باطنی میں تکمیل پا چکے۔ تو آپ کے پیرو مرشد جناب ابو الفضل ختلی نے آپ کو لاہور جانے کا حکم دیا۔ آپ کے لاہور آنے سے پہلے یہاں ایک عارف کامل ولی با کرامت شیخ حسین زنجانی ایک اور بزرگ پہلے سے موجود تھے آپ نے اپنے مرشد کو لاہور میں ان کی موجودگی کی طرف توجہ دلائی۔ جناب ختلی نے فرمایا۔ نہیں تم جائو۔ تمہیں اس سے کیا۔ چنانچہ حکم کی تعمیل پا کر آپ لاہور کو روانہ ہوئے۔ قدرت خدا دیکھئے کہ آپ جس وقت لاہور میں داخل ہو رہے تھے تو جس کی طرف آپ نے مرشد کی خدمت میں اشارہ کیا تھا یعنی دارلفنا سے حسین زنجانی دارالبقا کی طرف جا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ شیخ حسین زنجانی کا جنازہ تھا مگر بعضوںنے ان کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بہر کیف یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو بلانے والے کسی بزرگ کا جنازہ تھا جو پہلے سے یہاں موجود تھے جب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ان کا وقت ختم ہو گیا تو آپ لاہور میں تشریف لائے اور یہیں عمر بھر قیام کیا۔ شہر لاہور کے باہر مغربی حصہ میں ہندئووں کا ایک مندر تھا اور اس کے قریب ہی دریائے راوی گزرتا تھا آپ نے اس مقام کو دیکھ کر فرمایا کہ یہی جگہ ہم فقیروں کے رہنے کے لیے موزوں رہے گی۔ چنانچہ جہاں آج ظلمت کدہ ہند کو نورایمان سے منور کر کے آپ ابدی نیند سو رہے ہیں یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ نے لاہور پہنچ کر قیام فرمایا اور اسے تبلیغ اسلام و اشاعت دین کا مرکز بنایا۔تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ نے لاہورمیں چھتیس برس قیام فرمایا ہے اس عرصہ میں آپ نے جو تالیف قلوب کی طرف توجہ دی ہے اس کا ایک اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کو داتا اور گنج بخش کے نام سے پکارنے لگے۔


آپ اپنی کتاب کشف الا سرار میں لکھتے ہیں کہ اے علی خلق خدا تجھے گنج بخش کہتی ہے حالانکہ تیرے پاس ایک دانہ تک نہیں تو اس لقب کا خیال اپنے دل میں پیدا نہ کر اور یہ نہ سوچ کہ تجھے لوگوں میں کس قدر مقبولیت حاصل ہے اگر تو نے ایسا خیال کر لیا تو گنہگار ہو گا۔ ?گنج بخش? تو فقط وہی ایک پاک ذات ہے جس نے سب کو پیدا کیا اس کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ اس کی ذات شرک سے پاک ہے۔ خدا وحدہَ لا شریک ہے اگر تو نے ایسا کیا تو سمجھ لے کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔ آپ کی اس تحریر سے ایک طرف تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے لاہور آنے سے پہلے یہاں کے رہنے والے کس حال میں تھے ان کے اعتقادات یا معتقدات پر کیسی کیسی غیر اسلامی باتوں کا غلبہ تھا دوسری طرف آپ کی سیرت کے وہ پہلو دکھائی دیتے ہیں جن سے متاثر ہو کر یہاں کے رہنے والوں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا اور انہیں آپ سے اس قدر محبت بڑھی کہ آپ کے لیے فرط جوش میں ?داتا? اور گنج بخش ? ایسے غیر اسلامی لفظ منہ سے نکالنے لگے۔بعضوں نے لکھا ہے کہ جب حضرت معین الد ین چشتی لاہور تشریف لائے۔ اور آپ کے آستانہ مبارک پر حا ضر ہوئے اور چلہ کشی کی تو لاہور سے جاتے ہوئے فرط جوش میں آپ نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

کہتے ہیں اس وقت سے آپ گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں شعر کی ترکیب پرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترکیب غلط ہے اس لیے وہ خواجہ معین الدین چشتی کا شعر نہیں ہو سکتا اس اعتبار سے پھر یہ بات بھی نہیں کہی جا سکتی کہ آپ خواجہ کے شعر سے گنج بخش مشہورہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی غیر معروف شاعر کا شعر ہو مگر شعر کی روشنی میں بھی یہ بات قطعی اور حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آپ لوگوں میں پہلے ہی سے گنج بخش مشہور تھے وگرنہ شاعر کا ذہن کیونکر اس ترکیب کی طرف جاتا اور اسے اپنے شعر میں باندھتا۔آپ کی سوانح حیات میں رائو راجو کی مزاحمت کا ذکر خا ص طور پر کیا جاتا ہے لاہور کے ہندو اکثر اس کے بندہ بے دام تھے اور کسی طرح اس کے حلقہ غلامی سے نہیں نکل سکتے تھے۔ آپ نے اس کے تمام طلسمات کو ایک ایک کر کے توڑ دیا اور آپ کی ایک ہی نگہہ التفات نے اسے رائو راجو سے شیخ ہندی بنا دیا۔ رائو راجو نے جو کہ سلطان مودود ابن مسعود غزنوی کی طرف سے لاہور کا گورنر تھا ۔ آپ کے علم و عمل اور زہدو تقوے کی جو شان دیکھی۔ تو آپ کے قدموں میں گر کے مسلمان ہوا اور شیخ ہندی کا لقب پا کر آپ کے حلقئہ ارادت مندی میںشامل ہو گیا۔ مارشل لاءسے پہلے تک شیخ ہندی کی اولاد ہی شروع سے آپ کے مزار مبارک پر مجاوری کرتی چلی آئی ہے۔ اب1960ءسے حکومت پاکستان نے آپ کی خا نقاہ لنگر اور مزار مبارک کے تمام انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔

جو فیض بندگان خدا کو آپ کی زندگی میں پہنچ رہا تھا وہی فیض اب حکومت کے توسل سے دوبارہ جاری ہو گیا جو لوگ نذر نیاز کی رقمیں یہاں لا کر پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ رائگاں نہیں جاتیں بلکہ ان سے آپ کی حیات مبارکہ کا وہی مشن پورا کرنے کی
کوشش کی جا رہی ہے کہ جسے لے کر آپ غزنی سے ظلمت کدہ ہند میں وارد ہوئے تھے۔ جس مقام پر آپ نے قیام کیا وہاں آپ نے اپنی جیب سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور اس کے ساتھ ہی ایک مدرسہ قائم کیا جہاں اللہ اور اللہ کے رسول کا نام بلند ہوا اور اس کے دین کے فروغ و اشاعت کی ابتداءہوئی۔ آپ کی آمد سے پہلے ظلمت کدئہ ہند کی جو حا لت تھی اس کا مختصراً حال پیش کیا جا چکا ہے۔ اب ایک اجمال علم تصوف کا بھی ملاحظہ کر لیجئے وہ لوگ جو صوفیوں کا لبادہ اوڑھ کر ارباب حدیث (اہل تصوف) کے گروہ میں طرح طرح کے غیر اسلامی خیالات لے کر داخل ہو گئے تھے جن سے علم تصوف کی لوگوں کی نگاہ سے وقعت جاتی رہی آپ نے ان کی اصلاح اور ارباب حدیث کے مسلک (تصوف) کی مدافعت میں اپنی مشہور کتاب کشف المحجوب تصنیف کی جس میں ان تمام غیر اسلامی خیالات و معتقدات کا ابطال کیا جس نے تصوف کو قطعی عجمی ذہن کی پیدا وار یا ایرانیوں کی افتاد طبع کا نتیجہ ٹھہرایا۔ کشف المحجوب جس پائے کی کتاب ہے جناب نظام الدین دھلوی محبوب ا لٰہی کے اس قول سے اس کا ایک اندازہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں ? جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ کشف المحجوب کو اپنا مرشد بنا لے۔ ?
یوں تو آپ نے کشف المحجوب کے علاوہ اور بھی کئی ایک کتابیں علم تصوف پر تصنیف کی ہیں مثلاً کشف الاسرار ، دیوان علی، اور منہاج الدین مگر ان سب میں فوقیت صرف کشف المحجوب کو ہے اور اسکے سوا اب آپ کی اور کوئی تصنیف نہیں ملتی۔ کشف المحجوب میںسب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تصوف کے علم پر سب سے پہلی کتاب ہے اور خاص بات یہ ہے کہ کشف المحجوب تصوف کے موضوع پر اس وقت کی ایک مستند کتا ب ہے جب کہ شہا ب الدین سہروردی کی عوارف المعا رف اور ابن عربی کی فصوص الحکم کا کوئی وجود نہیں تھا یہی سبب ہے کہ اس کتاب میں متاخرین صوفیاءکے غلو اور نیم پخت خیالات و معتقد ات نہیں ملتے کشف المحجوب میں اولیائے کرام کے خیالات پیش کئے گئے ہیں جن سے تصوف کے بارے میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ جو بے علم و بے عمل صوفیوں کی بدولت اس میں پیدا ہوئیں۔ مثلاً کشف المحجوب میں لکھا ہے ابو یزید بسطامی کہتے ہیں۔ ?اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ہوا میں معلق ہو کر دو زانو بیٹھ جاتا ہے تو اس کی اس کرامت سے دھوکا نہ کھائو جب تک اس امر کو نہ دیکھ لو کہ حدود شریعت کی حفاظت میں اس کی کیا حالت ہے۔

جوشخص قرآن کی تلاوت ، شریعت کی حمایت، جماعت کا التزام، جنازے کے ساتھ چلنا اور مریضوں کی عیادت کرنا چھوڑ دے اور شان باطنی کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے بدعتی ہے شیخ سری سقطی کہتے ہیں۔ ?جو شخص ظاہر میں احکام خداوندی کی پیروی چھوڑ کر علم باطنی کا دعویٰ کرے وہ غلطی پر ہے ?سّیدالطائفہ جنید بغدادی کہتے ہیں۔ ?جس شخص کو کتاب یاد نہیں ، حدیث نہیں لکھتا، فقہ نہیں سیکھتا اس کی پیروی نہ کرو تصوف کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف رکھنا تصوف کی اصل یہ ہے کہ دنیا کی محبت سے علیحدہ ہو جائے ? ابو بکرشفاف کہتے ہیں۔جو شخص ظاہر میں امرونہی کی حدود ضائع کر دے وہ باطن میں مشاہدہ قلبی سے محروم رہتا ہے۔ ابو الحسن نوری کہتے ہیں۔ جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اسے علم شریعت سے خارج کرے تم اس کے پاس نہ جائو۔ ابو حفص کہتے ہیں۔ ?جس شخص نے اپنے حال احوال اور افعال و اعمال کو کتاب و سنت کے مطابق نہ تولا اور اپنے خطرات کو تہمت نہ لگائی اسے مردوں کے دفتر میں شمار نہ کرو۔

فرید الدین گنج شکر
فرید الدین مسعود گنج شکر، فاروقی چشتینام
548ھتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اولیاءاللہ کے اندر سب سے زیادہ ?جہد?بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ہی کیا ہے جو غالباً36برس پر محیط ہے۔
آپ کے والد کمال الدین سلیمان ساتویں واسطے سے فرخ شاہ بادشاہ کابل کے فرزند اور بیسویں واسطے سے جناب عمر فاروق کی اولاد سے تھے ۔

وجہءتسمیہ:۔ ماں انسان کے لیے درس گاہ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا میں جتنے مشاہیر و بر گزیدہ انسان گذرے ہیں اگر ان کی زندگی کے ابتدائی حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان سب کی شخصیت کو بنانے اور ان کا مستقبل سنوارنے اور سورج کی طرح روشن کرنے میں سب سے پہلے ان کی مائووں نے ہی جدو جہد کاآغاز کیا۔ جناب فرید الدین کی والدہ محترمہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ جن کی تربیت سے ان کے بچے شہرت کے آسمان کے چاند، ستارے اور سورج بن کے چمکے۔ جناب فرید الدین کی والدہ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ مصلےٰ کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیتیں اور فرماتیں جو بچے نماز پڑھتے ہیں ان کو مصّلے کے نیچے سے شکر کی پڑیا ملتی ہے۔ اس ترکیب کا اثر یہ ہوا کہ جناب فرید الدین بچپن ہی سے نماز کے سخت پابند ہو گئے اور کبھی نماز قضا نہ کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے آگے چل کر آپ نے گنج شکر کے نام سے شہرت پائی۔

ولادت: 548ھ موضع کوتوال ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ اور سن بلوغ کو پہنچنے تک یہیں رہے آپ کے والد محترم جناب مولانا کمال الدین سلیمان ساتویں واسطے سے فرخ شاہ بادشاہ کابل کے فرزند اور بیسویں واسطے سے جناب عمر فاروق کی اولاد سے تھے ۔ جناب کمال الدین کی والدہ محترمہ سلطان محمود غزنوی کے خاندان سے تھیں۔ فرید الدین گنج شکر کی والدہ محترمہ جناب مولانا وحید الدین خجندی کی صاحب زادی تھیں۔ مولانا کمال الدین شہاب الدین غوری کے زمانے میں کابل سے لاہور آئے ۔ اور پھر کچھ دنوں بعد قصور و ملتان میں تھوڑا سا قیام کر کے موضع کو توال آرہے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جناب فرید الدین نے ابتدائی تعلیم کوتوال ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد ملتان آ گئے یہا ں آپ نے قرآن حکیم حفظ کیا اور عربی کے مروجہ درسی نصاب مکمل کیے۔ انہی دنوں میں جناب خواجہ بختیار کاکی ملتان تشریف لائے۔ آپ کو ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ آپ جناب خواجہ کی خدمت میں پہنچے اور مرید ہو گئے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا ۔ میاں فرید جب تک علم حاصل نہیں کرو گے، بات نہیں بنے گی۔ جائو پہلے علم حاصل کرو۔ پھر میرے پاس آنا جناب فرید اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں اب حصول علم کے لیے باد یہ پیمانی پر مستعد ہوئے۔ چنانچہ آپ ملتان سے قندھار کو چل دیے پھر وہاں سے بغداد سیستان اوبد خشاں کی خاک چھانتے ہوئے تمام علوم ظاہری کی تکمیل کی۔ اس دوران میں آپ کو جناب شیخ شہاب الدین بانیءسلسلہ سہر وردیہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شیخ سیف الدین حضری، شیخ سعید الدین حموی، شیخ اوحد الدین، شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی اورشیخ فرید الدین عطار وغیرہ اہم بزرگوں سے بھی ملاقاتیں نصیب ہوئیں اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ غرض تکمیل علوم دین کے بعد آپ جناب خواجہ بختیار کاکی کے حضور میں دہلی پہنچے خواجہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اور آپ کے لیے غزنیں دروازے کے باہر ایک جگہ منتخب کی جہاں آپ ریاضت و مجاہدے میں ہر وقت مشغول رہتے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے متواتر روزے رکھے ایک دن افطاری میں آپ کو کوئی شے میسر نہ آئی۔ ناچار بھوک و پیاس کی حالت میں آپ نے منہ میں چند سنگریزے اٹھا کر رکھ لیے۔ قدرت خدا کہ وہ شکر کے چند دانے نکلے۔ جناب خواجہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو فرمایا فرید الدین واقعی گنج شکر ہے۔ خلق خدا آپ کے زہدوعبادت سے بے حد متاثر تھی ۔ اکثر آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مرادیں لے کر واپس جاتے۔ جناب فرید الدین کو شہرت و نام و نمود سے سخت نفرت تھی۔ جب لوگوں کا ہجوم دن پر دن زیادہ ہونے لگا تو آپ دہلی چھوڑ کر جھانسی چلے گئے۔ حتیٰ کہ جناب خواجہ کا انتقال ہوا تو آپ دہلی تشریف لائے۔ پھر چند روز قیام کر کے یہاں سے پاک پتن روانہ ہو گئے۔ اجو دھن جسے ان دنوں پاک پتن کہتے ہیں ۔ آپ کے زمانے میں ایسے لوگوں کا مرکز تھا کہ جنہیں فقیروں اور درویشوں کے ساتھ خدا واسطے کا بیر تھا۔ جب آپ یہاں پہنچے اور لوگوں کے طور طریقے کا مطالعہ کیا اور دیکھا کہ ان لوگوں کے نزدیک درویشوں اور فقیروں کی کوئی وقعت نہیں۔ بہت خوش ہو کرفرمایا کہ ہم فقیروں کے رہنے کے لیے یہی جگہ سب سے موزوں ہے چنانچہ آپ نے آبادی سے تھوڑی دور جنگل میں ایک درخت کے نیچے اپنا کمبل بچھا لیا اور اللہ کی یاد میں محو ہو کر بیٹھ گئے۔ رفتہ رفتہ آپ کے باطن کی برکتیں لوگوں پر ظاہر ہونے لگیں لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگے۔ جب آپ کے مریدین و معتقدین میں کافی حد تک اضا فہ ہو گیا تو آپ نے اپنے بیوی بچوں کے لیے شہر کی جامع مسجد کے قریب ہی ایک مکان بنا لیا۔ جہاں آپ کے اہل و عیال نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مگر آپ اسی درخت کے نیچے رہتے اور وہیں رات بسر کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپ کے پاس فقط ایک ہی کمبل تھا۔ جسے دن میں بچھا کر بیٹھ جاتے۔ اور رات کو وہی اوپر اوڑھ کر سو جاتے۔ کمبل اتنا چھوٹا تھا کہ آپ کے پیر پورے طور پر پھیل نہ سکتے تھے۔ ایک لکڑی کا تکیہ تھا جس کا سرہانہ بناتے۔ اور ایک عصاءتھا جو حضرت خواجہ بختیار کاکی کے تبرکات سے آپ کو پہنچا تھا۔ سیر ت نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ہندوستان کا بادشاہ ناصر الدین محمود آپ کی زیارت کے لیے دہلی سے پاکپتن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اللہ والوں کی ملاقات میں یقیناً ایک روحانی کیف و سرور حاصل ہوتا ہے۔ اور انسان ان کے قرب سے طمانیت قلب محسوس کرتا ہے۔ سلطان آپ سے مل کر بے حد متاثر ہوا۔ چنانچہ واپس دہلی پہنچ کر اپنے وزیر الغ خان کے ہاتھ پانچ گائون اور ایک بہت بڑی رقم آپ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر ارسال کی۔

آپ نے الغ خان سے جو بعد میں سلطان بلبن کے نام سے مشہور ہوا ،فرمایا ہم فقیروں کو ان چیزوں سے کیا واسطہ ؟یہ انہیں کو لے جا کر دے دو جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ سلطان غیاث الدین بلبن شہنشاہِ ہند کی دختر نیک اختر آپ کے عقد میں تھیں اور ان کے بطن سے آپ کے چھ بیٹے ہوئے۔ رشتہ کے لحاظ سے ظاہر ہے کہ آپ کا سلطان سے کتنا مضبوط تعلق تھا۔ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے سلطان کے دربار میں آپ سے ایک سفارش کرائی۔ آپ نے سلطان کے نام ان الفاظ میں سفارشی رقعہ لکھا۔ :میں نے اس شخص کا فیصلہ پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا ہے۔ اب اگر آپ اس کا کام کر دیں کام تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا مگر شکریہ آپ کے حصہ میں آئے گا۔ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو خدا کو بھی منظور نہیں ۔ اس لیے آپ کا کیا قصور ہے۔ جناب نظام الدین محبوب الٰہی لکھتے ہیں۔ کہ حضرت فرید الدین گنج شکر کا عہد ولایت خیر الا عصار ہے۔ کیونکہ آپ کے زمانے میں کافی مشا ئخ عظام جمع ہو گئے تھے۔ محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ جناب شیخ زکریا بہائو الدین ملتانی، شیخ سیف الدین خضری اور جناب شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر ایک ہی زمانہ میں ہوئے۔تینوں یکے بعد دیگرے تین تین سال بعد فوت ہوئے ہیں۔ جناب فرید الدین مسعود نے664ھمیں انتقال فرمایا ۔ پاکپتن ہی میں مدفون ہوئے۔ جہاں ہر سال محرم کے مہینے میں آپ کا عرس ہوتا ہے۔ آپ کی تصنیفات وہ ملفوظات ہیں جن کو آپ کے داماد و مرید جناب نظام الدین محبوبِ الٰہی نے مرتب کیا ہے۔ ایک کا نام ہے ?راحت القلوب? دوسری کتاب کا نام ہے۔ ?سیراة الاولیائ? اس کتاب کو ایک خلیفہ و مرید جناب بدر اسحاق نے مرتب کیا ہے۔ کہتے ہیں آپ روزانہ روزہ رکھتے۔ سخت ریاضت و محنت کرتے، فراغت پا کر غسل کرتے اور نماز پڑھتے ،بعض کہتے ہیں کہ ہر نماز غسل کر کے ادا کرتے تھے۔ مگر دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ سخت محنت و مشقت کے باوجود آپ کی صحت ہمیشہ عمدہ رہی۔ ایک مرتبہ ایک درویش ملاں یوسف نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب مولانا نظا م الدین دہلوی تو چند روز آپ کی خدمت میں رہے اور فیوض باطنی سے مالا مال ہو کر چلے گئے۔ ایک میں ہوں کہ برسوںسے آپ کی خدمت میں پڑا ہوں ۔ مگر آپ کے فیوض باطنی سے محروم ہوں۔ یہ شکایت سن کر آپ نے ایک چھوٹے سے بچے کو بلایا اور اس سے کہا بیٹا وہ سامنے جو اینٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہمارے لیے ایک اینٹ لے آو?۔ وہ بچہ گیا اور آپ کے لیے ایک عمدہ سی اینٹ لے آیا۔ پھر آپ نے اس سے کہا اچھا اب ایک اینٹ مولانا نظام الدین کے لیے بھی لے آو?۔ وہ بچہ پھر گیا اور ایک عمدہ سی اینٹ اور لے آیا۔ اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا۔ اچھا اب ایک اینٹ ملا ںیوسف کے لیے بھی لے آو?۔ بچہ پھر گیا اور ایک اینٹ اٹھا لایا۔ مگر اب کے جو اینٹ لایا وہ اینٹ کا ایک بے ڈھنگا سا ٹکڑا تھا۔ آپ نے ملاں یوسف سے کہا اس میںمیری کچھ کوتاہی نہیں۔ یہ تمہاری نا قابلیت کا نتیجہ ہے۔ اور قسمت کی بات ہے ورنہ میرے لیے تو سب برابر ہیں۔ آپ بات بات میں ایسے لاجواب نکتے بیان فرماتے تھے کہ اگر یورپ زدہ لوگ ان کو دیکھ لیں تو یورپ کے فلاسفروں کو بھول جائیں۔ آپ کے اقوال میں ان لوگوں کو جو زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں زندگی مل جاتی ہے۔

اقوال:١۔نامرادی کا دن مردوں کی شب معراج ہے۔
٢۔سبک ساری کی خواہش کمزوری کی علامت ہے۔
٣۔جیسا تو ہے ویسا ہی لوگوں کو دکھا ،ورنہ اصلیت خود بخود کھل جائے گی۔
٤۔احمق کو زندہ خیال نہ کرو۔
٥۔وہ شے جو خریدی نہ جاتی ہو اسے فروخت نہ کرو۔
٦۔ہر کسی کی روٹی نہ کھاو? مگر ہر شخص کو اپنی روٹی کھلاو?۔
٧۔گناہ پر فخر نہ کرو۔ آرائش کے پیچھے نہ پڑو۔
٨۔جس چیز کی کوشش کرو اس سے ہاتھ نہ اٹھاو?۔
٩۔جو تم سے ڈرے ۔ اس سے ہر وقت اندیشہ کرو۔
٠١۔دروغ نما راستی کو ترک کر دو۔
١١۔ قاتل نما بے وقوف سے پرہیز کرو۔
٢١۔وقت کا کوئی بدلہ نہیں۔
٣١۔ہنر ذلت سے سیکھ یعنی تحصیل علم و ہنر میں کسی ذلت کا خیال نہ کرو۔
٤١۔ دشمن کی دشمنی اس سے مشورہ کرنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔
٥١۔کوئی مصیبت خدا کی طرف سے آئے اس سے ہراساں نہ ہو۔
٦١۔ اگر?ہے کچھ? غم نہیں اگر ?نہیں ہے? تو بھی غم نہیں۔
٧١۔درویشوں کے لیے فاقہ سے مرنا لذ ت نفس کے لیے قرض لینے سے بہتر ہے۔
٨١۔ دو آدمیوں کا مباحثہ ایک آدمی کے اکیلے سوچنے کی دو سالہ محنت سے زیادہ مفید ہے۔
آپ کی جسمانی و روحانی اولاد تو بے شمار ہے مگر یہاں ہم صرف اتنا بتانے پر اکتفا کریں گے کہ آپ کے خلیفہ اول جناب قطب جمال الدین ہانسوی ہیں۔ دوم جناب مولانا نظام الدین محبوب الٰہی جن سے سلسلہ نظامیہ چشتیہ چلا۔ سوم جناب مخدوم علاو?الدین کلیر صابر ہیں۔ جن سے چشتیہ صابریہ کا سلسلہ منسوب ہے۔
آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اولیاءاللہ کے اندر سب سے زیادہ ?جہد?بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ہی کیا ہے جو غالباً36برس پر محیط ہے۔

No comments:

Post a Comment